بینک کی نوکری سے ذاتی کمپنی بنانے تک کا سفر، Bykea کے سی ای او کی کہانی

1178

جب سے رابیل وڑائچ نے یہ اعلان کیا ہے کہ انہوں‌ نے اپنا ادارہ بنانے کیلئے فنڈز جمع کیے ہیں‌تب سے ملک کے سٹارٹ اَپ ایکو سسٹم میں یہی سوال بھنبھنا رہا ہے کہ سرمایہ کار آئندہ کہاں سرمایہ کاری کریں گے، 30 اپریل کو ہم نے اس سوال کا جواب حاصل کرلیا، اس کا جواب تھا بائیکیا. بائیکیا کراچی سے شروع ہونے والی ایک ایسی کمپنی ہے جو نا صرف سواری فراہم کرتی ہے بلکہ سامان کی ترسیل کا کام بھی کر رہی ہے.

“Sarmayacar” اور دو دیگر انویسٹرز بائیکیا میں 5.7 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے، پاکستان کے سٹارٹ اپ ایکوسسٹم کی مختصر تاریخ میں انسٹی ٹیوشنل وینچر کیپٹل انویسٹرز کی جانب سے یہ سیریز A کی اب تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے جو کامیابی سے فنڈ جمع کرنے کی مقامی سٹارٹ اپس کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے.

“سرمایہ کار” کے مینجنگ پارٹنر رابیل وڑائچ نے بتایا کہ “ہمیں بائیکیا کے اس سستے ٹیکنالوجی سلوشنز کے سفر میں شامل ہوکر خوشی ہوئی ہے جو ناصرف پاکستان میں ہزاروں افراد کیلئے آمدنی کے مواقع فراہم کرے گا بلکہ نقل وحمل، سامان کی ترسیل اور ادائیگیوں کے شعبوں میں بھی مسائل پر قابو پانے میں مدد دے گا.

‘سرمایہ کار’ کے مینجنگ پارٹنر رابیل حسین

“سرمایہ کار” کے ساتھ دو بڑے انویسٹرز ‘مڈل ایسٹ وینچر پارٹنرز’ اور Tharros بھی شامل ہیں، Tharros سنگاپور کی ایک کمپنی ہے جو پاکستانی سٹارٹ اَپ (بائیکیا) کیلئے فنڈنگ دے رہی ہے.

بائیکیا کو ایک انڈونیشین سٹارٹ اَپ Go-Jek کی طرز پر متعارف کرایا گیا ہے. Go-Jek کا کل سرمایہ 9.5 ارب ڈالر ہے اور کمپنی نے رواں سال ہی 2 ارب ڈالر کی فنڈنگ حاصل کی ہے. بائیکیا میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں کو بھی اس بڑی سرمایہ کاری کا خیال ہوگا.

Tharros کے سنگاپور میں موجود ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ “بائیکیا اس پوزیشن میں ہے کہ وہ سٹارٹ اپس کے شعبے میں اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ انڈونیشیا کی Go-Jek کی طرح مجموعی معیشت میں مقامی چیمپئین بن سکتی ہے.

بائیکیا کے اعلان سے ہو سکتا ہے کافی شور پیدا ہوا ہو لیکن اس کے سی ای او منیب مائر نے یہ کام پہلی مرتبہ نہیں کیا وہ اس سے قبل Daraz.pk میں کام کرچکے ہیں. بائیکیا کی کہانی بھی اس کے بانی کی کہانی سے مختلف نہیں بلکہ انہی کیساتھ شروع ہوتی ہے، انہیں‌ کمپنیاں بناتے کم و بیش دو عشرے ہو چکے ہیں.

بینکنگ سے کمپنیاں بنانے تک کا سفر:
منیب مائیر پلے بڑھے تو پاکستان میں ہیں لیکن انہوں نے یونیورسٹی آف ورجینیا سے 2001ء میں گریجوایشن کی اور بطور پیشہ انویسٹمنٹ بینکنگ کو چنا، منیب نے Bear Stearns سے کام شروع کیا جو وال سٹریٹ کی وہی کمپنی ہے جس کا زوال بالآخر عالمی مالیاتی بحران میں تبدیل ہو گیا تھا.

