گھر بنانے کا موقع کچھ لوگوں کیلئے زندگی میں صرف ایک بار آتا ہے، اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہر شخص اپنے گھر کیلئے ہر چیز بہترین خریدنا چاہتا ہے تاہم پھر سوال قیمت، معیار، سٹائل اور مالی استطاعت کا آ جاتا ہے، پھر یہ بات بھی ہے کہ جب کوئی گھر بنا رہا ہو تو دکاندار اسے اکثر وبیشتر غیر معیاری چیزیں بھی بڑی مہارت سے بیچ دیتے ہیں۔
پاکستان میں یہ مصیبت اور شائد بدقسمتی ہے کہ رٹیلرز یہاں دعوے تو بڑے بڑے کرتے ہیں لیکن معیار کا خیال نہیں رکھتے اور گاہکوں کو غیر معیاری چیزیں بیچ دیتے ہیں، تاہم ایک کمپنی اس تصور کو تبدیل کر رہی ہے، یہ کمپنی پاکستان میں ٹائلز اور سرامکس فٹنگز کے شعبے میں فلیگ شپ سٹور شروع کرنے جا رہی ہے۔
کیل سرامکس کے شعبے میں کام کرنے والی ترکی کی سب سے بڑی کمپنی ہے جو پاکستان میں فرنچائز ماڈل پر کام کر رہی ہے، پاکستان میں کمپنی کے معاملات اس کے سی ای او حسن شاہ اپنی ٹیم کیساتھ ملکر چلاتے ہیں جبکہ کمپنی کے زیادہ تر انتظامی معاملات ترکی سے ہی چلتے ہیں، حسن شاہ کمپنی کے لوکل پارٹنر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔
کیل فلیگ سپ سٹور ماڈل پر کام کر رہی ہے جیسا کہ اکثر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے برانڈ کی عالمی پہچان بنانے کیلئے کرتی ہیں، ان سٹورز پر کیل کی تمام پراڈکٹس دستیاب ہوتی ہیں اور ہر سٹور کو کیل کی ترکش ٹیم نے ڈیزائن کیا ہے۔
کچھ برانڈز صرف ٹائلز یا فکسچرز فراہم کرتے ہیں تاہم ان کے برعکس کیل مکمل سینٹری سلیوشنز مہیا کرتی ہے جس میں فرشی ٹائلز، باتھ روم ٹائلز، کچن ٹائلز سٹیٹ آف دی آرٹ باتھ روم فرنیچر شامل ہے جس کی وجہ سے کمپنی اپنے مدمقابل کمپنیوں سے آگے ہے۔
ابراہیم بدر نے سن انیس سو ستاون میں کیناکیل سرامکس فیکٹریز کارپوریشن کے ساتھ ’’کیل‘‘ ترکی کی بنیاد رکھی تھی اور یہ جلد ہی ترکی میں سرامکس کی مارکیٹ کا بڑا نام بن گئی۔ اپنی بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے یہ کمپنی ترکی سے باہر پوری دنیا میں اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب ہوئی۔ سرامکس مینوفیکچرنگ اور کنسٹرکشن کیمیکل سیکٹر میں کیل یورپ کی تیسری جبکہ دنیا بھر میں بارہویں بڑی کمپنی مانی جاتی ہے جبکہ پیداوار اور سیلز کے حساب سے یہ ترکی اور مشرق وسطیٰ میں پہلے نمبر پر جبکہ یورپ میں پانچویں نمبر پر ہے۔
کیل نے جب سے مشینری مینوفیکچرنگ، دفاعی سامان، برقی آلات، توانائی، آئی ٹی، ترانسپورٹیشن، سیاحت اور فوڈ انڈسٹری سے متعلقہ سترہ کمپنیوں میں سرمایہ کاری ہے اس نے کافی ترقی ہے۔
کیل ترکی کی بڑی انٹرپرائزز میں سے ایک سمجھی جاتی، اس میں پانچ ہزار ملازم کام کر رہے ہیں اور کاروبار ترکی سے باہر اٹلی اور روس تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سو فیصد نجی کمپنی ہوتے ہوئے یہ دفاعی اور ہوا بازی کے شعبوں میں کافی اثرورسوخ رکھتی ہے، سو ممالک میں چار سو سے زیادہ سیلز پوائنٹس پر کیل اپنی پراڈکٹس فروخت کر رہی ہے۔
چونکہ ٹائل انڈسٹری کا آغاز اٹلی سے ہوا تو اپنی بہترین لوکیشن کی بناء پر کیل کیلئے اس انڈسٹری میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اٹلی سے منگوانا کافی آسان رہتا ہے، اسی دوران ترکی میں سستی لیبر بھی مل جاتی ہے، کمپنی ستائیس اقسام کی ٹائلز اور سرامکس پراڈکٹس تیار کر رہی ہے۔
