ہم اکثر اوقات یہ تو سنتے رہتے ہیں کہ دنیا ختم ہو رہی ہے، ہوا میں چھوڑی جانے والی مضر گیسیں اور سمندروں اور زمین کو کو گندہ کرنے والی آلودگی ہمارے سیارے کو زہر آلود کر رہی ہے اور ہمیں مستقل کی بالکل پرواہ نہیں ہے۔
ماحول کی تباہی کا باعث بننے میں آٹو موبائل انڈسٹری کا بھی اہم کردار ہے، اس مسئلے کو کوئی حل نہیں ہے، سوائے اس کے کہ فیول سے چلنے والے کاروں کی جگہ بجلی سے چلنے والی کاریں متعارف کرائی جائیں۔ لیکن درحقیقت یہ کام کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، تاہم کار ساز ادارے پہلے اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے نا صرف کاروبار بلکہ اس سیارے کے مستقبل کیلئے کچھ حل پیش کر رہے ہیں۔
دنیا میں بہت سی کمپنیاں الیکٹرک کاروں میں دلچسپی دکھا رہی ہیں، جرمنی کی لگژری کار ساز کمپنی ڈائیملر ۲۰۳۰ تک بیس ارب یورو کی سرمایہ کاری سے بیٹری سیلز خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ کمپنی بڑے پیمانے پر ہائیبریڈ اور الیکٹرک کاریں تیار کرنا شروع کر چکی ہے۔
ٹیوٹا بھی آئندہ سال کے اختتام تک دس سے زیادہ الیکٹرک کاریں مارکیٹ میں اتارنے کی خواہاں ہے، تاحال ٹیوٹا مکمل ایک بھی مکمل ایلیکٹرک کار نہیں متعارف کرا سکی تاہم یہ ہائیبریڈ گاڑیاں متعارف کروا چکی ہے جن میں بجلی اور گیس دونوں سے چلنے والا انجن ہوتا ہے۔
ٹیوٹا اپنی الیکٹرک کاریں سب سے پہلے چین میں متعارف کرائے گی کیونکہ وہاں نہ صرف سبسڈی دی جاتی ہے بلکہ ماحولیاتی اقدامات کے حوالے دیگر پالیسیاں بھی زیادہ بہتر ہیں، اس کے بعد ٹیوٹا جاپان، بھارت، امریکا اور یورپ میں اپنی بجلی سے چلنے والی کاریں متعارف کرائی گی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ سن دوہزار پچیس تک اس کی کاروں کے کم و بیش تمام ماڈل ہی کسی حد تک الیکٹریفائیڈ ہونگے۔
ٹیوٹا سالانہ دس ملین کاریں دنیا بھر میں فروخت کرتی ہے، اب کمپنی سن دو ہزار تیس تک سالانہ پانچ اعشاریہ پانچ ملین الیکٹرک کاریں بیچنے کا ارادہ رکھتی ہے، کمپنی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دو ہزار تیس کا ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے تیرہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس میں کم و بیش آدھی سرمایہ کاری صرف بیٹریاں بنانے پر ہوگی۔
نسان موٹرز کارپوریشن، واکس ویگن اے جی، ہونڈا موٹرز کارپوریشن اور دیگر کار ساز ادارے بھی بجلی کی کاریں تیار کر رہے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران دنیا بھر میں نو ممالک اور کوئی ایک درجن شہروں کی انتظامیہ نے فیول انجن کو خیر بار کہنے کا اعلان کیا ہے، کوپن ہیگن کے مئیر نے شہر سے ڈیزل پر چلنے والی تمام گاڑیاں ختم کرنا چاہتے ہیں، پیرس، میڈرڈ، ایتھنز اور میکسیکو سٹی سن دو ہزار پچیس تک ڈیزل پر چلنے والی گاڑیاں ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ناروے بھی دو ہزار پچیس میں، فرانس سن دو ہزار چالس میں جبکہ برطانیہ سن دو ہزار پچاس تک ڈیزل اور پٹرول پر چلنے والی گاڑیاں ختم کردیں گے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق سن دوہزار پچاس دنیا بھر میں ستر شہر مکمل طور پر کاربن فری ہو جائیں گے۔