لیکن یہ عالمی بحران منیب مائیر کے کمپنی چھوڑ دینے کے کافی سال بعد وقوع پذیر ہوا تھا. 2002ء میں منیب جس بینک میں ملازم تھے انہیں وہاں سے نکال دیا گیا تو انہیں نوکری کی ضرورت تھی. وہ ورجینیا گئے اور وہاں اس جگہ کا دورہ کیا جہاں کبھی پڑھتے رہے تھے، وہاں‌ ان کی ملاقات ایک نئی کمپنی SNL Financial کے مالکان سے ہوئی جنہیں فنانشل اینالسٹس کا کام آسان کرنے کیلئے ایک فنانشل ڈیٹابیس بنانے کی ضروت تھی.

اسی لمحے منیب کے ذہین میں یہ خیال آیا اور انہوں نے کمپنی کی انتظامیہ کو پاکستان میں دفتر قائم کرنے پر راضی کرلیا. وہ نہ صرف ایسا کرنے میں کامیاب رہے بلکہ نوآموز کپمنی میں برابر کے حصہ دار بھی بن گئے.

اس کے بعد منیب مائیر پاکستان منتقل ہوگئے اور اسلام میں ایس این ایل فنانشل کا دفتر قائم کردیا جو امریکہ سمیت دنیا بھر میں‌ مالیاتی اداروں کو ڈیٹا اینالسز سروسز فراہم کرنے لگی. آہستہ آہستہ پاکستان اور دنیا بھر میں ایس این ایل فنانشل کا کام تیزی سے پھیلنے لگا. پاکستان میں کمپنی کا دفتر جو 2003ء میں منیب نے تن تنہا شروع کیا تھا، 2012ء میں ان کے رخصت ہوتے وقت وہاں 600 سے زیادہ افراد کام کرتے تھے.

تب تک ایس این ایل فنانشل کو امریکا کی ایک نجی کمپنی New Mountain Capital نے حاصل کرلیا اور منیب پہلے ہی آگے بڑھنے کا سوچ چکے تھے. اسلام آباد کے سیرینا ہوٹل میں ایس این ایل کے ملازمین کے سامنے ایک تقریر میں انہیں‌ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح آئندہ دنوں میں پاکستان کی ٹیکنالوجی انڈسٹری میں تھری جی اور فورجی کی شکل میں آنے والی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں.

منیب ای کامرس کا اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتے تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ Rocket Internet’s نامی کمپنی بھی ایسا کرنے جا رہی ہے. انہوں‌ نے اپنے سٹارٹ اپ میں فنڈنگ کیلئے Rocket Internet’s کے ساتھ بات کی لیکن بات چیت کا اختتام کچھ اس صورت میں ہوا کہ مائیر کو Daraz.pk چلانے کیلئے ملازمت پر رکھ لیا گیا جو پاکستان کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی بن چکی ہے. دراز پر ملازمت کے دوران ہی منیب نے پاکستان میں لاجسٹکس کے حوالے سے پائے جانے والے مسائل کے حل کیلئے سوچنا شروع کردیا.

چونکہ دراز ڈاٹ پی کے کو علی بابا گروپ کے ہاتھوں فروخت کرنے کیلئے بات چیت کافی عرصہ پہلے شروع ہو چکی تھی اس لیے دسمبر 2016ء میں منیب نے کمپنی چھوڑ دی اورکراچی کی ایک چھوٹی کمپنی Ithaca Capital سے بائیکیا شروع کرنے کیلئے رقم حاصل کی.

Bykea’s کا پلیٹ فارم:
دو سال سے بھی کم عرصہ میں بائیکیا پاکستان میں سب سے بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے، کمپنی کے ڈیٹا کے مطابق اس کے 20 لاکھ موٹرسائکل رائیڈرز 20 لاکھ صارفین سے جڑے ہیں، گو کہ ابھی تک یہ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور روالٔپنڈی میں کام کر رہی ہے.

