پاکستانیوں میں صحت پر خرچ کرنے کے رجحان میں اضافہ، سیمنز اس سے فائدہ اٹھانے کو تیار

جرمن انجنئیرنگ کمپنی نے پاکستان میں ہیلتھ کئیر سے متعلق ایک ذیلی کمپنی قائم کی ہے جو ہسپتالوں کیساتھ ساتھ مارکیٹ کو بھی لیبارٹری کا سامان مہیا کر رہی ہے

605

پاکستان میں بڑے ریسٹورنٹس میں جائیں‌ تو وہاں keto diet کے مینیوز نظر آئیں گے. کچھ مخصوص قسم کے جم بھی اب ماہانہ 10 ہزار رپے فیس لے رہے ہیں. سیمنز (Siemens) پاکستان میں صحت کے شعبے میں قدم جما رہا ہے.

مندرجہ بالا تین باتوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ پاکستانیوں، خاص طور پر اپر مڈل کلاس، میں اچھی صحت پر خرچ کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور آگاہی کی وجہ سے یہ تینوں سرمایہ کاری کر رہے ہیں.

جرمنی کی انجنئیرئنگ کمپنی Siemens اس سرمایہ کاری میں سب سے آگے رہنا چاہتی ہے کیونکہ بالآخر ایک دن یہ پورے ملک میں‌ پھیل جائے گی.

اپنی امریکی حریف کمپنی جنرل الیکٹرک کی طرح سیمنز بھی مختلف صنعتون پر مشتمل کمپنی ہے جس کی ایک لمبی تاریخ ہے. تتاہم پاکستان میں یہ صرف بجلی پیدا کرنے اور اسکا ترسیلی نظام بنانے کے حوالے سے جانی جاتی ہے. پاکستان میں سیمنز کا زیادہ تر کاروباری توانائی کے شعبے میں ہی ہے.

لیکن دنیا میں صحت کا شعبہ سیمنز کا اہم ترین حصہ ہے اور کمپنی نے اس کے مطابق تنظیم نو کرتے ہوئے پیلتھ کئیر کے کاروبار کیلئے ایک علیحدہ کمپنی قائم کی ہے جو فرینکفرٹ سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ بھی ہے. تنظیم نو کا اثر پاکستان میں سیمنز کے کاروبار پر بھی پڑا ہے جس کے بعد ہیلتھ کئیر کیلئے Siemens Healthcare Private Limited کے نام سے 2016ء میں ایک کمپنی بنائی گئی ہے.

صحت کے شعبے پر فوکس کیلئے نئی کمپنی کے قیام کے بعد سیمنز پاکستان میں ہیلتھ کئیر کا سامان بنانے والی بڑی کمپنی بن سکتی ہے اور پاکستانی مارکیٹ میں اس کے کاروبار کی تاریخ دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اسکا اچھا آغاز ہے.

سیمنز پاکستان اور صحت کا شعبہ:
سیمنز کی جنوبی ایشیاء میں کام کی تاریخ 1867ء سے شروع ہوتی ہے جب اسکی پیشرو کمپنی Telegraphen-Bauanstalt Siemens und Halke نے پہلی انڈو یورپین ٹیلی گراف لائن لندن اور کلکتہ کے درمیان کراچی کے راستے بچھائی تھی. 1922ء میں کمپنی نے لاہور میں کام شروع کیا. 1950ء تک یہ کمپنی مختلف خطوں کی معیشت پر گہرے اثرات چھوڑ چکی تھی جو اب ملک بن چکے ہیں.

پاکستان میں باضابطہ طور پر سیمنز نے 1952ء میں کام شروع کیا جب اس نے حکومت پاکستان کو ٹیلفون کا سامان تیار کرنے والی کمپنی ٹیلی فون انڈسٹریز آف پاکستان قائم کرنے میں مدد دی. اگر آپ نے 1990ء کا دور دیکھا ہے تو یقیناََ آپ نے گھر میں روٹری ٹیلیفون دیکھا ہوگا جس کے ڈائل پر ٹی آئی پی کے لکھے گئے لفظ (letters) ہوتے تھے. وہ فون ہری پور میں ٹی آئی پی کے پلانٹ پر تیار ہوتے تھے. 1953ء میں سیمنز نے پاکستان میں اپنی ذیلی کمپنی کی بنیاد رکھ دی جو سیمنز پاکستان کے نام سے 1978ء میں کراچی سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ہوئی.

