حالیہ دنوں میں پاکستان میں فارمیسی بزنس آسان نہیں رہا، ماضی میں صرف ایک چیز کی ضرورت ہوتی تھی کہ ایک اچھی چلنے والی کمپنی ہو جو گاہکوں سے دھوکا نہ کرتی ہو اور جس کی سیلز روز بروز بڑھتی رہیں. تاہم اب Carrefour جیسی ریٹیل سپرمارکیٹ چینز اور صحت ڈاٹ پی کے جیسی آن لائن کمپنیوں سے مقابلے کے بعد ڈی واٹسن جیسی فارمیسی کیلئے اکیلے کھڑے رہنا مشکل ہو رہا ہے.
ڈی واٹسن اسلام آباد میں قائم ایک فارمیسی چین ہے، اب یہ ردعمل کے طور پر اپنے کاروبار کو گروسری میں بھی فروغ دے رہی ہے، یہ فیصلہ خاندانی کاروبار اور کزنز کے مابین ملکیتی علیحدگی کے بعد کیا گیا ہے اور اب اس کی ہر آئوٹ لیٹ ازادانہ طور پر کام کر رہی ہے.
ڈی واٹسن (D. Watson) نام کیسے پڑا؟
دو بھائیوں زاہد بختاوری اور ظفر اقبال بختاوری نے ڈی واٹسن فارمیسی کا آغاز 1975ء میں اسلام آباد کی مری روڈ پر ایک چھوٹی سی فارمیسی شاپ کے طور پر کیا تھا.
بڑے بھائی ظفر اقبال جب بیچلر آف ڈینٹل سرجری کے آخری سال کے طالب علم تھے تو انہیں آنکھ میں تکلیف کی وجہ سے تقریباََ بینائی سے محروم ہونا پڑا. وہ علاج کیلئے برطانیہ گئے اور جس ڈاکٹر نے ان کی بینائی ضائع ہونے سے بچائی ان کا نام ڈاکٹر واٹسن تھا. پاکستان واپسی پر ظفر اقبال نے اپنے مسیحا کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ان کے نام پر ایک کیمسٹ شاپ کا آغاز کیا.
یہ واضح نہیں کہ ڈاکٹر واٹسن کو کچھی معلوم پڑا ہو کہ ان کے نام سے پاکستان میں ایک فارمیسی قائم ہے، تاہم 40 سال کے دوران ڈی واٹسن شاپ اب اسلام آباد اور راولپنڈی میں ڈی واٹسن گروپ آف فارمیسیز بن چکا ہے اور اس کی شاخیں ملک کے دوسرے شہروں لاہور، پشاور اور مری میں بھی ہیں.
بلال زاہد بختاوری ڈی واٹسن کے مالکان کی دوسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جب سے کاروبار خاندان میں تقسیم ہوا ہے تب سے بلال اسلام آباد میں ڈی واٹسن کی دو آئوٹ لیٹس کو سنبھالتے ہیں. ائندہ دو سال میں بلال کا منصوبہ اس کاروبار کو آئن لائن کرنا ہے، جس میں ناصرف فارمیسی شامل ہے بلکہ گروسری، گلاسز اور گھریلو استعمال کی دیگر چیزیں شامل ہیں. ان کا دوسرا منصوبہ اپنی ڈرماٹالوجسٹ بیوی کو aesthetic clinic بنا کر دینا ہے.
بلال بختاوری کا دفتر ڈی واٹسن کی 9-G آئوٹ لیٹ کے پہلے فلور پر ایک سادہ سا کمرہ ہے جب ہم وہاں گئے تو اس کی تزئین و آرائش جاری تھی. دفتر میں ایک پرانا کمپیوٹر اور پلاسٹک کی چند کرسیاں رکھی ہیں، دروازے پر کارڈ بورڈ کے کچھ ڈبے کمرے میں داخل ہونے والوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں، کمرے کی تین دیواروں کے ساتھ اونچائی پر الماریاں بنی ہیں جن میں شائد ادویات رکھی ہیں کیونکہ ان پر “قابل واپسی” اور “تاریخ استعمال ختم ہونے کے قریب” اور دوسری قسم کے اسٹیکر چپکائے گئے ہیں.