بائیکیا کے سی ای او منیب مائیر کے مطابق انہوں نے کمپنی جن تین اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی، وہ کچھ یوں ہیں:
موجودہ ٹیکنالوجی کو آبادی کے ایک بڑے حصے کیلئے قابل استعمال بنانا.
لوگوں کے پاس موجود چیزوں (موٹرسائیکلوں، سمارٹ فونز) کو آمدنی کے ذریعے میں بدلنا.
تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنا.

منیب مائیر نے جو مارکیٹ پوٹینشل دیکھا وہ شائد دوسرے محسوس نہ کرسکے، وہ کہتے ہیں‌ کہ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ سے زیادہ ہے، جب تک اور جہاں ہم اس آبادی سےکچھ حاصل کرسکتے ہیں یا انہیں کچھ فروخت کرسکتے ہیں ہم کریں گے.

بائیکیا کے سی ای او منیب مائیر

منیب چاہتے تھے کہ ان کی پراڈکٹ دوسروں سے مختلف ہو، اس لیے انہوں ایسی سروس بنائی جو ناصرف انگزیزی سمجھنے اور بولنے والوں کیلئے ہے بلکہ مارکیٹ کے ایک دوسرے بڑے حصے کیلئے بھی ہے جو اردو بولتا ہے، اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے موبائل ایپلیکشن اردو میں بنائی.

منیب نے کہا کہ بائیکیا پر اعتماد کیلئے وہ سرمایہ کاروں کے شکرگزار ہیں، اس کے ساتھ انہوں نے اس خیال کو بھی غلط ثابت کردیا کہ مقامی سٹارٹ اپ کیلئے سرمایہ کاری جمع کرنا آسان ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں رقم جمع کرنا بہت مشکل ہے، اس کے برعکس آپ نے سنا ہو گا کہ دنیا میں ہر کوئی پاکستان میں رقم لگانے کو تیار ہےلیکن اس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے. بلکہ دراصل یہ ممنوع ہے، پاکستان رقم لانے یا باہر لیجانے کیلئے ایسے قوانین ہیں کہ کوئی بھی سرمایہ کاری کو تیار نہیں ہوتا.

انہوں نے کہا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری ایک مختلف چیز ہے. بائیکیا اس کاروبار میں اس لیے ہے کیونکہ ہم عوام کیلئے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کی روزمرہ چیزوں کو استمعال میں لا کر معاشی بہتری کی کوشش کر رہے ہیں.

انہوں نے کہا کہ سواری اور سامان کی ترسیل بائیکیا کی دو بڑی سروسز ہیں جن سے کمپنی کو 80 فیصد آمدنی ہوتی ہے، کمپنی میں ہونے والی سرمایہ کاری بھی انہی دو سروسز پر خرچ کرنے ساتھ کمپنی کے صارفین بڑھانے پر خرچ کی جائے گی.

اس کے علاوہ بائیکیا ایک ایسا کام کرنا چاہ رہی ہے جو ابھی تک نہیں کیا گیا، یہ ان لوگوں کیلئے سواری کی سہولت متعارف کرانے جا رہی ہے جن کے پاس سمارٹ فون نہیں. مائیر کہتے ہیں کہ اصل چیز یہ ہے کہ مارکیٹ بہت بڑی ہے ، تقریباََ 5 کروڑ لوگوں کے پاس سمارٹ فون ہیں اس کے مقابلے میں 10 کروڑ لوگ فیچر فون استعمال کر رہے ہیں، کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی میں دو کروڑ سے زائد لوگ فیچر فون استعمال کرتے ہیں اس لیے پوٹینشل مارکیٹ تو بہت بڑی ہے.

