کیا معاشی محاذ پر پی ٹی آئی حکومت بھی اسحاق ڈار والی غلطیاں ہی دہرا رہی ہے؟

571

 

پاکستان کا پارلیمانی نظام کچھ ایسی نوعیت کا ہے کہ جب ہر سال اہم ترین بل یعنی بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو اس بل پر سب سے کم بحث ہو پاتی ہے، حالانکہ یہی ایک بل ہے جس کا نام لکھ کر آئین میں کہا گیا ہے کہ اس پر بحث ہونی چاہیے۔ صرف سینٹ کی فنانس کمیٹی پارلیمنٹ میں واحد ایسا فورم ہے جہاں اس بل پر کسی حد تک بحث ہو پاتی ہے۔ جبکہ سینٹ کو بطور ایوان بالا بجٹ بل پر ووٹ دینے کا بھی اختیار نہیں ہے اور صرف یہی ایک بل ہے جو سینٹ کے اختیارات سے باہر ہے ورنہ ہر بل قومی اسمبلی سے پاس ہو کر سینٹ سے بھی پاس کروانا لازمی ہوتا ہے بصورت دیگر اس کا نفاذ نہیں ہو پاتا۔

یہ بے حد حوصلہ شکن بات ہے کہ سینٹ کی فنانس کمیٹی وزیر اعظم عمران خان کے دور میں کیسے کام کررہی ہے، ذیل کا واقعہ پڑھیے آپکو اندازہ ہو جائیگا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر طلحٰہ محمود نے سینٹ کی فنانس کمیٹی میں یہ تجویز دی کہ سٹیٹ بینک کو ایکسچینج ریٹ ایک سو پچاس روپے فی ڈالر پر برقرار رکھنا چاہیے اور کمیٹی نے بغیر کسی بحث کے سینیٹر کی تحریک سے اتفاق بھی کرلیا، لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس تحریک سے متعلق کتنے ماہرین معاشیات، وکلاء، اکائونٹنٹس یا سول سرونٹس سے مشورہ لیا گیا؟ اس ’معاشی پالیسی‘ کے حوالے سے رائے دینے کیلئے ایک بھی اکانومسٹ کو دعوت نہیں دی گئی۔

دونوں ایوانوں میں سے سینٹ میں معاملات پر زیادہ بحث ہونی چاہیے، اس کے ارکان براہ راست الیکشن سے منتخب ہو کر آنے کی بجائے صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے منتخب ہو کر آتے ہیں، اس لیے ایسے لوگ پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں جو شائد انتخابی سیاست میں موزوں نہیں ہوتے۔ تاہم سینٹ فنانس کمیٹی میں چونکہ بجٹ پر نظر ثانی کی ذمہ دار بھی ہوتی ہے اس لیے اس میں زیادہ ماہر اور قابل سینیٹرز ہونے چاہیں۔

تاہم اس وقت یہ نقطہ زیر بحث نہیں ہے، حکومتی پالیسیوں کی کڑی نگرانی کرنے کی بجائے اس کمیٹی میں شامل سینیٹرز اس حد تک سستی اور بے دلی سے کام کرتے ہیں کہ جب انہیں ٹیکس اور ٹریڈ پالیسی سے متعلق ایک تین صفحات کی دستاویز پیش کی گئی تو کسی نے اسے پڑھنا تک گوارا نہیں کیا اور وہاں موجود ایک اعلیٰ افسر کو اس دستاویز میں لکھی پالیسی ترامیم کا ’نچوڑ‘ بآواز بلند پڑھنے کا حکم دیا۔

ہو سکتا ہے یہ کرپشن نہ ہو لیکن منتخب پارلیمنٹ کے ایک حصے کی جانب سے یہ پرلے درجے کی نااہلی اور اپنے فرائض سے بدترین کوتاہی ضرور ہے۔

حیرت ہوتی ہے یہ جان کر کہ انہوں نے ایسی پالیسی منظور کردی جو ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے اور وزیراعظم عمران خان کا آخری بیل آئوٹ کا عزم ایک لطیفہ بن کر رہ جائیگا۔

 ماضی کی غلطیوں کو دہرایا جا رہا ہے:

یہاں کچھ چونکا دینے والے اعدادوشمار دئیے جا رہے ہیں: تیس جون دو ہزار انیس کو ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان کے جی ڈی پی میں دس اعشاریہ تین فیصد کمی ہوئی، اس سے بھی چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ پچھلی بار سن انیس سو تہتر میں ملکی معیشت اس صورتحال سے دوچار ہوئی تھی وہ بھی اس لیے کیونکہ سن انیس سو اکہتر کی جنگ کے اثرات ملکی معیشت پر گہرے نقوش چھوڑ گئے تھے۔

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مصنوعی طور پرایکسچیج ریٹ کو بلند سطح پر رکھا ہوا تھا اور ایسا کرنے کیلئے انہوں نے زرمبادلہ کے ذخائر کو کم کردیا، ایکسچینج ریٹ بھی زیادہ تر میکرواکنامک لیورز کی طرح بالکل ربڑ بینڈ جیسا ہوتا ہے، اسے جتنا آپ کھینچیں گے اتنی ہی اس کی شکل بدلتی جاتی ہے اور جب آپ اسے چھوڑیں گے تو اتنی ہی قوت سے واپس پلٹے گا۔