چوتھی دیوار پر کمپیوٹر کے پیچھے لفٹ کی جانب کھلنے والا ایک خلا ہے جہاں سے لفٹ کا دروازہ کسی قید خانے جیسا احساس دلاتا ہے، یہاں مختلف سپلائیرز اپنی شپمنٹس اتار کر پیسوں کی ادائیگی کیلئے بلال کا انٹرویو ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں.
بالکل اس کمرے کے باہر جو ایریا ہے وہ کسی متروک شدہ خستہ حال عمارت کا حصہ دکھائی دیتا ہے، یہ سیلز ایریا ہے اور یہاں سیلز سٹاف کی کافی چہل پہل ہے، ڈی واٹسن کے اس شوروم میں ڈھیروں قسم کا میک اپ کا سامان، لاتعداد قسم کے پرفیوم، ہینڈ بیگز، نہانے دھونے کا سامان، انڈر گارمنٹس، ہیر ڈرائیرز سے لیکر خواتین کے ڈریسنگ روم کی ہر چیز موجود ہے. یہاں بچوں اور مردوں کے لیے بھی کافی چیزیں موجود ہیں، ان سامان سے بھری الماریوں کے بیچوں بیچ ہی ایک چھوٹی سی جگہ سے سیڑھیاں گرائونڈ فلور پر جاتی ہیں جو مزید سامان سے بھری ہوئی ہے.
سیڑھیوں کے بائیں طرف فارمیسی پروڈکٹس رکھی ہیں جبکہ دائیں جانب کا سارا ایریا سن گلاسز اور چشموں سے بھرا ہوا ہے، چھوٹے چھوٹے ہینگرز اور الماریوں کے درمیان سے دائیں بائیں جانا مشکل ہو جاتا ہے.
خاندان کی ملکیت کاروبار
1. واٹسن فارمیسیز اسلام آباد کے اندر اور باہر آئوٹ لیٹس کھول چکی ہے تاہم انہوں نے اس کی ملکیت ابھی تک خاندان کے اندر ہی رکھی ہے، شائد لاہور والی آئوٹ لیٹ براہ راست بختاوری خاندان کی ملکیت نہ ہو لیکن وہ بھی بلال کے ایک رشتہ دار ہی سنبھالتے ہیں.
اس بارے میں بات کرتے ہوئے بلال بختاوری نے کہا کہ “جس مقام پر آج ڈی واٹسن موجود ہے، یہ سب میرے چچا ظفر اقبال کی محنت کا نتیجہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ خود ہی اس کامیابی کو خاندانی کے باہر کسی سے بانٹنا نہیں چاہتے”.
انہوں نے کہا کہ شاہین فارمیسیز اینڈ گروسرز کی مثال ان کے سامنے ہے جنہوں نے فرانچائز ماڈل کا تجربہ کرنا چاہا تاہم وہ کام نہ چلا اور انہوں نے ختم کردیا.
بلال نے مزید کہا کہ جو لگن اور محنت کوئی مالک خود اپنے کاروبار پر کرتا ہے وہ کوئی فرنچائز کا مالک نہیں کرسکتا. بجائے فرنچائز دینے کے ہم اس کاروبار کو اپنے خاندان میں رکھ کر اس کا وہ معیار برقرار رکھیں گے جو ڈی واٹسن کی پہچان ہے.
بلال اور ان کے کزنز اپنے چچا کی اس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ کاروبار کو فیملی تک محدود رکھنا ہے اور فرنچائز نہیں دینی لیکن جب معاملات کو چلانے کی بات آتی ہے تو انہوں نے اپنے والدین کے طریقے سے انحراف ضرورکیا ہے اور اس کا آغاز ریکارڈ محفوظ رکھنے کے طریقے سے ہوا.
اس حوالے سے بلال نے کہا کہ ” میرے اور والد کے کام کرنے کے طریقوں میں فرق شائد ٹیکنالوجی کے استعمال کا ہے. کاوئنٹنگ میں گریجوایشن کرنے کی وجہ سے میں دکان میں آنے اور جانے والی ہر چیز کی اکائونٹنگ کرتا ہوں.” میڈیسن کے ریکارڈ کیلئے ایک خود کار نظام موجود ہے یہ نظام ادویات کی ایکسپائری ڈیٹ میں رہ جانے والے وقت، یا کسی دوا کو شیلف میں رکھنے یا مینوفیکچرر کو واپس کرنے کے حوالے سے اپ ڈیٹس دیتا رہتا ہے.