بائیکیا کے آغاز سے ہی اہم مسائل کو حل کرنے کیلئے بزنس پیدا کرنا منیب مائیر کا بنیادی مقصد رہا ہے، انہوں نے کہا کہ “ہم جو مسائل حل کرنا چاہ رہے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ بڑی مارکیت ہے، سوال یہ ہےکہ کہ اگر آپ کی پروڈکٹ مارکیٹ کے مطابق بھی ہے تو اتنی بڑی مارکیٹ تک کیسے پہنچا جائے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ میں اپنا کسٹمر سمجھتے ہوئے آپ تک پہنچوں لیکن آپ میری پروڈکٹ استعمال ہی نہ کریں، میرے خیال سے یہ بہت مہنگی کوشش ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ لوگ اس کا ادراک رکھتے ہیں، لوگوں کے رویے بدلنے کیلئے بھی ایک بڑی رقم چاہیے.”

تاہم مائیر مستقبل کے حوالے سے پرامید ہیں، گو کہ اسی کاروبار میں اوبر اور کریم جیسی بڑی کمپنیاں بھی کام کر رہی ہیں لیکن مائیر اس کے باوجود اپنے لیے مواقع دیکھتے ہیں اور ان کمپنیوں کو ایکوسسٹم میں مدد دینے کیلئے کریڈٹ ضرور دیتے ہیں، “جیسے کریم اور اوبر اپنی بائیک کیٹیگری کی تشہیر کرتے ہیں تو اس سے پورا سسٹم ترقی کر رہا ہے.”

منیب مائیر کے مطابق اوبر کی جانب سے کریم کے حصول کے بعد ان کے مارکیٹنگ اور آپریشنل اخراجات کافی حد تک کم ہوں گے، لیکن اس کے باوجود وہ سواری سروس کے طور پر مستقبل میں بائیکیا کا بنیادی کردار دیکھ رہے ہیں. انہوں‌ نے کہا کہ “میں نہیں‌سمجھتا کہ اوبر اور کریم کافی اخراجات کے بعد بھی مارکیٹ کھوج پائیں گے، صرف کراچی میں 3 ملین بائیکس ہیں، وہ کہیں کہ سہولت سے متعلق لوگوں میں آگاہی کا مسئلہ ہے لیکن بنیادی مسئلہ پروڈکٹ اور اس کو استعمال کرنے والی بڑی آبادی کے ساتھ اس کا ہم آہنگ ہونا ہے. کیونکہ پاکستان میں زیادہ تر آبادی ٹیکنالوجی اور انگریزی نہیں جانتی، اور بائیکیا اسی مارکیٹ کے حصول کیلئے پرامید ہے.”

کاروبار بڑھانے کیلئے منیب مائیر نے بتایا کہ بائیکیا کسٹمرز کیلئے رائڈز بکنگ آسان بنا رہا ہے اور اپنے رائڈرز کو یہ آزادی دے رہا ہے کہ وہ جب چاہیں کام کریں. ان کا کہنا تھا کہ آپ ایک مس کال کرکے بائیکیا منگوا سکتے ہیں، ہمارا ایک بہت سادہ نمبر 03071234567 ہے، آپ یہ نمبر ڈائل کریں تو ہمارا نمائندہ آپ کو بائیکیا رائیڈر تک رسائی دے گا، دراصل ہمارا مقصد اپنی پروڈکٹ کو کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کے ان لاکھوں پاکستانیوں کیلئے آسان اور قابل رسائی بنانا ہے جن کے پاس سمارٹ فون نہیں یا جو ہماری ایپ استعمال کرنا نہیں جانتے.

مائیر کیلئے سپلائی سائیڈ کا خیال رکھنا بھی نہایت ضروری ہے، “ہم اتنی زیادہ مراعات بھی فراہم نہیں کرتے کہ آپ نوکوی چھوڑ کر ہماری بائیک چلانا شروع کردیں بلکہ جن کے پاس موٹرسائیکل ہے وہ فارغ وقت میں ہمارا پلیٹ فارم استعمال کرسکتے ہیں، ہماری حکمت عملی دیگر کمپنیوں سے مخلتف ہے، وہ اس طرح کہ ہم متوسط طبقے اور اس سے بھی نچلے طبقے کے پاس موجود اثاثوں کو ان کیلئے آمدن کا ذریعہ بنا دیتے ہیں.

