15 مارچ کودفاعی تجزیہ کار اور سابق انٹیلی افسر بریگیڈئیر (ر) اسد منیر نے خودکشی کرلی. ان کی خودکشی نے کھوکھلے اور ناکارہ نظام کے چہرے سے نقاب نوچ ڈالا جس میں نااہل سرکاری افسران احتساب کے نام پر لوگوں کی عزت اور زندگی سے کھیلتے ہیں. اسد منیر اپنے پیچھے ایک خط چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام چھوڑ گئے جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ وہ ہتھکڑی لگنے اور میڈیا کے سامنے پریڈ کے خوف اور بے عزتی سے بچنے کیلئے خودکشی کر رہے ہیں. انہوں نے خط کے ذریعے چیف جسٹس پاکستان سے بھی اپیل کی کہ وہ نیب حکام کے رویے کا نوٹس لیں.
اسد منیر کی خودکشی نیب کے بے لگام اختیارات کی بھینیٹ چڑھنے کی پہلی مثال نہیں، نیب اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کاروباری افراد کو ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں حالانکہ یہی کاروباری طبقہ ملکی معیشت کی جان ہے لیکن کرپشن کے بے بنیاد الزامات لگا کر معاشرے کے معزز رکن کے طور پر انکا کردار داغدار کیا جاتا ہے.
“منافع” تک کارباری طبقے کے جو جذبات پہنچے وہ کچھ ایسے ہیں کہ آئے روز اداروں کی جانب سے ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے کوئی بھی کاروباری فرد پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار نہیں، جو پہلے سرمایہ کاری کرچکے ہیں آہستہ آہستہ ان کا حوصلہ بھی جواب دے رہا ہے.
نیب حکام جن افراد سے تفتیش کر رہے ہوں ان کے نام میڈیا کو لیک کر دیے جاتے ہیں اور یوں ممتاز کارباری شخصیات کے نام بھی میڈیا میں سرخیاں بٹورتے ہیں. تازہ ترین مثال میاں منشاء کی ہے جنہیں منی لانڈرنگ کے الزامات پر نیب میں طلب کیا گیا تاہم میاں منشاء اپنے خلاف الزامات مسترد کرتے ہیں.
میاں منشاء ایک بار تو نیب میں پیش ہو گئے تاہم گرفتاری کے خوف سے دوبارہ اس وقت تک نہیں گئے جب تک لاہور ہائیکورٹ نے نیب کو میاں منشاء پر دبائو ڈالنے روک نہیں دیا.
یہ کیس طویل بھی ہو سکتا ہے اور میاں منشاء کی گلوخلاصی بھی ہوسکتی ہے لیکن بری خبر یہ ہے کہ اسکی وجہ سے ان کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے. ایسے واقعات پاکستان کے سرمایہ کاری کیلئے موزوں ملک ہونے کے امیج کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں.
نیب کو تحقیقات کے دوران کسی وجہ، ثبوت یا جوڈیشل ریمانڈ کے بغیر گرفتاری کے اختیارات حاصل ہیں اور تفیتش کے دوان بھی ملزم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرے. یہ چیز ناصرف قانون اور معاشرتی تہذیب کے خلاف ہے بلکہ ایک ترقی پذیر معیشت کو بھی مزید نقصان پہنچاتی ہے.
قانون کی عملداری کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا احتساب لازمی ہو جو اقتدار میں ہیں، چاہے یہ اقتدار سیاسی ہو یا معاشی. لیکن ان کے خلاف جب بغیر ثبوت کے کارروائیاں کی جاتی ہیں تو اس سے کرپشن ختم کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوتا بلکہ سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں کو دھچکا لگتا ہے. زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایسی کارروائیوں سے کرپشن کا سبب بننے والے نظام کی بھی اصلاح نہیں کی جا سکتی.
ٹیکس چوری سے بھی پیچیدہ چیز:
پاکستان میں زیادہ تر کاروباری افراد کو غلط اور بدعنوان ہی سمجھا جاتا ہے. عام تاثر یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی شخص اگر امیر ہو گیا ہے تو ضرور اس نے کوئی بڑا ہاتھ مارا ہوگا.