دوسری چیز یہ کہ ملازمین کی تربیت پر کافی توجہ دی جاتی ہے جو کہ والد کے زمانے میں نہیں تھی، پہلے ایسا مارکیٹ میں کاروبار کی بقا کیلئے کرنا پڑتا تھا اب ترقی کیلئے کرنا پڑتا ہے.
بلال کا کہنا تھا کہ تیسری چیز ہم نے یہ کی کہ کام کو تقسیم کر دیا، یہ آئیدیا میرے کزن احسن بختاوری کا تھا. اب آئی ٹی اور ایچ آر کی الگ الگ ٹیمیں ہیں. کام کو ڈیپارٹمنٹس میں بانٹ دیا گیا ہے. پہلے ہر شخص ہر کام ہی کر رہا تھا اور کسی کی جاب واضح نہیں تھی.
ڈی واٹسن کے صرف اندورنی معاملات میں ہی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس کی مارکیٹ اور دیگر مدمقابل بھی تبدیل ہوئے ہیں. بلال کے مطابق بڑی تبدیلی شائد کسٹمرز کی وجہ سے آتی ہے، آج کل کسٹمرز قیمتوں سمیت پروڈکٹس کی دیگر تفصیلات سے بخوبی واقف ہیں.
بلال بختاوری کیمطابق یہ چیز ان کے لیے اچھی ثابت ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ “ہم اپنی طرف سے معیار برقرار رکھتے ہیں، جب ہم دیکھتے ہیں کہ نئی نسل معیار کے بارے میں کسی بھی اور چیز سے زیادہ حساس ہے تو پھر ہمارا انتخاب کیجیے اور ہمارے ساتھ رہیے.”
ایک دوسری نمایاں تبدیلی ادویات کی آن لائن بڑھتی ہوئی فروخت ہے. لاہور کے فضل دین اینڈ سنز نے اس بات کا جلدی احساس کیا اور صحت ڈاٹ پی کے بنا ڈالی، بلال کہتے ہیں کہ انہیں آن لائن سٹور بنانے میں 2 سال لگیں گے.
تاہم ان کے پاس کچھ نئے منصوبے ہیں. “میں نے کینیڈا میں گلاسز کے حوالے سے ایک چیز دیکھی، وہاں ایک آن لائن پلیٹ فارم پر آپ اپنی تصویر اپ لوڈ کر کے اپنی مرضی کا فریم منتخب کرسکتے ہو اور پھر اپنی بینائی کی تفصیلات دیکر پروڈکٹ آرڈر کر سکتے ہیں”.
سپر مارکیٹ میں توسیع کا منصوبہ:
واٹسن گروپ زمانے کے ساتھ چلنے کیلئے کچھ تبدیلیوں پر غور کر رہا ہے، اس بارے میں بلال نے بتایا کہ شائد لوگوں کی یہ رائے ہو کہ شاہین اور میڈی پلس ہمارے مدمقابل ہیں لیکن ہم سالہا سال سے کام کر رہے ہیں اور اپنی جگہ بنا لی ہے. کافی عرصہ تک اس شعبے پر شخصی اجارہ داری رہی ہے. اصل چیلنج پنجاب کیش اینڈ کیری، گرین ویلی، ایم سی سی اور ہائپرسٹار سے درپیش ہے. یہ وہ جگہیں ہیں جہاں ہر چیز ایک ہی چھت تلے دستیاب ہوتی ہے اور اب ادویات بھی ملنے لگی ہیں. وہ ناصرف چیزیں بڑی مقدار میں خریدتے ہیں بلکہ کام بھی بڑے سکیل پر کرتے ہیں. ہم بھی اس بارے میں غور کر رہے ہیں کہ ہمارے پاس بھی سپرمارکیٹ ہو. دیگر کمپنیوں کے ساتھ مقابلے کیلئے مستقبل میں ہمیں سپرمارکیٹ کیساتھ ایک سٹور کی ضرورت ہوگی.
