اب 100روپے کے کارڈ پر 100روپے نہیں ملیں گے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے موبائل فون کارڈز پر عائد ٹیکسز سے متعلق کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے 12 جون تک جاری کیا گیا حکم امتناعی واپس لیتے ہوئے موبائل فون کارڈز پر عائد تمام ٹیکسز بحال کر دیے ہیں جس کے بعد اب 100 روپے کے کارڈ پر 100 روپے کا بیلنس نہیں ملے گا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے مقدمہ کی سماعت کی جس کے دو ارکان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجازالاحسن شامل تھے جنہوں نے موبائل فون کمپنیوں سے اضافی ٹیکس وصولی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاہے کہ ٹیکس دینے کی صلاحیت نہ رکھنے والوں سے انکم ٹیکس لینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اس مقدمے میں ایسے شہریوں سے ٹیکس لیا جا رہا تھا جو انکم ٹیکس کے دائرے میں نہیں آتے۔ 13 لاکھ شہری ٹیکس دہندہ ہیں جبکہ 2 کروڑ سے زائد شہریوں سے موبائل ٹیکس لیا جا رہا ہے۔نان فائلر شہریوں سے موبائل ٹیکس لینے کے خلاف مقدمہ بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔ٹیکس دینے کی صلاحیت نہ رکھنے والوں سے انکم ٹیکس لینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
یہ واضح رہے کہ پاکستان میں موجود موبائل فون کمپنیاں 100 روپے کے ری چارج پر 40 روپے کی کٹوتی کرتی تھیں جن میں سروس چارجز اور ٹیکس کی رقم شامل تھے۔ صارفین کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ کمپنیوں کی جانب سے کٹوتی پر جواب طلب کیا جائے۔
چنانچہ گزشتہ برس جون 2018 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے موبائل فون کارڈز پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس وصول کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ 100 روپے کے کارڈ یا بیلنس پر 40 روپے کاٹ لیے جاتے ہیں، اتنا زیادہ ٹیکس کس قانون کے تحت اور کس مد میں لیا جاتا ہے؟
سابق چیف جسٹس کے حکم کے بعد موبائل فون کمپنیوں کو 100 روپے کے کارڈ پر 100 روپے کا بیلنس دینے کے علاوہ متعلقہ محکمے کو کمپنیوں کے ساتھ مل کر فریم ورک تشکیل دینے کا حکم بھی جاری کیا گیا تھا۔