روزمرّہ زندگی میں پلاسٹک کا استعمال پوری دنیا میں کیا جا رہا ہے، لیکن پاکستان جیسا ملک جہاں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے ، پلاسٹک کا استعمال خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان میں گھٹیا درجے کے پلاسٹک کا استعمال سنہ 1947 سے جاری ہے، لیکن 1965 سے لے کر 1975 تک اس کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور یہ ہماری زندگی کا حصہ بن گیا۔
آج پاکستان انڈیا کے بعد جنوب مشرقی ایشیا میں پلاسٹک کی دوسری بڑی مارکیٹ ہے اور یہ انڈسٹری سالانہ 15 فیصد کی اوسط سے بڑھ رہی ہے، اور یہ باقی تمام صنعتوں سے سبقت لے چکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پلاسٹک کے تھیلوں کا کاروبار ملکی معیشت میں اربوں روپے کی مارکیٹ رکھتا ہے۔ پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے ایک سروے کے مطابق پلاسٹک تھیلوں کی صنعت سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ بلا واسطہ اور تقریبا چھ لاکھ بالواسطہ طور پر منسلک ہیں۔
پلاسٹک تھیلے کا وافر استعمال پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان میں مسئلہ بنتا جا رہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی یا نکاسیِ آب میں رکاوٹ کے علاوہ میڈیکل سائنس کی رو سے انسانی صحت پر منفی اثرات کا حامل ہے۔
گھروں میں برتنوں سے لے کر باہر کھانے پینے والی تقریباً تمام اشیا پلاسٹک میں پیک ہوتی ہیں اور اس طرح یہ پلاسٹک ہمارے جسم میں مسلسل داخل ہوتا رہتا ہے۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس طرح سے ہم ہر سال 250 گرام یا ایک پاؤ پلاسٹک کھاتے ہیں۔
یونیورسٹی آف نیو کیسل اور سائنسدانوں نے تحقیق کی ہے کہ پلاسٹک کے یہ ذرّات پانی کی بوتلوں میں ہوتے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال سمندروں میں 80 لاکھ ٹن پلاسٹک پھینکا جارہا ہے۔ یہ پلاسٹک دنیا کے 10 بڑے دریاؤں سے سمندروں میں جارہا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ہم خریداری کے لیے جو شاپنگ بیگ استعمال کرتے ہیں انہیں ختم ہونے میں 100 سے 600 برس لگ سکتے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے گلوبل پلاسٹک پالیسی مینجر ایرک لینڈ برگ کے مطابق ’ دنیا کو پلاسٹک سے پاک کرنے کے لیے ہمیں ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہے۔‘
پاکستان میں پلاسٹک کی وجہ سے لوگ شیشے، لکڑی اور مٹی کے برتنوں کا استعمال تقریباً ترک کر چکے ہیں، اور پلاسٹک کی اشیا بنانے والی فیکٹریاں پلاسٹک کا فضلہ استعمال کر رہی ہیں جو بین الاقوامی معیار کی خلاف ورزی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً 13ملین ٹن پلاسٹک ہر سال پاکستان میں سمندر برد کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان کے سینیٹ میں اس بیان نے کہ پاکستان میں سالانہ 55 ارب پلاسٹک تھیلے استعمال ہوتے ہیں، نہ صرف ماہرین بلکہ قانون ساز اداروں اور عوام کی اکثریت کو پریشان کردیا تھا۔ حکومت پاکستان اس کوشش میں ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالے، تاہم اس میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔
شہری علاقوں میں کوڑا کرکٹ جمع کرنے کا نظام موجود ہے لیکن پلاسٹک بیگز دیہی علاقوں میں زیادہ مشکلات پیدا کر رہے ہیں، جہاں نہ صرف آگہی کی کمی بلکہ صفائی کا کوئی منظم نظام بھی موجود نہیں۔
صوبہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی حال ہی میں پابندی عائد کر دی گئی تھی، لیکن ایک عام مشاہدہ کرنے والے کو آسانی سے نظر آ جاتا ہے کہ خاص علاقوں یا ہوٹلوں میں پولیتھین کا استعمال کچھ کم ضرور ہوا ہے لیکن پابندی کے خاطر خواہ نتائج ابھی سامنے نہیں آئے اور دور دراز علاقوں میں تو ایک عام آدمی کو پتہ ہی نہیں کہ کوئی پابندی بھی لگائی گئی ہے۔