گروسری آئیٹمز ڈی واٹسن گروپ کیلئے پہلے ہی کمائی کا بڑا ذریعہ ہیں، کمپنی کی پہچان بطور فارمیسی ہی رہتی ہے، اسلام آباد میں بہت سے سٹور اب ساتھ میں گروسری آئیٹمز بھی فروخت کرتے ہیں. لیکن جنہوں نے فارمیسی کی بنیاد رکھی ان کی طرف سے اس فیصلے پر کافی تنقید سامنے آئی.
بلال نے بتایا کہ “جب میرے کزن احسن نے فارمیسی کے ساتھ گروسری شروع کی تو میرے انکل نے ان کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ اب آپ بریڈ اور انڈے ہی بیچو گے. لیکن یہ کام چل نکلا اور اب ہماری کافی ساری شاپس دیگر مصنوعات کیساتھ ساتھ گروسری کی چیزیں بھی فروخت کر رہی ہیں.
ترقی کا ذریعہ:
بلال دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے کاروبار کے مارکیٹ شئیر اور شرح نمو سے واقف نہیں. پاکستان میں بہت سے کاروباروں کی طرح کیمسٹ بھی نجی طور پر کاروبار چلاتے ہیں اس لیے مارکیٹ شئیر، سیلز گروتھ اور منافع کا تعین کرنا مشکل ہے. البتہ اپنے طور پر بلال کے پاس اس کی تفصیلات موجود ہیں.
انہوں نے کہا کہ “اب میرے کاروبار کی شرح نمو 20 فیصد ہے لیکن یہ تعین کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ گروتھ ریٹ صحیح ہے یا محض افراط زر ہے. ہم مارجن پر کام کررہے ہیں اس لیے جب ادویات کی قیمتیں اچانک بڑھتی ہیں تو ہماری طرف سے بھی قیمت بڑھ جاتی ہے لیکن اسی وقت مارجن برائے نام سا ہوتا ہے”.
فرض کریں کہ ڈی واٹسن 20 فیصد مجموعی منافع (gross margin) کماتی ہے اگر کسی چیز کی قیمت ایک ہزار روپے سے بڑھ کر 1500 روپے ہو جائے تو اسی 20 فیصد مارجن پر ڈی واٹسن کو 200 سے 300 روپے بچیں گے. دوسری طرف مہنگائی کی صورت میں بعض چیزوں کی طلب بھی کم ہو جاتی ہے. تو آپ کو درست طور پر یہ بتانا ممکن نہیںکہ میں کس قدر ترقی کر رہا ہوں.
یہ اصل میں ناممکن نہیں ہے، بس بلال نے مجموعی منافع اور آمدنی کو آپس میں مبہم کر دیا ہے، اگر کسی کے پاس اپنی سیلز کے حجم کا سارا ریکارڈ ہو تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں رہے گا کہ کتنی آمدنی قیمتیں بڑھنے سے ہوئی، اور کتنی چیزوں کو دیگر مصنوعات کیساتھ ملا کر فروخت کرنے سے ہوئی.
شاید بلال تفصیلات شیئر کرنا ہی نہ چاہتے ہیں اور ابہام کا بہانہ کردیا ہو.
ریگولیٹری چیلنجز:
ریٹیل فارمیسی میں ریلگولیٹری کے بہت سے مسائل ہیں، جن میں سے سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش رہتا ہے کہ ڈاکٹری نسخہ کے مطابق ادویات بیچیں یا نا بیچیں کیونکہ خاص طور پر کچھ ادویات بطور نشہ آور استعمال ہوتی ہیں.
بلال بختاوری نے کہا کہ ماحول آہستہ آہسہ بدل رہا ہے، نسخہ جات کا کلچر فروغ پا رہا ہے. لیکن قانونی تفصیلات اب بھی بڑا مسئلہ ہے. یہ صرف ایک کمپنی یا فارمیسی کی جانب سے حل نہیں ہو سکتا اور نا ہی صرف کیمسٹ اسے حل کر سکتے ہیں، اس میں دیگر کئی سٹیک ہولڈرز شامل ہیں، کئی ڈاکٹر نسخے باقاعدگی سے نہیں دیتے کیونکہ بسا اوقات میں نے یہ سنا ہے کہ مریض کی اگلی اپائونٹمنٹ ڈاکٹر کیساتھ تین ماہ بعد ہے تو ایسی صورت میں آپ مریض سے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ تازہ نسخہ لے کر آئے، اسی طرح نسخہ جات کی تصدیق کا کوئی معیاری طریقہ بھی موجود نہیں ہے.