یہ بھی سچ ہے کہ بعض اوقات کاروباری افراد کو اپنے مقصد کے حصول کیلئے کوئی غیر قانونی کام کرنا پڑ جاتا ہے لیکن زیادہ تر کیسز میں وہ ایسا کام ضرورت کے تحت ہی کرتے ہیں. ایسے ماحول میں جہاں نیب اور ایف بی آر جیسے سرکاری ادارے کمرشل کاروباری اداروں کیلئے سخت گیر اور جارحانہ بیوروکریٹک رویہ اختیار رکھتے ہوں اور قوانین بھی کاروبار کی ترقی کیلئے سازگار ہونے کی بجائے کاروبار کا گلہ ہی گھونٹیں تو ایسے ماحول میں کون ہو گا جو ہر وقت قانون کی پاسداری کرے.
مثال کے طور پر ٹیکس چوری پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن کسی حد تک اس میں ایف بی آر بھی قصور وار ہے جب وہ ٹیکس چوری کرنے والوں کی بجائے ٹیکس دینے والے کاروباری طبقے کو ہراساں کرتا ہے. حکومت بھی ٹیکس ادا کرنے والوں کی پذیرائی کرنے کی بجائے انہیں ہی سزا دیتی ہے جس کی وجہ سے وہ قانون کے خلاف جاتے ہیں.
لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک کاروباری شخصیت نے “منافع” سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر آپ سسٹم کو یہ بتا دیں کہ آپ باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں تو ٹیکس اہکار آپ کے کاروبار پر چھاپے ماریں گے اور ڈرائیں دھمکائیں گے لیکن وہ ایسا ٹیکس چوروں کے خلاف بالکل نہیں کرتے.
یونی لیور پاکستان کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر اور پاکستان بزنس کونسل کے موجودہ چیف ایگزیکٹو آفیسر احسان ملک نے “منافع” کو بتایا کہ بعض اوقات ریونیو اتھارٹیز ایف بی ار وغیرہ اپنے ٹارگٹ پورے کرنے کیلئے ایڈوانس ٹیکس (آئندہ سہ ماہی کا ٹیکس موجودہ سہ ماہی میں وصول کرنا) کا مطالبہ کرتے ہیں اور نوٹسز بھیج کر ہراساں کرتےہیں. کچھ لوگ تحیقیقات کے ڈر سے ایڈوانس ٹیکس دے بھی دیتے ہیں.
احسان ملک نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایسے لوگوں کا پیچھا کرنا ٹیکس اتھارٹیز کیلئے آسان ہوتا ہے اور کارکردگی دکھانے کیلئے وہ اپنے ٹارگٹ حاصل کر لیتے ہیں. سسٹم میں نقائص کی وجہ سے ایف بی آر ایسا کر رہا ہے کیونکہ پالیسی سازی اور ٹیکس جمع کرنے کا اختیار ایک ہی ادارے کے پاس ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی ٹیکس اہلکار بوقت ضروت پراسیکیوٹر بھی بن جاتا ہے اور جج بھی وہی ہوتا ہے. مثلاََ اگر ان کا مطلوبہ ٹارگٹ پورا نہ ہو تو پالیسی سازی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے وہ اسی ٹیکس دہندہ پر کسی نئی قسم کا ٹیکس ٹھونس دیتے ہیں اور یوں اپنا ٹارگٹ پورا کرتے ہیں.
کاروباری افراد کو ہراسان کرنے کیلئے صرف نوٹسز ہی نہیں بھیجے جاتے بلکہ اخبارات کاروباری افراد کے خلاف چھاپوں اور ان کی گرفتاریوں کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں اورتو اور وزیر اعظم عمران خان کے مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد ایسی کارروائیوں میں شدت آگئی ہے. کاروباری برادری کے اثرورسوخ والے افراد کے نام ای سی ایل پر ڈالے گئے ہیں، ان پر الزامات ہیں کہ انہوں نے ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کی. اگرچہ یہ ساری کارروائیاں اور سزائیں بغیر کسی عدالتی کارروائی یا فرد جرم کے ہیں.
نیب کے بے لگام اختیارات اس کے علاوہ ہیں. وہ معمولی الزام پر کاروباری افراد کا پیچھا کرنے لگتا ہے. یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ عدالتوں نے متعدد مواقع پر مداخلت کرتے ہوئے سرکاری اداروں بشمول نیب کو منع کیا ہے کہ وہ کاروباری برادری کو ہراساں نہ کرے.