لیکن کچھ حاصل کرنے کیلئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے، مائیر کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی موبائل ایپ میں فراہم کردہ کچھ چیزوں کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، “ہمارا فوکس صرف سواری اور ڈلیوری سے متعلق چیزوں کو ترقی دینا ہے کیونکہ ہماری ایپ پر ایڈریس بہت کم ہیں. میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں 6 نئی چیزیں متعارف کروائوں گا لیکن میں ان 6 چیزوں کو ترقی نہیں دے سکتا بلکہ ان میں سے ایک یا دو چیزوں کو بہتر طور پر ترقی دے سکتا ہوں، ہم فوکس کم کرتے ہوئے اپنی موجودہ سروسز کو بہتر کرنے کیلئے توسیع دیں گے.
اگرچہ مسڈ کال آپشن کے علاوہ بائیکیا چھوٹے کاروباروں کیلئے لوجسٹکس سلیوشن کی سہولت متعارف کرانے پر غور کر رہی ہے، منیب مائیر نے کہا کہ “ہمارے رائیڈرز ایک جگہ چیز پِک کرکے مخلتف علاقوں میں پہنچا دیں گے، یہ نئی ٹیکنالوجی ابھی تک کوئی دوسری کمپنی استعمال نہیں کر رہی.” انہوں نے واضح کیا کہ کورئیر کمپنیاں‌یہ کام کر رہی ہیں تاہم بائیکیا کی سروس اس لیے مختلف ہوگی کیونکہ ہم اسی دن ڈلیوری کریں‌ گے.

جیسا کہ بائیکیا حالیہ فنڈنگ کو نئے فیچرز کو ترقی دینے میں صرف کر رہا ہے تو ایسے میں مائیر ابھی منافع کے حوالے سے پریشان نہیں. ان کا کہنا ہے کہ “آپ کوئی چیز بنانے کی کوشش کر تے ہیں اور اسے بہتر سے بہتر کرنا چاہتے ہیں تو اس پر اخراجات لازمی اٹھتے ہیں، کوئی بھی چیز بغیر محنت کے نہیں بن جاتی، کیا ہم آج ہی سے منافع کمانا شروع کردیں؟ ہم ایسا نہیں کر سکتے. اس لیے ہمیں سرمایہ کاروں کی ضرورت رہتی ہے تاکہ ایک دن ہم اس سطح تک جا سکیں کہ سرمایہ کاروں کی رقم انہٰں واپس کرنے کے قابل ہوں.”

“اوبر” کی جانب سے “کریم” کے حصول سے متعلق بات کرتے ہوئے منیب مائیر کا کہنا تھا کہ کوئی کمپنی چاہے تو بائیکیا کو حاصل کر سکتی ہے لیکن ہم ایسی کمپنی کو دیں گے ہمیں بائیکیا کے طور پر ہی ترقی میں مدد دے اور جو ہم کر رہے ہیں اسکی ترقی میں مددگار ہو. ہم ہر اس شخص کو خوش آمدید کہیں گے جو اس ایکوسسٹم کی ترقی کیلئے سرمایہ کاری کرنے کا خواہشمند ہو.

مائیر کو یقین ہے کہ بائیکیا کی کامیابی ٹھیک مارکیٹ کیلئے ٹھیک پروڈکٹ دینے میں ہے، انہوں نے کہا کہ ” مجھے یقین ہے کہ یہ ہماری پروڈکٹ لوگوں کیلئے آسان بنانا ہی ہماری کامیابی ہے، یہی ہمیں مشکل وقت میں بھی ثابت قدم بنا رہی ہے. رقم کے بغیر ہم ثابتو قدم ہیں تو رقم آنے پر ہمیں کونسی چیزروکے گی؟

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here