خیبرپختونخوا بلین ٹری منصوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا انکشاف

کمیٹی ارکان جان بوجھ کرغلط سائٹ پر گئے، وزیر اطلاعات خیبرپختونخوا شوکت یوسفزئی نے اپوزیشن کے الزامات کو ڈارمہ قرار دیکر مسترد کردیا

667

پشاور: خیبرپختونخوا کے بلین ٹری سونامی منصوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور بے ضابطگیوں‌ کا انکشاف ہوا ہے تاہم صوبائی حکومت نے تمام الزامات کو مسترد کردیا ہے.

بلین ٹری منصوبے میں کرپشن کی تحقیقات کےلیے پارلیمنٹ کی 18 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، ارکان اسمبلی اکرم خان درانی، خوشدل ایڈووکیٹ، شگفتہ ملک، سرداریوسف اور لطف الرحمان سمیت دیگر پر مشتمل کمیٹی نے بنوں کا دورہ کیا اور بلین ٹری منصوبے کی سائٹ کا جائزہ لیا۔

پارلیمانی انکوائری کمیٹی کے رکن اپوزیشن لیڈر کے پی اسمبلی اکرم خان درانی نے انکشاف کیا کہ سرکاری اداروں کی جانب سے اعدادوشمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور ایک ارب سے زائد درخت لگانےکا دعویٰ کرنے والے 10 کروڑ درخت بھی نہیں لگاسکے۔

انہوں نے کہا کہ 400 کنال پر درخت لگانے پر سرکاری ریکارڈ میں مزدور کو ساڑھے 15 ہزار کے بجائے 5 ہزار روپے اجرت مل رہی ہے. 2 ہزار پودے لگا کر 2 لاکھ ظاہر کیے گئے، مزدوروں کو چیک کی بجائے کیش میں ادائیگی کی گئی.

پارلیمنٹ کی انکوائری کمیٹی کا سائٹ کا دورہ

اکرم درانی نے کہا کہ محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے نالی چک کے مقام پر 10 لاکھ پودے ریکارڈ میں ظاہر کیے لیکن حقیقت میں ایک ہزار بھی نہیں لگے۔

انہوں نے کہا کہ بلین ٹری منصوبے میں‌ وسیع پیمانے پر کرپشن پراحتساب کے ادارے کیوں‌ خاموش ہیں؟

ذرائع کے مطابق فی پودے کی دیکھ بھال 50 روپے مقرر کی گئی تھی جبکہ اب 500 روپے دیے جا رہے ہیں، حکومت نے ایک ارب 20 کروڑ پودے لگانے کا دعویٰ کیا، مجموعی طور پر 10 کروڑ بھی نہیں ہیں۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں اپوزیشن کے لگائے گئے الزامات کو ڈارمہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا. انہوں نے کہا کمیٹی کے ارکان جان بوجھ کرغلط سائٹ پر گئے.

مزدوروں کو ادائیگیوں میں بےضابطگیوں سے متعلق سوال پر شوکت یوسفزئی نے کہا کہ کرپشن میں ملوث 100 سے زائد اہلکاروں کو صوبائی حکومت پہلے ہی کام سے فارغ کرچکی ہے اور ان سے ریکوری بھی کی گئی ہے.

بنوں ڈویژنل فارسٹ آفیسر لطیف حسین نے بلین ٹری منصوبے میں بد عنوانی کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا ہےکہ کمیٹی نے بنوں میں جن علاقوں کا دورہ کیا وہاں پہلے سے ہی کمی تھی۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے پاکستان میں مینجر کامران حسین نے اس منصوبے کا آڈٹ کیا تھا، انہوں نے گزشتہ سال ایک خبر ایجنسی کو بتایا تھا کہ بلین ٹری منصوبے کے تحت گو کہ سرکاری اعداوشمار میں درختوں کی تعداد زیادہ بتائی گئی تاہم پھر بھی 1.6 ارب درخت لگائے گئے.

انہوں‌ نے کہا کہ منصوبے کے بارے میں اعدادوشمار 100 فیصد درست ہیں، ہر چیز آن لائن ہے اور ہر کسی کو معلومات تک رسائی میسر ہے.

سویٹزرلینڈ میں موجود انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) منصوبے کو “ماحولیات کے تحفظ کی ایک کامیاب کہانی” قرار دے چکی ہے.

واضح رہے کہ پاکستان میں صرف 5.2 فیصد علاقے میں جنگلات موجود ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق ماحولیات کے تحفظ کیلئے یہ تعداد 12 فیصد ہونی چاہیے.

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here