کیل کا ایک پلانٹ ہی دنیا کا سب سے بڑا مینوفیکچرنگ پلانٹ ہے، یہ کمپنی ہر سال 72 ملین مربع میٹر ٹائلز تیار کرتی ہے اور یوں ترکی میں سب سے زیادہ ٹائلز تیار کرنے والی کمپنی ہے، ترکی میں دوسری بڑی کمپنی سالانہ 30 ملین مربع میٹر ٹائلزتیار کر پاتی ہے اور یوں دونوں کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت میں 42 ملین مربع میٹر کا بڑا فرق موجود ہے۔
پاکستان کی ٹائل انڈسٹری کی صورتحال:
دلچسپ طور پر دنیا بھر میں ٹائلوں کی تیاری اور استعمال سے متعلق اعدادوشمار موجود ہیں تاہم پاکستان سے متعلق یہ اعدادوشمار کچھ متاثرکن نہیں ہیں، پاکستان 0.5 مربع میٹر فی کس تیار کر پاتا ہے، تاہم ایشیا کو دیکھا جائے تو چین ساڑھے 3 مربع میٹر، ایران 3.4 مربع میٹر فی کس، ملائیشیا 3.1 مربع میٹر فی کس، ترکی 2.7 مربع میٹر فی کس جبکہ انڈونیشیا1.70 مربع میٹر فی کس ٹائلز تیار کرتے ہیں۔
تاہم کیل اور پاکستان میں اس کمپنی کا ذمہ دار شخص یہ سمجھتا ہے کہ جلد ہی یہ نمبر بہتر ہو سکتے ہیں۔
ملیے پاکستان میں کیل کے سی ای او حسن شاہ سے جو پاکستان میں کیل کو متعارف کرا کر اس انڈسٹری میں انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔ حسن کا انٹرپرینیورشپ کا سفر تب سے شروع ہوتا ہے جب انہوں نے لاہور سکول آف اکنامکس سے مارکیٹنگ میں ماسٹرز کیا اور پھر خاندانی کاروبار میں شامل ہوگئے۔ وہ کہتے ہیں کہ خاندانی کاروبار میں کام کرکے انہوں نے کاروبار چلانے کے گر سیکھے اور بالآخر سن دو ہزار چودہ میں انہوں نے کیل کے ذریعے پاکستان کی معیشت اور صنعت پر دیرپا اثرات چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ بی ٹو بی (بزنس ٹو بزنس) کی بجائے بی ٹو سی (بزنس ٹو کنزیومر) سیمگمنٹ میں جانا چاہتے ہیں اور اس وقت انہیں کنسٹرکشن انڈسٹری اس کیلئے زیادہ موزوں دکھائی دی۔ کیونکہ اس سیکٹر میں بزنس کافی ترقی کر رہا تھا اور پاکستان میں کوئی بیرونی کمپنی کام نہیں کر رہی تھی جس پر تسلسل کے ساتھ سپلائی اور معیار کیلئے انحصار کیا جا سکتا۔ اس لیے حسن شاہ نے سن دو ہزار تیرہ میں ترکی کی ٹائل ساز کمپنی کیل کے ساتھ پاکستان میں کام کرنے کیلئے ایک معاہدہ کیا۔
پاکستان میں مارکیٹ لیڈر بننے کیلئے مواقع اور چیلنجز:
سن دو ہزار نو میں جب حسن شاہ نے دنیا میں سب سے زیادہ ٹائلز بنانے والے ممالک سے متعلق تحقیق کی تو انہیں معلوم ہوا کہ سپین، اٹلی اور چین اس فہرست میں سب سے آگے ہیں تاہم دنیا کے پہلے پانچ ٹائلز پروڈیوسرز میں ترکی بھی شامل ہے، یہ چیز کیل کے پس پردہ تھی کیونکہ یہ کمپنی ترکی میں ساٹھ فیصد ٹائلز برآمد کرتی ہے اور دنیا کی بڑی کمپنیوں کا مقابلہ کر رہی ہے، تاہم پاکستان اور ترکی کے مابین اچھے سفارتی و تجارتی تعلقات کے باوجود پاکستانی مارکیٹ میں ترکی کی ٹائلوں کا شئیر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی پوٹینشل کو محسوس کرتے ہوئے سن دو ہزار تیرہ میں حسن شاہ دنیا می سب سے بڑی ٹائلز کی نمائش میں شرکت کیلئے سپین گئے جہاں ان کی ملاقات ترکی کی کمپنی کیل کے ایکسپورٹس مینجر سے ہوئی اور انہوں نے پاکستان میں کمپنی قائم کرنے سے متعلق بات چیت کی۔
