عقیل کریم ڈھیڈی پاکستان کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں، وہ قربانی کے جانور پالنے کے بھی شوقین ہیں اور اس میں کافی فخر محسوس کرتے ہیں، وہ خصوصی طور پر سبّی کے جانور پالنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
سبی پاکستان کے غریب ترین اضلاع میں سے ایک ہے، قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری کی غربت کے حوالے سے ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سبی کی کم وبیش 48 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، سٹاک بروکر اور رئیل اسٹیٹ سرمایہ کارعقیل کریم ڈھیڈی پاکستانی کاروباری برادی میں اپنے مختصر نام اے کے ڈی سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی دولت کا اندازہ 1 ارب ڈالر لگایا جاتا ہے، جب عید الضحیٰ کے موقع پر وہ جانور خریدنے کیلئےکسی اور جگہ کی بجائے سبی کا رخ کرتے ہیں۔
گوکہ سبی کے مویشی کافی مہنگے تصور کیے جاتے ہیں تاہم ڈھیڈی کو ان میں خصوصی دلچسپی ہے، انگریزی میگزین ہیرلڈ کو ایک بار انٹرویو میں ڈھیڈی نے بتایا تھا کہ سبی کے بیل خالص النسل ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں، کیونکہ سبی کے لوگ اپنے گائیں فروخت نہیں کرتے نا ہی وہ کراس بریڈنگ کرواتے ہیں اس لیے ایک ہی نسل سالہا سال سے چلی آ رہی ہے۔
ظاہر ہے یہ بات غلط فہمی کی بنیاد پر کی گئی ورنہ تو مختلف نسلوں کے ملاپ سے جسامت میں زیادہ بڑے اور مضبوط جانور پیدا کیے جا رہے ہیں، تاہم عقیل کریم ڈھیڈی کی سبی کے جانوروں کو ترجیح دینے کی وجہ جو بھی رہی ہو، بات یہ ہے کہ ہر سال عید قربان کے نزدیک ان کے آبائی علاقے میں مویشیوں کا میلہ سجتا ہے جہاں سے وہ بھی اپنا شوق پورا کرتے رہتے ہیں۔
’’منافع‘‘ کو معلوم پڑا ہے کہ سبی سے کم وبیش سو گروپ اپنے مویشی لیکر کراچی کی سہراب گوٹھ مویشی منڈی میں آتے ہیں، ہر گروپ میں پانچ سے دس افراد ہوتے ہیں، جن میں عام طور پر ایک سیلز مین، ایک سویپر، چارہ ساز، چارہ کھلانے والا ہوتا ہے اور بعض اوقات ایک ہی آدمی یہ سارے کام سنبھال لیتا ہے، مویشیوں کی تعداد کیساتھ افراد کی تعداد کم زیادہ ہوتی رہتی ہے، عام طور پر مویشیوں کے مالکان یا تاجر غریب نہیں ہوتے تاہم ان کے ساتھ ہاتھ بٹانے کیلئے آنے والے افراد غریب ہوتے ہیں۔
کراچی کی ان مویشی منڈیوں میں خریداروں کی زیادہ توجہ سبی سے لائے گئے بیلوں گائیوں سے ہوتی ہے کیونکہ زیادہ فربہ ہوتے ہیں اور دیکھنے میں بھی سفید ہونے کی وجہ سے خوبصورت نظر آتے ہیں۔ یہ جانور خریدنا بھی اپنے گردونواح کے لوگوں میں معزز بنا دیتا ہے، قربانی تک جانور کی خوب دیکھ بھال کی جاتی ہے اور بعض لوگ تو باقاعدہ اس کی قربانی کے موقع پر موجود رہنا بھی باعث افتخار سمجھتے ہیں۔
کراچی کی مرکزی مویشی منڈی 900 ایکڑ سے زیادہ رقبے میں پھیلی ہوئی ہے، یہ نیویارک کے سینٹرل پارک مین ہٹن اور ویٹی کن سٹی سے بھی زیادہ ہے، یہاں ہر سال اڑھائی لاکھ سے 3 لاکھ جانور لائے جاتے ہیں۔
عید قربان پر صرف امراء ہی مہنگے ترین جانور نہیں خریدتے بلکہ متوسط طبقہ بھی حسب بساط سا بھر بچت کرکے قربانی کیلئے جانور خریدتا ہے، سماجی وقار کیساتھ مذہبی فریضہ کچھ لوگوں کیلئے ایک مضبوط محرک ہوتا ہے جبکہ کچھ لوگ قربانی کو مذہبی فریضہ کی ادائیگی کا سب سے بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔
عرفان مجاہد کے بھائی عاصم مجاہد سارا سال بچت کرتے ہیں تاکہ وہ بقر عید پر قربانی کا جانور خرید سکیں، ’’جب ہم جانور خریدنے جاتے ہیں تو ہمارا چھوٹا بھائی ہمیں حیران کر دیتا ہے کیونکہ ہمارا بجٹ اگر 60 ہزار سے 70 ہزار تک ہو تو بھائی کہتا ہے کہ 50 ہزار اور بڑھائو اور مہنگا جانور خریدو، وہ سال بھر رقم جمع کرتا رہتا ہے اور پھر اسی رقم سے قربانی کا جانور خرید لیتا ہے۔‘‘