دنیا میں شاید ایک ملک ایسا بھی ہے جس نے الیکٹرک کاروں کے حوالے سے ابھی تک کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اور وہ ہے پاکستان، حالانکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے لحاظ سے اسے بدترین قرار دیا جاتا ہے، کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق سن انیس سو اٹھانوے سے لیکر سن دو ہزار سترہ تک موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک میں سے ہمارا آٹھواں نمبر تھا اور یہاں دس ہزار سے زائد ہلاکتیں اور تین اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی میں ٹرانسپورٹ سیکٹر کا حصہ تینتالیس فیصد ہے، پٹرول و ڈیزل پر چلنے والی ٹرانسپورٹ کی وجہ سے فضائی آلودگی بدترین صورتحال اختیار کر رہی ہے، کچھ این جی اوز کے مطابق لوگ اب خود ہی اقدامات کر رہے ہیں، صبح نو کی چیئرپرسن شاہدہ کوثر نے ’’منافع‘‘ کو بتایا ماحولیاتی تباہی کا سبب بننے والے کاربن مادوں میں سب سے زیادہ حصہ کہ فوسل فیول وہیکلز کی پیدا کردہ آلودگی سے آتا ہے، اس حل صرف حکومت کی ذمہ داری ہی نہیں کہ وہ ہی کوئی متبادل پیش کرے بلکہ شہریوں کو اپنے طور پر بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
شاہدہ کوثر نے کہا کہ اسی فیصد کے قریب افراد سانس کی مخلتف بیماریوں میں مبتلا ہیں، ناقص ہوا اور ماحول کی وجہ سے لوگوں کو ڈپریشن ہو رہا ہے جو دیگر سماجی برائیوں کا سبب بنتا ہے، اگر فیول وہیکلز کا کوئی متبادل ہے جو کاربن کے اخراج کو روک سکتا ہے تو اس کی طرف ضرور جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ خریدنے کی سکت رکھتے ہیں انہیں بجلی پر چلنے والی کاریں ضرور خریدنی چاہیں، چاہے وہ فوسل فیول وہیکلز سے زیادہ بھی قیمتی ہوں، کیونکہ یہ ہم سب کی ڈیوٹی ہے۔
ٹریفک پولیس کے ڈی ایس پی سعید احمد آرائیں نے بتایا کہ صورتحال کافی خراب ہے، شہر میں ٹریفک کا نظام کنٹرول کرنےوالے تقریباَ ہر اہلکار کو سانس کی کوئی نہ کوئی بیماری لاحق ہے۔
خوش قسمتی سے وزیر اعظم عمران خان نے فوسل فیول وہیکلز کی وجہ سے پیدا شدہ مسائل کے حل میں دلچسپی دکھائی ہے، ان کی خواہش کہ ان کی پارٹی گرین پاکستان بنانے والی پہلی جماعت بن جائے کیونکہ یہ زیادہ پائیدار مستقبل ہے۔ اس وجہ سے وہ ملک کی آٹو انڈسٹری میں کافی دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ حال ہی میں وزیر اعظم اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے افسران کے مابین ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان سن دو ہزار تیس تک کم و بیش تیس فیصد گاڑیوں بجلی پر منتقل کریگا۔
کاربن اخراج روکنے کے ان قدامات سے ناصرف ماحول بہتر بنانے میں مدد ملے گی بلکہ درآمدی بل بھی کم ہوگا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تبدیلی آب وہوا امین اسلم نے دعویٰ کیا ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے تیل کی طلب کم ہو گی اور سالانہ دو ارب سے زیادہ بچائے جا سکیں گے۔