سن دوہزار تیزہ کے آخر تک معاہدہ پر دستخط ہوگئے، سن دو ہزار چودہ میں کمپنی نے اپنے دفاتر لاہور میں قائم کرنا شروع کردیے اور سن دو ہزار سولہ میں اسے پہلی شپمنٹ موصول ہوئی تو لاہور میں صرف ایک سٹور سے کاروبار کا آغاز کردیا، اس کے بعد لاہور میں مزید سٹور کھولے گئے، فیصل آباد، ملتان، اسلام آباد، کراچی میں سٹور بنائے گئے، کمپنی گوجرانوالا، پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی سٹور کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
حسن شاہ نے بتایا کہ پاکستان میں چینی ٹائلیں پندرہ سو فی مربع فٹ جبکہ سپینش ٹائلیں تین ہزار فی مربع فٹ کے حساب سے فروخت ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے کیل کو بھی پاکستان میں اچھا آغاز کرنے کا موقع ملا، اس کے علاوہ سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں پاکستان میں ٹائل انڈسٹری نے تریپن فیصد کے مارجن سے ترقی کی۔ حسن کے مطابق یہ ابھی آغاز ہے، آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں طرز رہائش بھی تبدیل ہو رہا ہے، اسی کے مطابق ٹائلز کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے، انہوں نے بتایا کہ ٹائل اندسٹری میں کافی خلاء موجود ہے جسے دیکھ کر ہی کیل نے اس میدان میں قدم رکھا۔
کیل صرف فرسٹ چوائس ٹائلز فروخت کرتی ہے، اس کے برعکس دیگر امپورٹرز سیکنڈ چوائس ٹائلز بیچتے ہیں جو بیس فیصد پر خرید کر گاہک کو پوری قیمت پر ہی بیچی جاتی ہیں، اسطرح یہ لوگ کسٹمر کے ساتھ دھوکا دہی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر امپورٹرز کچھ مخصوص کمپنیوں سے ٹائلز امپورٹ کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک محدود سٹاک ہی فراہم کرسکتے ہیں، ایسے میں کنزیومر کیلئے کافی مشکل پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ اگر وہ مخلتف ڈیزائن کی ٹائلز خریدنا چاہ رہا ہے تو اسے نہیں ملتی ہیں اور اسے موجود سٹاک میں سے ہی منتخب کرنا پڑتی ہیں، اس کے برعکس مینوفیکچرر ہونے کی بناء پر کیل سٹاک اور ڈیزائن پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔
سن دوہزار سولہ میں لاہور میں ایک سٹور شروع کرنے والی ’’کیل‘‘ چار سالوں میں امپورٹڈ ٹائلز کے شعبے میں پاکستان میں مارکیٹ لیڈر بن چکی ہے۔ حسن اس کامیابی کا کریڈٹ ان پروجیکٹس کو دیتے ہیں جو انہیں کام کے آغاز میں ہی مل گئے جن میں پیکجز مال، حمید لطیف ہوسپٹل، کریسنٹ بے، مینیسو سٹور شامل ہیں جبکہ اب انہیں پینٹا سکوئر، ڈی ایچ اے بزنس حب، مالم جبا سکائی ریزورٹ اور نشاط اپارٹمنٹس سمیت کئی اور پروجیکٹ مل چکے ہیں۔
پاکستان میں ’’کیل‘‘ کے سی ای او حسن شاہ نے مزید کہا کہ انہیں یہاں کے کنزیومر کی جانب سے بھی اچھا تاثر ملا ہے، پاکستان میں زیادہ تر کنزیومرز کو سیکنڈ چوائس ٹائلز اور سٹاک کی وجہ سے دھوکا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کنزیومر کا کام متاثر ہوتا ہے بلکہ اسے نقصان بھی ہوتا ہے، تاہم ’’کیل‘‘ پر کنزیومرز کو یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ انہیں فراہم کردہ ٹائلز فرسٹ چوائس ہیں اور سٹاک کا مسئلہ بھی نہیں ہو گا کیونکہ ’’کیل‘‘ یہ ٹائلز خود بناتی ہے۔
حسن اپنی شاندار کامیابی کا کریڈٹ اپنی ٹیم کو بھی دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم نے تین افراد کی ٹیم کیساتھ شروع کیا تھا تاہم اب ہماری ٹیم تین سو تک پہنچ چکی ہے، ہمارا ہر رکن برانڈ کو ترقی دینے کے لیئے پرعزم ہے۔ ہم کسٹمر سپورٹ کیساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں، اگر ہمارا کلائنٹ آدھی رات کو بھی کال کرے تو ہمارا سٹاف اس کا مسئلہ حل کرنے کیلئے موجود ہوگا۔‘‘