ایک کاروباری شخصیت نے بتایا کہ پکڑ دھکڑ کی وجہ سے کاروباری برادری میںخوف کی فضا پائی جاتی ہے، وہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں ادارے یہ نہ تفتیش شروع کر دیں کہ یہ رقم کہاں سے حاصل کی. ملک میں روزگار سرمایہ کاری سے ہی پیدا ہوتا ہے. اور اسی سے ہی ملکی معیشت چلتی ہے. اگر کاروباری طبقہ ہی ڈرا سہما رہے گا تو وہ سرمایہ کاری نہیں کرے گا جس کی وجہ سے معیشت بیٹھ جائے گی.
اس کے علاوہ سسٹم جان بوجھ کر اتنا پیچیدہ رکھا گیا ہے کہ جو لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کرنا چاہیں ان سے کوئی معمولی غلطی ہو جائے تو انہیں افسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے.
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی دعویٰ کرتے ہیں کہ ایف بی آر اہلکار رشوت لینے کیلئے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں. “اگر حکومت واقعی ہی آمدن میں اضافہ چاہتی ہے تو بے شمار طریقے ہیں جن سے کسی شخص کے ٹیکس دہندہ ہونے سے متعلق پتہ چلایا جا سکتا ہے لیکن حکومت ایسا کرے گی نہیں بلکہ جان بوجھ کر کرپشن کی راہ ہموار کرنے کیلئے مشکل طریقہ کار رکھا گیا ہے.”
احسان ملک کہتے ہیں کہ “ورلڈ بنک کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں مخلتف قسم کے 47 ٹیکس لاگو ہیں، جب اتنے زیادہ ٹیکس ہوں تو مختلف ٹیکس اتھارٹیز کے ساتھ ڈیل کرنااور مخلتف قسم کے ٹیکس ریٹرن بھرنا ایک مسئلہ بن جاتا ہے. اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے حوالے سے ہر وقت وفاق اور صوبوں میں کشمکش جاری رہتی ہے اسکی وجہ سے صوبوں میں دشمنی پیدا ہوتی ہے لیکن اس سارے منظر نامے میں صرف ٹیکس دہندہ متاثر ہوتا ہے.
اسے سسٹم کے نقائص کا نتیجہ کہیں یا گزشتہ حکومتوں کی نااہلی کہیں کہ جو چیزوں کو شروع سے ٹریک پر نہیں رکھ سکے یا پھر دونوں قصور وار ہیں. ہماری مجموعی معیشت کے اندر ایک ایسی معیشت بھی وجود رکھتی ہے جو غیر دستاویزی (undocumented) ہے اور یہ حکام کی نظروں سے بھی پوشیدہ ہے.
ماہرین معاشیات اسے ‘غیر رسمی معیشت’ (informal economy) یا غیر رسمی سیکٹر (informal sector) کہتے ہیں جو لوگ انفرادی سطح پر چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاروبار کی صورت میں چلاتے ہیں، رسمی سیکٹر (formal sector) کے برعکس وہ ناحکومتی قوانین پر عمل کرتے ہیں اور ناہی ٹیکس دیتے ہیں. پاکستان میں غیر رسمی سیکٹر کل معیشت کا 60 سے70 فیصد ہے.
غیر دستاویزی معیشت:
یہ سیکٹر صرف غیر دستاویزی کاروبار تک ہی محدود نہیں بلکہ رسمی سیکٹر میں لوگ ٹیکس بچانے کیلئے متبادل راستے نکالے ہوئے ہیں. وہ ایسا کرنے میں اس لیے کامیاب ہو جاتے ہیں کیونکہ پوشیدہ معیشت (shadow economy) رسمی کاروبار کو بھی ایسا کرنے کے قابل بنا دیتی ہے کیونکہ کاروبار کا سائز بڑا ہوتا ہے. اس طرح غیر رسمی سیکٹر بھی رسمی کاروبار کا لازمی حصہ بن جاتا ہے.