صحت کے شعبے میں سیمنز کی تاریخ 19ویں صدی کے وسط سے شروع ہوتی ہے. 1844ء میں
Werner Siemens نے پہلی دفعہ بجلی کے استعمال سے اپنے بھائی کے دانت کے درد کا علاج کیا تھا اور یوں انہوں نے اپنی ایجاد طبی مقاصد میں استعمال کے لیے وقف کردی. تین سال بعد سیمنز نے Johann Georg Halske کے ساتھ ملکر برلن میں Telegraphen-Bauanstalt Siemens und Halske (S&H) نامی کمپنی قائم کی جو بجلی کے سامان کے ساتھ طب کے شعبے میں‌استعمال ہونے والا سامان بھی بناتی تھی.

جرمنی کے شہر Erlangen میں Erwin Moritz Reiniger نے Reiniger, Gebbert & Schall RGS کمپنی کی بنیاد رکھی جو میڈیکل ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتی تھی.

1895ء میں Wilhelm Conrad Röntgen نے ایکس ریز (X-RAYS) دریافت کیں تو میڈیسن کی دنیا میں انقلاب آگیا، Friedrich Dessauer ،جواولین ایکس ریز دریافت کرنے والوں میں سے تھا، نے Aschaffenburg میں اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی جو بعد میں Veifa-Werke کے نام سے مشہور ہوئی اور اسے 1916ء میں RGS نے حاصل کر لیا. کچھ وجوہات کی بناء پر کمپنی کو 1927 میں کام بند کر کے پروڈکشن یونٹ Erlangen منتقل کرنا پڑا.

S&H نے 1907ء میں RGSکے شیئرز حاصل کرنا شروع کیے اور 1925ء تک زیادہ تر کمپنی ان کے ہاتھ آ چکی تھی. 1932 اور اس سے اگلے سال کے دوران S&H نے الیکٹرومیڈیکل پروڈکشن برلن سے Erlangen منتقل کردی تاکہ اس کمپنی کو بھی پہلے سے Erlangen میں موجود Siemens-Reiniger-Werke SRW کیساتھ چلایا جا سکے.

یہ جلد ہی دنیا کی سب سے بڑی الیکٹرومیڈیکل آلات تیار کرنے والی کمپنی بن گئی. 1966ء میں ایس آر ڈبلیو سیمنز اے جی کا حصہ بن گئی اور 1969ء میں میڈیکل ٹیکنالوجی ڈویژن کا بزنس شروع کردیا. یہ ڈویژن 2015ء میں آزاد حیثییت میں اور قانونی طور پر Siemens Healthcare GmbH بن گیا اور مئی 2016 میں اسکو Siemens Healthineers کا نام دے دیا گیا.

Healthineers کی پاکستان آمد:
سیمنز ہیلتھ کئیر ابتدائی طور پر پاکستان میں ریڈیالوجی اینڈ ڈائیگناسٹک امیجنگ سے متعلقہ سامان فراہم کررہی ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے ہسپتالوں میں اہم ترین سمجھا جاتا ہے.

پاکستان میں سیمنز ہیلتھ کئیر کے مینجنگ ڈائریکٹر خرم جمیل نے “منافع” سے گفتگو میں بتایا کہ ہم ابتدائی طور پر پاکستان میں امیجنگ مشینری فراہم کررہے ہیں جس میں ایکس ریز، الٹراسائونڈ، کمپیوٹڈ ٹوموگرافی (سی ٹی)، ایم آر آئی اور اینجیو گرافی کی مشینیں شامل ہیں. اسکے علاوہ خون اور پیشاب کے ٹیسٹوں کیلئے مختلف مشینیں بھی فراہم کی جاتی ہیں.

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ آلات سستے ہوں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں بڑے نجی اور سرکاری ہسپتال ہی سیمنز کے خریدار ہونگے. خرم جمیل نے کہا کہ “جب آپ بی ایم ڈبلیو فروخت کرتے ہوں تو مہران کے خریدار سے بات تو نہیں کریں گے، ہم ان لوگوں کے پاس جاتے ہیں جو چیزوں کو سمجھتے ہیں.”

کمپنی اپنے خریداروں کی شناخت ظاہر کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے تاہم اس حوالے سے کچھ اشارے ضرور دیے.

خرم جمیل کے مطابق پاکستان میں ان کا سب سے بڑا خریدار پاک فوج ہے، انہوں نے بتایا کہ فوج کے ساتھ ان کا کاروبار کافی عرصے سے جاری ہے اور آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (AFIC) اور سینٹرل ملٹری ہاسپٹلز کو سامان فراہم کیے جاتے ہیں. آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی بڑا ہسپتال ہے اس لیے وہ زیادہ سامان خریدتے ہیں.
انہوں نے کہا کہ نجی شعبے میں شوکت خانم ہسپتال، شفا انٹرنیشنل کا ذہن بھی ہم سے ملتا ہے اسلیے وہ بھی ہم سےسامان خرید تے ہیں.