تاہم حسن شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ انڈسٹری معیاری خام مال، ڈیزائن اور تحقیق اور ترقی کی کمی کا شکار ہے، انہوں نے بتایا کہ انڈسٹری میں یہ بات مشہور ہے کہ سارا دن آپ ٹائلیں بنائیں اور دن کے اختتام پر آپ کو پتہ چلے کہ ساری ٹائلیں ناقص ہیں تو سوائے ناقص ٹائلوں کے قبرستان کے کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں ٹائل انڈسٹری معیار کا بالکل خیال نہیں رکھتی، خام مال کی جانچ کیلئے کوئی لیبارٹری موجود نہیں اس لیے خام مال چھوٹی سی تبدیلی بھی مینوفیکچررر کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ ’’اس لیے پہلی ترجیح تو یہ ہونی چاہیے کہ مائنز کے نزدیک مٹریل ٹیسٹنگ لیبارٹریز بنائی جائیں اور ایسی کمپنیاں بنائی جائیں جو معیاری خام مال فراہم کریں کیونکہ کوئی بھی مینوفیکچرر مائنز سے براہ راست خام مال کرنا برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ معیار کنٹرول نہیں کرسکیں گے۔‘‘
حسن نے مزید کہا کہ اس سیکٹر میں ڈیزائن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ٹائل مہنگی تب ہی بکتی ہے جب اس کا ڈیزائن اچھا ہو، اگر ڈیزائن پرانا اور کسٹمر کی ڈیمانڈ کے مطابق نہ ہوا تو تو سستی بکے گی۔
’’کیل‘‘ اپنی کل آمدنی کا 2 فیصد تحقیق پر خرچ کرتی ہے، اس کے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں 70 کے قریب ملازم کام کر رہے ہیں اس کے علاوہ ہمہ وقت ڈیزائن بہتر سے بہترین بنانے کیلئے اٹلی میں ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ڈیزائن ہائوس موجود ہے، خام مال کو عالمی معیار کے مطابق پرکھا جاتا ہے تاکہ پیداوار میں کسی قسم کا نقص موجود نہ ہو۔
اسی عزم کی بناء پر ’’کیل‘‘ کے پاس دنیا کی پتلی ترین (تین ملی میٹر) ’’کیل سنٹرفلیکس ٹائل‘‘ بنانے کا ریکارڈ موجود ہے، یہ ٹائل فرش کے علاوہ مکان کے فرنٹ پر یا دروازوں میں بھی لگائی جا سکتی ہے اور فرنیچر میں کام آ سکتی ہے، یہ ون بائی تھری میٹر کی لمبائی میں آنے والی چند ٹائلوں میں سے ایک ہے جو لگانے پر جھریاں یا جوڑ نہیں بنتے جس کی وجہ سے ڈیزائن اور بھی شاندار لگتا ہے۔ دلچسپ طور پر یہ ٹائل سکریچ اور کیمیکل کیخلاف مزاحمت کرتی ہے، انٹی بیکٹیریل اور آگ نہ پکڑنے والی یہ ٹائل بیس سال نکال سکتی ہے۔
حسن شاہ کہتے ہیں کہ ’’کسی عمارت یا شہر کی خوبصورتی بہت زیادہ ضروری ہے، باہر کی دنیا میں آپ خوبصورت عمارتیں دیکھتے ہیں، سب سے بڑھ کر انکا بیرونی منظر خوبصورت ہوتا ہے، ہمیں پاکستان میں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک سیاحوں کیلئے پرکشش بن جائے تو ہمیں اسے خوبصورت بنانا ہوگا۔‘‘
حسن شاہ کے مطابق ٹائل انڈسٹری کا مستقبل پتلی ٹائلوں، بڑی سلیبز، دھونے کے قابل اور سب سے بڑھ کر ماحول دوست ٹائلوں میں ہے جیسا کہ سینٹرفلیکس ٹائل ہوتی ہے، جسے لگاتے ہوئے اس کے پتلے ڈیزائن کی وجہ سے پانی اور میٹریل کی کم از کم ضرورت ہوتی ہے۔