تاہم پاکستان جیسے ملک میں انڈسٹری کا ایک دم کلین فیول پر منتقل ہونا اتنا آسان بھی نہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ وہ سرمایہ کاری ہے جو کوئی شخص بجلی سے چلنے والی گاڑی خریدنے پر کریگا۔ ایک رپورٹ کے مطابق الیکٹرک کار کی قیمت اسّی فیصد زیادہ ہو گی کیونکہ تاحال یہ کاریں زیادہ مہنگی ہیں۔
آٹو انڈسٹری سے وابستہ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ کچھ الیکٹرک کاروں کا پاکستانی مارکیٹ میں آنا ایک ایسا بیانیہ ہے جس کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، جیسا کی کسٹمز ڈیوٹیز کا کافی کم کرنا ہوگا۔ تاہم اس کیلئے حکومت کی مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوگی کہ وہ فیول وہیکلز پر آہستہ آہستہ ٹیکس لگائے اور انہیں ختم کرے اور الیکٹرک کاریں خریدنے والوں کو ٹیکس چھوٹ دے۔
تین اوریجنل ایکویپمنٹ مینیو فیکچررز سے الیکٹرک وہیکلز سے متعلق سوالات کیے گئے تاہم ان میں سے کسی نے بھی جواب نہیں دیا اور سبھی کو الیکٹرک کاروں کے حوالے سے حکومتی پالیسی کا انتظار ہے، ذرائع کے مطابق پالیسی بن چکی ہے اور کسی بھی لمحے اس کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی کے زیرو ڈرافت کے مطابق آئندہ پانچ سالوں میں ایک لاکھ الیکٹرک کاریں سڑکوں پر لانا ٹارگٹ ہے، جیسے جیسے آٹو مارکیٹ اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو گی ہر سال کل تیار ہونے والی گاڑیوں میں سے تیس فیصد الیکٹرک کاریں ہونگی۔ بہت سے افراد کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنز کا قیام ہے، تاہم چارجنگ اسٹیشنز بھی سی این جی اسٹیشنز یا پٹرول پمپس کی طرح بنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چارجنگ میں کافی وقت لگتا ہے لیکن کمپنیاں کوشاں ہیں کہ چار سے چھ گھنٹے میں ہونے والی چارجنگ کو دس منٹ پر لیکر آئیں۔ تاہم یہ مسئلہ اس وقت حل ہو گا جب لوگ پارکنگ میں اپنی گاڑیاں چارج کرنے کے قابل ہونگے خاص طورپر جب کاریں رات کو گھر یا دن کو آفس کے باہر پارک ہونگی۔
حکومت جو تیس فیصد گاڑیاں سن دو ہزار تیس تک بجلی پر چلانے کا ارادہ رکھتی ہے یہ کافی مشکل ٹاسک ہے، حتیٰ کہ آٹو اندسٹری کے لوگ حکومتی موقف اور کوششوں کو تمسخر اڑا رہے ہیں، یہ صورتحال اس وقت سے زیادہ خراب ہو چکی ہے جب سے حکومت نے انہیں فیصلہ سے باہر رکھا ہے اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کو ترجیح دی ہے۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی کا بنایا گیا نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کا زیرو ڈرافٹ کافی معلوماتی ہے، تاہم اس میں کچھ چیزیں رہ گئی ہیں، اس میں ہائبریڈ گاڑیوں کے بارے میں نہیں بتایا گیا، حالانکہ ہائیبریڈ کاروں کے استعمال سے عام طور پر فوسل فیول ایندھن کا استعمال تیس فیصد کم ہوجاتا ہے۔ پلگ ان ہائی بریڈ وہیکلز بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں یہ بھی بیرونی سورس سے چارج ہو سکتی ہیں اور فوسل فیول ایندھن کا استعمال بھی کم ہو سکتا ہے۔ ہائیبریڈ وہیکلز بھی چارجنگ کا ایشو نہیں ہے، تاہم الیکٹرک کار ٹائروں کی روٹیشن اور انجن کی انرجی بچانے سے چارج ہوتی ہے۔