گوکہ حکومت عید قربان پر جانورں کی خریداری پر خرچ ہونے والی رقم کا کوئی ریکارڈ یا حساب کتاب نہیں رکھتی لیکن پاکستان بزنسمین اینڈ انٹلیچوئل فورم کے صدر میاں زاہد حسین کے مطابق گزشتہ سال عید قربان پر 350 ارب روپے ملک بھر میں جانوروں کی خریداری پر خرچ کیے گئے۔ گزشتہ سال 8 ملین جانور 298ارب روپے میں خریدے گئے، 26 ارب روپے قصائیوں اور قربانی کرنے والوں نے کمائے، اسی طرح 10 ارب روپے کی کھالیں فروخت ہوئیں۔ اس تخمینے میں جانوروں کے چارے سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کے اخراجات شامل نہیں جن کی قیمتوں میں عید کے قریب کافی اضافہ ہو جاتا ہے۔
تاہم رواں سال عید قربان سے متعلق معاشی سرگرمیاں کچھ سست رہنے اور گزشتہ سال کی نسبت اخراجات میں چالیس فیصد کمی کا امکان ہے۔ سب سے بڑی وجہ ملک میں معاشی سست روی ہے جو لوگوں کی قوت خرید پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔
میاں زاہد حسین کے مطابق ’’رواں سال معیست کی حالت کافی کراب ہے، اس لیے عید قربان پر کم و بیش 200 ارب کی معاشی سرگرمی متوقع ہے، عید قریب ہے لیکن پھر بھی مویشی منڈیوں میں معاشی سرگرمیاں کچھ زیادہ زور شور سے وقوع پذیر نہیں ہو رہیں ہیں حالانکہ گزشتہ سال یہ صورتحال ہر گز نہ تھی‘‘

’’منافع‘‘ کے ذرائع نے تصدیق کی کہ مویشی منڈیوں میں ابھی تک خریدوفروخت نہیں بڑھی جبکہ سال گزشتہ میں یہ صورتحال نہیں تھی۔
زاہد حسین نے کہا کہ چونکہ قیمتیں بڑھ چکی ہیں اس لیے مویشیوں کے تاجر بھی گزشتہ سال کی نسبت زیادہ دام مانگ رہے ہیں، لیکن پچھلے سال کی نسبت ایک متوسط شہری کی آمدنی کم ہو چکی ہے، اس لیے حالیہ عید پر یہ کاروبار دو دھاری تلوار بن چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ جس سے لگتا ہے کہ اس سال کاروبار کم ہو گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے اور مہنگائی کے باعث چمڑے کی صنعت بدحالی کا شکار ہے حالانکہ اس صنعت کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات میں خاصا اضافہ ہوتا تھا۔ ’’ اس سال کم جانور قربان ہونگے، بہت سے لوگ جو پہلے بکرا قربان کرتے تھے اب گائے میں حصہ ڈھونڈیں گے، بہت سے لوگ جو پہلے گائے میں حصہ ڈالتے تھے اس بار شائد سرے سے قربانی کر ہی نہ سکیں۔ اس کے نیتجے میں کھالیں کم پیدا ہونگی اور چمڑے کا کاروبار کرنے والے چونکہ پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں تو وہ قیمتیں مزید کم کردیں گے۔‘‘
جس شخص پر قربانی فرض ہو وہ بکرے، مینڈھے وغیرہ کی قربانی کر سکتا ہے اور گائے میں بھی حصہ ڈال سکتا ہے جس کے کل سات حصے کیے جاتے ہیں اور یہ بکرے یا مینڈھے کی نسبت قدرے سستا پڑتا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد علی اس سال بکرے خریدنے کیلئے میر پور خاص گئے لیکن خریدے بغیر ہی واپس آگئے کیونکہ بکروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ ایک اوسط صحتمند بکرے کی قیمت 30ہزار سے35 ہزار روپے مانگی جا رہی تھی ، اب وہ مون سون کی بارشوں کا انتظار کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مالکان قیمت پر کچھ مک مکا کر لیتے ہیں۔
تاہم محمد علی کہتے ہیں گزشہ سال بھی بکرے مہنگے تھے کیونکہ طلب اور رسد کا کافی فرق تھا، مالکان رواں سال بھی وہی قیمت لینا چاہتے ہیں تاہم عام آدمی کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس وجہ سے ہو سکتا وہ پرانی قیمت وصول نہ کرسکیں، یا تو انہیں قیمتیں گرانی ہوں گی یا پھر مویشی ویسے ہی واپس لے جانے ہونگے۔