خرم جمیل کے مطابق گزشتہ حکومت میں وزارت صحت کے ساتھ الٹراسائونڈ مشینون کی فراہمی کا معاہدہ طے پایا تھا، اس کے علاوہ سندھ میں گمبٹ انسٹیٹیوٹ کو بھی سامان سپلائی کیا جاتا ہے.

بڑے اداروں کے کلائنٹس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ہیلتھ کئیر کے شعبے پر سیمنز ٹیکنالوجی کا اثر تیسرے درجے کا ہے پہلے درجے کا نہیں. اکثر پاکستان میں ہیلتھ کئیر کا شعبہ بحران کا شکار رہتا ہے. سیمنز کی انتظامیہ اس چیز سے آگاہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا کردار محض ٹیکنالوجی فراہم کرنا ہے نا کہ بنیادی سطح پر آبادی کی صحت کے مسائل کے حل کیلئے پورا انفراسٹرکچر بنانا.

خرم جمیل نے کہا ہے کہ “ہم بنیادی ہیلتھ کئیر کا کام نہیں کرتے، مثال کے طور پر پاکستان میں بچوں کی اموات کی شرح کافی زیادہ ہے، لیکن وہ جو امیجنگ کا سامان مہیا کر رہے ہیں وہ اس مسئلے کو حل نہیں‌ کرسکتے. ہم تھیراپی نہیں کرتے، فارماسیوٹیکل کا کام نہیں کرتے، ہم صرف ڈائیگنوسٹک کا کام کرتے ہیں.”

سینمز ہیلتھ اور پاکستان میں‌شعبہ صحت میں آنے والے اتار چڑھائو:
سیمنز گو کہ بڑے ہسپتالوں کو سامان مہیا کررہی ہے ، گزشتہ دس سالوں میں اس کی آمدنی اور منافع کم زیادہ ہوتا رہا ہے، سیمنز ہیلتھ کئیر 2016ء سے سیمنز پاکستان ہولڈنگ کمپنی کا حصہ نہیں بلکہ ایک علیحدہ کمپنی کے طور پر کام کر رہی ہے. سیمنز ہیلتھ کیئر نے اپنی مالی تفصیلات ہمارے ساتھ شیئر کرنے سے گریز کیا جس کی وجہ سے ہمیں 2008ء سے 2015 تک دستیاب تفصیلات پر اکتفا کرنا پڑ رہا ہے.

تاہم 2008ء سے 2015 کے دوران کی مالی تفصلات بھی دلچسپ ہیں، اس عرصہ کے دوران سال بہ سال آمدنی میں 0.5 فیصد اضافہ ہوتا رہا یعنی 2008ء میں 597 ملین روپے سے 2015ء میں 618 ملین روپے کمپنی کی آمدن ہو گئی. پری ٹیکس پروفٹ سال بہ سال 7.2 فیصد کے حساب سے بڑھا اور 2008ء میں 33 ملین روپے سے 2015ء میں 53 ملین روپے ہو گیا.

تاہم مجموعی طور پر اعدادوشمار معقول تبدیلی کو چھپا لیتے ہیں، مثال کے طور پر 2009 میں جب ملک بھر میں ہسپتالوں میں توسیع ہو رہی تھی اور انہیں سامان کی ضرورت تھی تو سیمنز کی آمدنی 984 ملین روپے تھی تاہم اگلے سال اس میں 41 فیصد کمی ہوئی اور آمدنی 577 ملین روہے رہی جبکہ 2011ء آمدنی کے لحاظ سے بدترین سال رہا جب سیمنز ہیلتھ کئیر کمپنی پاکستان میں صرف 291 ملین روپے کا کاروبار کرسکی.

2011ء میں لگنے والا دھچکا پاکستان میں صحت کے شعبے کی اس سال کی مجموعی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے، “منافع” نے پاکستان بیورو آف سٹیٹکس اور وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کا تجزیہ کیا تو معلوم پڑا کہ 2011ء میں کل ملکی پیداوار کا صرف 1.2 فیصد صحت کے شعبے پر خرچ ہوا جبکہ اس سے قبل 2.5 فیصد خرچ ہو رہا جس میں 1.1 فیصد سرکاری سطح پر جبکہ 1.4 فیصد نجی سطح پر خرچ ہو رہا تھا.