جو ممالک گرین انرجی کی جانب تیزی سے جا رہے ہیں انہوں نے آغاز ہائیبریڈ اور پھر پلگ ان ہائی بریڈ وہیکلز سے ہی کیا تھا اور اب وہ فوسل فیول وہیکلز، ہائی بریڈ اور پلگ ان ہائیبریڈ اور الیکرک وہیکلز تینوں کا کمبی نیشن استعمال کر رہے ہیں۔
تاہم الیکٹرک وہیکلز ٹیکنالوجیز کنسلٹنٹ شوکت قریشی کہتے ہیں ملک میں الیکٹرک کاروں کے خلاف کافی مزاحمت پائی جاتی ہے اور یہ مزاحمت کسی اور طرف سے نہیں بلکہ آٹو انڈسٹری کی جانب سے ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایندھن پر چلنے والی جاپانی پروڈکٹس بیچنے والے یہ سٹیک ہولڈرز پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز پالیسی کے نفاذ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔
شوکت قریشی الیکٹرک وہیکلز آٹو ڈویژن ایس ضیاء الحق ایند سنز میں چیف آپریٹنگ آفیسر کے طور پر کام کرتے ہیں وہ اسی عہدے پر رحمت گروپ کیلئے بھی کام کرتے ہیں، دونوں کمپنیاں آغاز میں یونٹ باہر سے منگوا کر الیکٹرک کاریں تیار کرنا چاہ رہی ہیں اور بعد ازاں ملک کے اندر ہی دس ہزار یونٹس تیار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں، پلانٹ لگانے کا کام شروع ہو چکا ہے، اگر طلب بڑھی تو پروڈکشن بھی ڈبل کی جا سکتی ہے۔ ایس ضیاء الحق اینڈ سنز کے پاس پہلے ہی کراچی ٹول پلازہ کے پاس ساٹھ ایکڑ زمین موجود ہے اور وہ مزید زمین حاصل کرکے وہاں الیکٹرک وہیکلز پلانٹ لگانا چاہتے ہیں۔ رحمت گروپ کے پاس بھی سائٹ ایریا میں زمین موجود ہے جہاں وہ بجلی کی کاروں کا کارکانہ لگانا چاہتا ہے۔ تاہم سب کی نظریں حکومت کی جانب لگی ہیں اور سبھی الیکٹرک وہیکلز پالیسی کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے منصوبوں کو آگے بڑھا سکیں۔
منافع سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت قریشی نے بتایا کہ ’’کوئی بھی کاروباری شخص ہمارے پاس آئے تو ہم الیکٹرک وہیکلز کے کاروبار کیلئے اس کی مدد کو تیار ہیں، بس اس کے پاس دو چیزیں ہونی چاہیں، ایک رقم اور دسرا ویژن، ان دو خوبیوں کیساتھ کوئی بھی کاروبار کر سکتا ہے۔‘‘
وہ چین کی چودہ کمپنیوں کے ساتھ ای کاروں، سکوٹروں، بسوں اور ای وہیکلز بیٹری چارجنگ سے متعلق معاہدے کر چکے ہیں۔ قریشی وزیر اعظم کے مشیران رزاق دائود اور امین اسلم کو کئی خطوط لکھ چکے ہیں، تاہم وہ کہتے ہیں کہ حکومت کا انجنئیرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ ہمیشہ سازشیں کرتا رہا ہے اور اب بھی پرانی روش پر گامزن ہے۔
گزشتہ سال حکومت نے انجنیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کو توڑ دیا تھا جب آٹو انڈسٹری میں گرین فیلڈ اور برائون فیلڈ کے سٹیٹس کیساتھ داخل ہونے والی کمپنیوں نے شکایت کی کہ ان سے سوتیلا سلوک کیا جا رہا ہے۔ قریشی کہتے ہیں کہ اگر حکومت الیکٹرک وہیکلز کو سپورٹ کرتی ہے تو کاروں کی قیمت ٹیوٹا وٹز کے برابر آ سکتی ہے۔
’’بڑی کاروں کی کیا ضرورت ہے جبکہ پاکستان میں زیادہ تر کاریں پانچ سو سی سی سے ہزار سی سی تک استعمال ہو رہی ہیں، اسی سائز کے انجن کی الیکٹرک کاریں زیادہ مہنگی نہیں ہونگی۔ اور جب پٹرول اور ڈیزل کا خرچہ بچے گا تو یہ زیادہ سستی لگیں گی۔