عقیل کریم ڈھیڈی جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ ان کے مویشی میلے کو دولت کی ناجائز نمائش تصور کرتے ہونگے تاہم وہ کہتے ہیں کہ قربانی اسی طرح طمطراق سے ہی ہونی چاہیے۔ ’’میرے باپ دادا نے مجھے یہ سکھایا ہے، میرے بعد میرے بچے بھی یہ کریں گے۔‘‘ جو کچھ ڈھیڈی کرتے ہیں اور انہوں نے فرمایا یہ سب ان کے فیملی کا ایک طرح سے رواج ہے اور ختم ہونے والا نہیں۔
لائیو سٹاک اور پاکستانی معیشت:
عید قربان پر لائیوسٹاک ایک پورا بزنس بن جاتا لیکن دراصل پاکستان میں یہ غریب آدمی کا کام ہے، ہر 6 پاکستانیوں میں سے ایک لائیوسٹاک کے ساتھ منسلک ہے اور یہ ملکی جی ڈی پی کا 11 فیصد ہے، ملک بھر میں 17 فیصد افراد لائیوسٹاک کی تجارت سے جڑے ہیں تاہم زیادہ تر غریب گھرانے ہی اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں لائیوسٹاک کی ہر قسم کی بھیڑیں، بکریاں، بھینسیں وغیرہ کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں، گزشتہ کچھ سالوں سے کچھ کمپنیاں اور صوبائی حکومتیں بھی کوشاں ہیں اور پاکستانی کسانوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں کہ وہ تجارتی مقاصد کیلئے اپنے جانوروں کی افزائش بڑھائیں، تاہم اس حکمت عملی کے ابھی تک آدھے نتائج برآمد ہوسکے ہیں، سن دو ہزار تین سے سن دو ہزار پندرہ تک کے بارہ سالوں میں پاکستانی گوشت کی بیرونی ممالک کو برآمد میں 27 فیصد اضافہ ہوا اور یہ سالانہ 264 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھی تاہم گزشتہ تین سال کے دوران پاکستان کی گوشت کی برآمد بھی13 فیصد کم ہو کر227 ملین ڈالر کی رہ گئی ہے۔
کراچی کی ایک ایگری بزنس کمپنی کے سی ای او کاظم نمازی کہتے ہیں کہ ’’اگر پاکستان زراعت میں دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو پھر ہمیں سب کچھ چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘
صرف فوجی میٹ لمیٹڈ ایک پبلکلی لسٹڈ کمپنی ہے جو گوشت کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ کمپنی 2016 میں قائم ہوئی تھی، 2018میں اسے 1.3 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ایسا ہی 2017میں بھی ہوا تھا، جس کی وجہ سے کمپنی کی آمدن میں ایک سال کے دوران 9.9 فیصد کمی ہوئی۔
مسئلے کہ وجہ بالکل سادہ سی ہے کہ کمپنی ایک ایسی مارکیٹ میں کوشاں ہے جو بالکل بکھری ہوئی ہے، پاکستان میں بمشکل کوئی کیٹل فارم ہو گا جہاں بیک وقت ایک ہزار یا اس سے زیادہ جانور موجود ہوں، اس کا موازنہ اگر برازیل یا امریکا سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہاں تو ایک ایک فارم میں 10 لاکھ سے بھی زیادہ مویشی ہوتے ہیں۔ مویشیوں کی آبادی پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے پاکستان کو اب یہ چیلنج درپیش ہے کہ یہ دولت مند خلیجی ریاستوں کی گوشت کی ضرورت بھی پوری نہیں کر سکتا، گوشت کی عالمی مارکیٹ میں حریف ممالک کی نسبت پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، دنیا کی دوسری نکڑ سے برازیل خلیجی ریاستوں کو پاکستان کی نسبت زیادہ گوشت سپلائی کرتا ہے، حالانکہ اس کا سمندری فاصلہ کسی بھی خلیجی ریاست تک پورے ایک ہفتے کا ہے۔
پنجاب اورسندھ کو حکومتیں اپنے طور لائیو سٹاک سیکٹر کی کافی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں، مویشیوں کی خوراک اور ادویات پر سبسڈی دی جاتی ہے تاکہ تجارتی مقاصد کیلئے مویشی پالے جا سکیں۔
لیکن اگر کوئی سمجھے کہ عید پر جانوروں کی فراہمی ایک مسئلہ تو ایسا بالکل بھی نہیں، آٹھ ملین جو جانور پاکستان میں عید پر قربان ہوتے ہیں وہ پاکستان میں لائیوسٹاک کی کل آبادی کا محض پانچ فیصد ہیں۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق کل ایک 160 مویشی پائے جاتے ہیں۔
سبی کے غریب کسان شائد ہی خلیجی ریاستوں کی گوشت کی مارکیٹوں سے کبھی فائدہ اٹھا سکیں تاہم عقیل کریم ڈھیڈی کی سرپرستی کے باعث وہ کچھ نہ کچھ ضرور کما لیتے ہیں۔