تاہم ہر شہری ماہانہ اپنی صحت پر کتنا خرچ کرتا ہے اس حوالے سے گزشتہ پندرہ سال کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ اخراجات میں اضافہ ہوا ہے، 2002ء میں جو شخص اپنی صحت پر ماہانہ 56 روپے خرچ کرتا تھا وہ 2018ء میں 335 روپے خرچ کرتا ہے، یعنی سالانہ 11.8 فیصد اضافہ ہو رہا ہے.

اس حوالے سے حکومت کی جانب سے صحت پر اخراجات میں بھی سال بہ سال 15 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے، یعنی پہلے ہر شخص کی صحت کیلئے ماہانہ 15 روپے تھے وہاں اب 151 روپے مختص ہیں.

2011ء کے بعد صحت کے شعبے میں حکومت کی جانب سے اخراجات ڈرامائی طور پر 33 فیصد بڑھ گئے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2011ء میں 18 ویں آئینی ترمیم اور ساتویں نیشنل فنانشل کمیشن ایوارڈ کی وجہ سے تعلیم اور صحت وفاق سے نکل کر صوبوں کی ذمہ داری بن گئے اور صوبوں نے ان دو شعبوں کیلئے ترجیحی بنیادوں پر وسائل مختص کرنے شروع کیے.

انوینٹری کے مسائل:
سیمنز پاکستان کیلئے دو مدمقابل قوتیں سب سے بڑا مسئلہ ہیں، سیمنز پاکستان میں asset-light بزنس ماڈل رکھنا چاہتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سامان اور سپئیر پارٹس کی ترسیل کا نظام پاکستان میں نہیں رکھتی تاہم اس کے کلائنٹس سپئیر پارٹس کی جلدی اور سستی ترسیل کیلئے دیگر کمپنیوں کے پاس چلے ہیں.

اس حوالے سے خرم جمیل نے بتایا کہ ” ہم پاکستان میں بطور ڈیلر کام نہیں کر رہے، ہمارا کاروبار مختلف قسم کا ہے، ہمارے مدمقابل توشیبا اور جنرل الیکٹرک کے پاس مقامی ڈیلرز ہیں، ہم میں اور ان میں یہی فرق ہیں.”

ایک ایسی مارکیٹ میں جہاں کسٹمر سامان کی فوری دستیابی چاہتا ہے ، کمپنی فوری سامان مہیا نہیں کر سکتی کیونکہ اسے جرمنی میں اپنے مینوفیکچرنگ یونٹ سے براہ راست سامان منگوانے کی بجائے ایک پروٹول کے طریقہ کار سے گزرنا پڑتا ہے.

حالانکہ اس مسئلے کا سادہ سا حل یہ ہے کہ جن چیزوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہے کمپنی کو چاہیے وہ زیادہ منگوا کر پاکستان میں رکھ لے تاہم سیمنز کی انتظامیہ ایسا کرنا نہیں چاہتی.

دوسرا حل یہ ہے کہ پروکیورمنٹ کے عمل کو تیز تر کیا جائے تا کہ سامان کلائنٹ تک جلدی پہنچ سکے تاہم یہ طریقہ شائد زیادہ سرمایہ کاری مانگتا ہے جس کے کیلئے کمپنی فی الحال تیار نہیں.

ممکنہ سرمایہ کاری:
خرم جمیل نے کہا کہ ” حالیہ دنوں میں میں جرمنی سے سرمایہ کاری لانے کیلئے کوشاں ہوں، دو تین ماہ قبل پاکستان میں اعزازی جرمن قونصلیٹ کیساتھ طے پایا تھا کہ ہم پاکستان میں سرکاری و نجی ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے کیلئے سرمایہ کاری کریں گے، اور اگر یہ معاملہ حقیقت کا روپ دھارتا ہے تو بڑی سرمایہ کاری کی توقع ہے. تاہم کچھ بھی حتمی طور پر کہنا قبل از وقت ہے.”

انہوں نے مزید کہا کہ وہ رقم سے متعلق بتانے کے مجاز نہیں ہیں، تاہم یہ بڑی سرمایہ کاری ہے جس کا مقصد پاکستان بھر میں ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنا ہے، اس کے علاوہ صحت کے شعبے میں گرین فلیڈ اور برائون فلیڈ پروجیکٹس کیلئے سرمایہ کاری بھی اس میں شامل ہے. اس دوران سارا سامان سیمنز مہیا کریگی.

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here