فرض کریں کہ ایک بڑے دستاویزی (documented) ریٹیل بزنس کو سپلائی کیلئے کسی چھوٹے ڈسٹری بیوٹر کی خدمات حاصل کرنا پڑیں جو غیر دستاویزی (undocumented) ہو. چونکہ دونوں کے مابین ہونے والی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ نہیں رکھا جائیگا اورآفیشل ریکارڈ سے یکسر غائب ہوگا. رسمی کاروبار ایسی متوازی بکس رکھتے ہیں کیونکہ غیر دستاویزی کاروبار ٹیکس بچاتے ہیں اس لیے رسمی کاروبار کو ٹرانزیکشن کے دوران ٹیکس کاٹنے کی اجازت نہیں ہوتی.
کسی ریاست کے پاس غیر رسمی معیشت کو موثر طور پر ریگولیٹ کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے ٹیکسوں کی مد ہونے والی آمدن سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے. لیکن ماہرین کہتے ہیں اس کی قیمت عام شہری زیادہ چکاتے ہیں کیونکہ غیر رجسٹرڈ فرمز ریگولیٹ نہیں ہوتیں، ورکرز کو کم تنخواہ دیتی ہیں، بچوں سے بھی کام کرواتی ہیں، کام کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے، ورکرز کی صحت اور تحفظ کا خیال نہیں رکھتیں اور چیزیں بھی غیر معیاری تیار کرتی ہیں. ایسی انٹرپرائزز معاشرے کی مجموعی بہتری کو کافی حد تک خرابی میں بدل سکتی ہیں.
تمام اعتراضات کے باجود تین وجوہات کی بنا پر کاروباری طبقہ اپنے کاروبار غیر دستاویزی ہی رکھنا چاہتا ہے. ان میں سے پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس قوانین کمزور ہیں، عملی طور پر حکومت کی جانب سے ٹیکس دہندگان کو کوئی رعایت نہیں ملتی. دوسری وجہ یہ ہے کہ کوئی آپ کا پیچھا نہیں کرتا، تیسری وجہ یہ کہ غیر رسمی کاروبار زیادہ منافع بخش ثابت ہوتا ہے اور یہی کاروبار کرنے کا مقصد ہوتا ہے.
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ رسمی کاروبار (formal business) کرنے والے افراد بھی لمبا عرصہ کام کرنے کے بعد کسی قسم کے فائدے حاصل ہوتے نہ دیکھ کر غیر رسمی (informal business) کی جانب متوجہ ہو چکے ہیں.
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے مثال دیتے ہوئے واضح کیا کہ “مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری نے مخلتف یونٹس کو مخلتف کمپنیوں کے طور پر رجسٹرڈ کرایا، اگر کسی فیکٹری میں ایک ہزار ورکرز کام کرتے ہوں تو اس پر تمام لیبر قوانین لاگو ہوتے ہیں لیکن اگر آپ اسی فیکٹری کو چھوٹے یونٹس میں تبدیل کر دیں تو لیبر قوانین لاگو نہیں ہوتے.
انہوں نے کہا کہ اب انفارملائزیشن ( informalisation) کا رجحان چل رہا ہے، فارمل کمپنیاں بھی اِن فارمل بن چکی ہیں کیونکہ اس طرح وہ مختلف ریگولیٹری اتھارٹیز کا مقرر کردہ معیار اپنانے سے بچ جاتے ہیں.
حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟
یہ سمجھنے کیلئے کہ اس سلسلے میں حکومت کیا کردار ادا کر سکتی ہے پہلے یہ دیکھنا زیادہ اہم ہو گا کہ حالیہ دنوں میں حکومت کیا کر رہی ہے اور غلط کیا ہے؟
حکومت اس شعبے کو فارمالائیز (formalise) کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو 60 سے 70 فیصد افرادی قوت کو روزگار مہیا کرتا ہے، لیکن حکومت اس کیلئے وہی پرانے تشدد آمیز ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے اور انہی پرانے اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑا جا رہا ہے، بجائے مراعات دیکر رضاکارانہ طور پر کاروبار کو documented کروانے کی حوصلہ افزائی کرنے کے الٹا ڈنڈے سے کام لیا جا رہا ہے. اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومتی آمدن بڑھانے کا واحد اور بہترین راستہ ٹیکس سے ہونے والی آمدن ہی ہے اور یہ ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھا کر ہی حاصل ہو سکتی ہے.