ٹائل انڈسٹری کو درپیش مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے حسن شاہ نے کہا کہ دیگر مشکلات کے علاوہ پالیسی اور ایکسچینج ریٹ کے مسائل موجود ہیں، پاکستانیوں کے دن بدن بہتر ہوتے طرز زندگی کی وجہ سے حسن شاہ پرمید ہیں کہ ٹائل انڈسٹری آئندہ سالوں میں مزید ترقی کریگی اور اس ترقی میں ان کی کمپنی انڈسٹری لیڈر کا کردار ادا کریگی۔
اگر آپ دولت کی بات کریں تو وہ پاکستانیوں کے پاس بہت زیادہ ہے، رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی ترقی دیکھ لیں کہ لوگوں کے پاس کتنے بڑے بڑے گھر موجود ہیں اور اپنے ارد گرد چمچماتی کاریں دیکھ لیں لیکن حسن شاہ کہتے ہیں کہ موجود حکومت کے دور میں بڑھتی ہوئی نگرانی کی وجہ سے لوگ زیادہ خرچ نہیں کریں گے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ یہ غیر دستاویزی معیشت کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستان میں لوگ ٹیکس چوری کی عادت ڈال چکے ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ غیر قانونی دولت اور خفیہ اثاثے ملک کی بہتری کیلئے ریگولرائز ہونے چاہیے اور حالیہ ایمنیسٹی سکیم اسی حوالے سے تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی پالیسیوں میں استحکام نہیں ہوتا جس کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور یہ غیر یقینی سرمایہ کاری اور کاروبار کیلئے مہلک ثابت ہوتی ہے۔ اب ملک میں معاشی اور سیاسی دونوں لحاظ سے ہی غیر یقینی کی فضاء ہے، ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے اب ہم پروجیکٹ ڈالرز میں بُک کر رہے ہیں کیونہ ایکچینج ریٹ پہلے ہی ہمارا منافع ہڑپ کر چکا ہے۔
مستقبل میں کیا ہوگا؟
پاکستان میں ٹائل انڈسٹری کی ڈیمانڈ 115 ملین سکوائر میٹر سے 120 ملین سکوائر میٹر کے درمیان ہے، جبکہ پاکستان میں صرف ستر ملین سکوائر میٹر ٹائلز تیار کی جا رہی ہیں، باقی طلب ٹائلز درآمد کرکے پوری کی جاتی ہے اور بڑی مہارت سے ’’کیل‘‘ نے درآمدی حصے کو پر کیا ہے، لیکن یہ کافی نہیں۔
حسن کہتے ہیں کہ وہ ’’کیل‘‘ میں رہتے ہوئے ملک کیلئے کافی کچھ کرسکتے ہیں، جلد ہی کمپنی پاکستان میں ایک مینوفیکچرنگ یونٹ قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کی وجہ سے ناصرف قیمتوں میں فرق پڑے گا بلکہ روزگار کے کافی مواقع پیدا ہونگے، پاکستان کا درآمدی بوجھ بھی کم ہو گا اور بیرونی خسارے میں کمی ہوگی۔ ٹائلز کی برآمد کا کافی پوٹینشل موجود ہے، اگر پاکستان اپنی طلب پوری کرکے اضافی ٹائلز بنانے تو کافی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے، اس کیلئے انڈیا کے ماڈل پر کام کرنا ہوگا جو ٹائلز اور سینٹری پروڈکٹس پوری دنیا کو بیچ رہا ہے۔ کچھ سال قبل عالمی مارکیٹ میں بھارت کی پہچان نہ ہونے کے برابر تھی لیکن ان کی حکومت کی کاروبار دوست پالیسیوں کی وجہ سے اب وہ سرپلس پروڈکشن کر رہے ہیں اور پوری دنیا کو کم قیمت پر برآمد کررہے ہیں۔
’’کیل‘‘ پاکستانیوں کیلئے نیا برانڈ ضرور ہوگا تاہم اس کے سی ای او حسن شاہ کا کہنا ہے کہ فلیگ شپ سٹورز کے ماڈل پرکام کرکے یہ پاکستان کیساری انڈسٹری پر چھا سکتی ہے، ’’ہم صرف امپورٹڈ سیگمنٹ میں مارکیٹ لیڈر بننے کی بجائے اس سے آگے جانا چاہتے ہیں، کیل پاکستان میں مینوفیکچرر بننا چاہتی ہے اور ملٹی نیشنل کمپنی ہوتے ہوئے روزگار کے مواقع مہیا کرنا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ٹائلز کی برآمدات میں پاکستان میں ٹائل انڈسٹری کی ریڑھ کی ہڈی بن جائیں۔‘‘