امریکی محکمہ توانائی کی ویب سائٹ فیول اکانومی ڈاٹ کام کے مطابق الیکٹرک وہیکلز انسٹھ سے باسٹھ فیصد انرجی وہیلز سے آتی ہے جبکہ دیگر گاڑیوں میں یہ تناسب اکیس فیصد ہوتا ہے۔ اگر حکومت وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ڈرافت کی منظوری دے دے، دو سال کیلئے کسٹمز ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس معاف کردے تو بجلی کی کاروں کی قیمت دس لاکھ تک ہو سکتی ہے۔
تاہم قریشی نے اس حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں کہ وہ پاکستان میں کس قسم کی الیکٹرک کاریں درآمد کرنا چاہتے ہیں دو کاریں وی فائیو اور وی نائین تو پہلے ہی لائی جا چکی ہیں جن کا موازنہ سوزوکی کلٹس اور ٹیوٹا وٹز کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اور یہ دونوں ہی پاکستان میں ٹیسٹ کی جا چکی ہیں۔
انہوں نے کہا ’’تاحال ان کاروں کی قیمت کم و بیش اکیس لاکھ روپے ہو گی، الیکٹرک کاروں کی درآمد پر مخلتف قسم کی تینتالیس فیصد ڈیوٹیز عائد ہوتی ہیں جن کی وجہ سے قیمت زیادہ ہے، اس کے علاوہ اگر ان کاروں کو مکمل یونٹ کی شکل میں منوایا جائے تو مقامی طور پر تیاری آسانی سے شروع ہو سکتی ہے، ہمارے سپیئر پارٹس کے کاریگر پہلے ہی ستر فیصد پرزہ جات بنا رہے ہیں جو ان کاروں میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ دیگر تیس فیصد اخراجات بیٹری، موٹر اور کنٹرولر درآمد کرنے پر خرچ ہونگے۔‘‘
پاکستان کی آٹو اندسٹری کو ہمیشہ یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہ جدت پسند نہیں، پاکستان میں کار ساز کمپنیاں کئی عشرو تک اپنے ماڈل تبدیل نہیں کرتی ہیں، سوزوکی مہران اسکی عمدہ مثال ہے۔
شوکت قریشی ان افراد میں شامل ہیں جو ہمیشہ پاکستان میں ای کاریں چلانے کے بارے میں بات کرتے نظر آتے ہیں، وہ اٹھہتر سال کی عمر بھی انڈسٹری کے کئی لوگوں سے زیادہ آگے کی سوچتے ہیں اور ہر اس شخص کو چئیلنج کر سکتے ہیں جو سمجھتا ہے فیول وہیکلز کی نسبت ای کاریں زیادہ مہنگی ثابت ہونگی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ای وہیکلز سے آٹو اندسٹری کے فرار میں سب سے بڑا ہاتھ جاپانی کمپنیوں کا ہے کیونکہ جاپانی کمپنیاں چینی ای ٹیکنالوجی کا کبھی بھی مقابلہ نہیں کر پاتی ہیں۔ چین اس سلسلے میں ایک عشرے سے کام کر رہا ہے، دنیا کی اسی سے نوے فیصد لیتھیم بیٹریاں چین میں تیار ہوتی ہیں، جاپانی کمپنیاں فیول گاڑیاں بنانے میں کئی عشروں کا تجربہ رکھتی ہیں تاہم اگر پاکستان ای وہیکلز کی جانب متوجہ ہوتا ہے تو یہ کمپنیاں چینی کمپنیوں سے پیچھے رہ جائیں گی۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب چین ای ٹیکنالوجی کے سلسلے میں امریکا اور یورپ سے بھی تعاون کر رہا ہے۔
دنیا کو بچانے اور ایک پائیدار مستقبل کیلئے حکومت کو پاکستان میں ایکلٹرک وہیکلز متعارف کرانے میں سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا، تاہم یہ دیکھنا ہے کہ کسی بھی وقت سامنے آنے والی الیکٹرک کار پالیسی عوام کو خوش کرتی ہے یا مایوسی کا باعث بنتی ہے۔