لیکن کیا جلد بازی سے ساری معیشت documented بنایا جانا چاہیے؟ جیسا کہ حکومت ایک پیچیدہ اور سست روی کی شکار معیشت کو بنانے کی کوشش میں ہے، ایسی معیشت جہاں کئی اداروں کو استثنیٰ حاصل ہے اور جہاں ٹیکس کا ایسا تادیبی نظام جس میں دولت بنانا غلط سمجھا جاتا ہے؟ کیا ایسی صورت میں ساری معیشت documented ہو سکتی ہے؟
ماہر معاشیات اور منصوبہ بندی کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین ندیم الحق کو یقین ہے کہ informal سیکٹر بہت بڑا ہے اور اسی ٹھیک کرنے کی حکومتی کوششوں سے معاشی ترقی میں رکاوت پیدا ہوگی کیونکہ حکومت اس شعبے کو ٹھیک کرنے کے نام پر کاروبار بند کروا رہی ہے.
ندیم الحق کیمطابق زیادہ تر لوگ informal کاروبار ہی کریں گے کیونکہ وہ کوئی بہت زیادہ امیر نہیں ہیں اور ان کے پاس کھونے کو بھی زیادہ کچھ نہیں ہے، اگر ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جن سے معیشت تسلسل کے ساتھ چلتی رہے اور کارباروں کو پھلنے پھولنے دیا جائے تو یہ informal سیکٹر خود ہی ایک دن formal میں بدل جائے گا.
انہوں نے کہا کہ “سادہ سی بات ہے کہ کوئی شخص ایک دکان شروع کرتا ہے، اس سے ترقی کرتے کرتے بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور بن جاتا ہے تو وہ خود ہی formal ہو جائے گا کیونکہ بڑا کاروبار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہ سکتا. کاروبار کو ترقی کرنے کی اجازت دینا ہوگی، اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو وہ کسی صورت چھپنے کے قابل نہیں ہونگے.”
ڈاکٹر ندیم الحق نے مزید کہا کہ ” informal بالآخر خود ہی formal ہو جائیگا حکومت کو چاہیے کہ اس دوران سسٹم ٹھیک کرلے اور فائلرز اور نان فائلرز کا فرق بھی ختم کرے، ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ اس لیے نان فائلرز ہیں کیونکہ وہ امیر نہیں ہیں، معاشی پالیسی کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ معیشت تسلسل کے ساتھ چلتی رہے، ہر کسی کو formal economy میں شامل نہیں کیا جاسکتا. اوبر اور کریم کے ڈرائیوروں کی مثال لے لیں، انہیں formalise کیسے کیا جا سکتا ہےِ؟ انہیں ویسے ہی کام کرنے دیجیے.”
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ informal sector میں بڑی تعداد میں لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے ایسی صورت میں اگر کوئی سخت کارروائی کی گئی تو ناصرف معیشت بیٹھ جائے گی بلکہ غربت بھی بڑھے گی.
وہ کہتے ہیں کہ “انفرادی کاروباری شخصیات اور کمپنیاں جب امیر ہو جائیں تو انہیں ٹیکس کے دائرے میں آ جانا چاہیے، یہ ایسے ہی ہے کہ سسٹم کی بہتری کے ساتھ ساتھ فطری طور پر ٹیکنالوجی کے استعمال سے کاروبار ترقی کرتا رہتا ہے. اگر ٹیکس کا نظام سادہ ہو، مخصوص لوگوں کو رعاتیں نہ ملیں اور ٹیکس کی شرح کم ہو تو لوگوں کی اکثریت ٹیکس کے دائرے میں شامل ہو گی اور رضاکارانہ طور شمولیت اس نظام کو بھی بہتر کرے گی.”
“منافع” نے اس موضوع پر اظہار خیال کیلئے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، موجودہ حالات میں غیر دستاویزی (undocumented) معیشت کو دستاویزی (documented) بنانے کیلئے حکومتی طریقہ کار سے متعلق جاننے کیلئے ہم نے (سابق ) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر خزانہ پنجاب ہاشم جواں بخت سے بھی رابطے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے بھی کوئی جواب نہیں ملا.