ڈار نے کافی عرصہ روپے کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھا اور جب یہ گرنے لگا تو اینٹوں کی قطار کی مانند گرتا چلا گیا اور حکومت اس پر کنٹرول نہیں کرسکی۔ روپے کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاشی صورتحال دراصل اتنی بری بھی نہیں جتنی نظر آتی ہے، بس معاشی سرگرمی سست ہو چکی ہے اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ صرف ڈالر کے تناظر میں دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ معیشت واقعی ہی تباہی سے دوچار ہے اور ایسا سن انیس سو تہتر کے بعد پہلی دفعہ ہو رہا ہے۔

تاہم پاکستان نا دوسری معیشتوں سے روپے میں کاروبار کرتا ہے نا ہی ان سے روپے میں کچھ خریدتا ہے بلکہ ڈالر استعمال ہوتاہے، روپے کی بے قدری اور معاشی صورتحال کے بگھاڑ کا سراسر نقصان صرف اور صرف عوام کو ہو رہا ہے اور تب تک ہوتا رہے گا جب تک اس مسئلے کا مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت موجودہ معاشی بدحالی کا ذمہ دارسابق حکومت کو ٹھہراتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بدقسمتی سے سابق حکومت والی حماقت ہی کر رہی ہے، وہ حماقت جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت سے چلی آ رہی ہے۔

(کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد رکھنے والی نسل نے معاشی محاذ پر بہتر کام کیا؟ نہیں! وہ بھی ایسے ہی نااہل تھے جیسے اب ہیں)

منافع پر کچھ عرصہ پہلے ہم نے معاشی پالیسی کی پوری تاریخ بیان کی تھی اور یہ بھی واضح کیا تھا کہ یہ ایسی کیوں ہے ۔ تاہم یہ ذکر کرنا اہم ہوگا کہ سینٹ میں جس نے قرارداد پیش کی اور جنہوں نے اس کیلئے ووٹ دیا انہیں احساس نہیں ہوا کہ یہ پالیسی ملک کیلئے کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

منافع کے استفسار پر پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے تسلیم کیا کہ ڈالر کے مقابل روپے کی قدر مخصوص کرنے کی تجویز مضحکہ خیز ہے، تاہم فاروق نائیک نے کمیٹی کے اجلاس کے بعد کچھ نہیں کہا۔

دیگر ارکان نے کہا کہ کرنسی کی گراوٹ کی اجازت دینے سے مہنگائی بڑھتی ہے تاہم کسی نے بھی اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ ہر چند سال کے کرنسی کریش سے بچنے کیلئے یہ پالیسی کتنی پائیدار ہو گی؟ اور ہر تھوڑے عرصے بعد مہنگائی کی جو لہر اور کساد بازاری پیدا ہوتی رہتی ہے اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ جبکہ دوسری طرف آزاد شرح مبادلہ کو اپنایا جائے تو مہنگائی بھی ایک مخصوص حد کیساتھ آہستہ آہستہ بڑھے گی اور معیشت کو زیادہ نقصان ہو گا نا ہی کساد بازاری کا خطرہ ہوگا۔

اب جبکہ سینٹ کمیٹی نے سٹیٹ بنک کو ایکسچینج ریٹ کنٹرول کرنے کا کہا ہے تو ایسے میں سٹیٹ بنک خود بھی کسی حد تک اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وہ بھی ایکسچینج ریٹ کو فکس کرنے سے گریزاں ہے۔

رواں ماہ سٹیٹ بینک ہیڈکوارٹرز کراچی میں ہونے والی ایک بریفنگ میں گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا کہ پاکستانی معیشت کیلئے مکمل آزاد ایکسچینج ریٹ بہتر ہے اور نا ہی مکمل طور پر فکس۔ ہم مارکیٹ کے مطابق ایکسچینج ریٹ پر عمل پیرا ہیں تاکہ مسابقتی عمل بحال ہو سکے اور بیرونی دبائو کا سامنا کیا جا سکے، کم و بیش پچاس کے قریب ممالک اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہیں، ایکسچیج ریٹ کا اتار چڑھائو پاکستان کیلئے نیا نہیں ہے اور بالآخر یہ نیچے آئے گا۔

تاہم گورنر سٹیٹ بینک نے اپنے ہی بیان کے برعکس یہ کہا کہ مارکیٹ کے متتعین کردہ ایکسچینج ریٹ میں سٹیٹ بینک کی مداخلت کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن کیا پاکستان اس وقتی مداخلت پر مزید وسائل خرچ کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟

مہنگائی کا خطرہ:

ایکسچینج ریٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہر کوئی یہ ہی کہتا ہے کہ مہنگائی بڑھے گی جس کا براہ راست اثر غریب پر پڑے گا، یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے، تاہم ایک وسیع نقطہ نظر کی وضاحت نہیں کرتی، غریب سب سے زیادہ اس وقت متاثر ہوتا ہے جب ایکدم افراط زر میں اضافہ ہو جاتا ہے نا کہ تھوڑے تھوڑے اضافے سے۔

یہ درست ہے کہ رواں سال گزشتہ سال کی نسبت مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن کیا تیرہ فیصد مہنگائی پاکستان کے حساب سے خوفناک نہیں؟ یہ کیسے ہو گیا کہ کرنسی پچیس فیصد گری اور مہنگائی بارہ سے تیرہ فیصد بڑھی؟ سادہ سی بات یہ ہے کہ مہنگائی کا انحصار تیل کی عالمی قیمتوں کے بڑھنے گھٹنے پر زیادہ ہوتا ہے کرنسی کی قدر کے کم یا زیادہ ہونے سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جب سے تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں مستحکم ہیں یا کم ہوئی ہیں تو اسی دوران روپے کی قدر کافی حد تک کم ہوئی ہے لیکن مہنگائی آسمان پر نہیں پہنچی۔

مسئلہ ظاہر ہے سب کو معلوم ہے، حکومت بھی جانتی ہے کہ معمول کے مطابق معاشی سرگرمی ایک مخصوص  ایکسچینج ریٹ کا جواز فراہم نہیں کر سکتی، اسی لیے حکومت نے کاروبار کیخلاف کریک ڈائون شروع کر رکھا ہے جس کا مطلب کہ آپ بازو سے بہنے والے خون کو روکنے کیلئے دل کو ہی روک دیں۔ تکنیکی لحاظ سے یہ طریقہ کارآمد تو ہے لیکن اس طرح آپ کو ایک بڑے مسئلے کا سامنا ہوگا۔

اس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات میں یہ بھی شامل تھا کہ بیرون ملک جاتے ہوئے لوگ دس ہزار ڈالر کی بجائے صرف  تین ہزار ڈالر لے جا سکیں گے، دیگر شرائط پہلے ہی کمرشل ٹرانزیکشنز پر اثرانداز ہو رہی تھیں۔

اگر آپ اپنی ہی رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں لے جا سکتے چاہے وہ جگہ کتنی ہی محفوظ یا سرمایہ کاری کیلئے پرکشش کیوں نہ ہو تو آپ آئندہ اس جگہ اپنی رقم لے کر ہی کیوں جائیں گے۔ کوئی بھی بیرونی سرمایہ کار حکومت کی جانب سے سہولتیں فراہم کرنے کے وعدے کو سنجیدہ کیوں لے گا  جب وہ دیکھے گا کہ ان سے پہلے آنے والوں کی تو سرمایہ کاری اس ملک میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ ظاہر ہے ہر سرمایہ کاری کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ سرمایہ کار کسی وقت بھی پیسہ نکال کر استعمال کرسکے، تعریف کے لحاظ سے بیرونی سرمایہ وہ ہوتے ہیں جو آپ کے ملک میں باہر رہتے ہیں اس لیے کسی وقت بھی انہیں اپنی رقم لیکر باہر جانا پڑ سکتا ہے چاہے وہ کتنی مدت سے آپ کے ملک میں سرمایہ کاری کر رہے ہوں۔

اس سے بھی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ حکومت غیر ملکی اثاثوں کیخلاف کریک ڈائون کر رہی ہے اور پاکستانی شہریوں کی جانب سے رقم بیرون ملک لیکر جانے کو مجرمانہ فعل قرار دے رہی ہے، ملک سے رقم باہر لے جانا کیسے غیر قانونی ہو سکتا ہے؟ حکومت یہ یقین کیسے رکھتی ہے کہ دولتمند پاکستانیوں کی دولت صرف زور زبردستی سے ہی واپس لائی جا سکی ہے اور کسی دولتمند پاکستانی کا دولت باہر لے جانا غیر قانونی ہوگا۔

کیا آپکو معلوم ہے کہ سن انیس سو اٹھانوے میں پاکستانی بینکوں کے پاس دس ارب ڈالر کے فارن کرنسی ڈپازٹس تھے لیکن اس وقت کی نواز شریف انتظامیہ نے یہ اکائونٹس منجمد کرکے لوگوں کو اپنے ہی سرمائے سے محروم کردیا۔

سن دو ہزار چار میں یہی ڈپازٹس زیرو اعشاریہ دو ارب ڈالر رہ گئے اور لوگ اپنی رقم باہر نکالتے رہے حتیٰ کہ کچھ بھی باقی نہ بچا۔ فارن کرنسی ڈپازٹس میں اب کتنی رقم موجود ہے؟ صرف سات ارب ڈالر۔ بیس سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی زرمبادلہ کے یہ ذخائر بحال نہیں ہو سکے۔ ایک بار آپ لوگوں کا اعتماد کھو دیں تو اسے بحال کرنے میں عشرے لگ جاتے ہیں ۔

 

تحریر: سیدہ معصومہ، فاروق ترمذی

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here