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ گاہکوں کیساتھ ناانصافی ہے، وہ تیار نہیں ہوتے کہ ان سے نسخہ کا تقاضا کیا جائیگا، اگر کسی مریض کو دوا کی اشد ضرورت ہو اور نسخہ نہ ہونے پر ہم انکار کردیں تو وہ کیا کریگا؟ تو وہ کسی دوسری جگہ سے دوا خریدے گا یا پھر خرید ہی نہیں پائے گا اور ایسی صورت میں یہ ڈاکٹر سے زیادہ فارمیسی کی غلطی بنے گی.
Xanax یا اس قسم کی دوسری ادویات ہم نسخہ دیکھے بغیر نہیں دیتے، بہت کم کسیز میں ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایسی کوئی دوا بغیر نسخہ دیکھے دے دیں پھر بھی یہ ایک یا دو گولیوں سے زیادہ نہیں ہوتی یہ بھی تب ہوتا ہے جب ہمارے فارما سسٹس یہ دیکھ لیں کہ دوا کہ واقعی ضرورت ہے.
قانوناََ میں ایک فارماسسٹ رکھنے کا پابند ہوں لیکن میری صرف ایک دوکان پر تین فارماسسٹ کام کرتے ہیں، کسٹمرز کے اطمینان کیلئے اور کسی منشیات کے عادی کو ادویات دینے سے بچنے کیلئے ایسا کیا گیا ہے.
موثر قیمتیں:
حال ہی میں ایک ایسا کیس سامنے آیا جب Xanax کا غلط استعمال کیا گیا، یہ دوا انگزیئٹی کی صورت میں استعمال کی جاتی ہیں، ڈرگ انسپکٹرز ہمارے پاس اور یہاں سے فروخت ہونے والی ایک ایک گولی کی تفصیلات اور نسخہ جات طلب کیے. یہ پورے سال کا ڈیٹا تھا. ہمارے پاس صرف چار گولیوں کا ریکارڈ نہیں تھا جبکہ باقی سارا ریکارڈ موجود تھا، لیکن یہ چار گولیاں شائد اس وقت دی گئی ہوں جب فارماسسٹ نے دیکھا ہو کہ مریض شدید تکلیف میں ہے اور نسخہ اس کے پاس موجود نہیں. بصورت دیگر ڈاکٹر اور فارماسسٹ کو ایک پیج پر ہونے کی ضرورت ہے، میں ڈاکٹروں کو الزام نہیں دے رہا لیکن یہ ایسی بات ہے جو ہر جگہ قبول کر لی جاتی ہے.
مانیٹری کوسٹ ہر دکان کی آمدنی پر دو سے تین فیصد اثرانداز ہوتی رہتی ہے، جن ادویات کی مدت معیاد ختم ہو جائے یا ختم ہونے کے قریب ہو وہ واپس کردی جاتی ہیں، دیگر چیزیں ضائع کردی یا جلا دی جاتی ہیں، ہمیں یقین نہیں ہوتا کہ مینوفیکچرر ہماری واپس کی گئی مصنوعات بدل کر ہمیں ہی یا کسی دوسرے کو فروخت نہیں کریں گے اس لیے ہم ضائع کر دیتے ہیں.
کچھ مصنوعات جیسے پرفیومز، کریمیں یا لوشنز واپس لینا بنانے والے کی ذمہ داری نہیںہوتی اور اگر وہ ایسا کریں تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے.
بلال کی جی 9 مرکز والی شاپ میں گروسری رکھنے کی مزید جگہ نہیں کیونکہ اس دکان میں پہلے ہی کاسمیٹکس، کپڑے، ہنڈ بیگز سمیت ہر وہ چیز ملتی ہے جو دیگر آئوٹ لیٹس پر دستیاب ہے. اس کے علاوہ بلال بختاوری کا گروسری بڑھانے کا کوئی منصوبہ نہیں اس کی بجائے وہ فارماسیوٹیکل بزنس کیساتھ aesthetic clinic چلانے کے خواہاں ہیں، انہوں نے بتایا کہ ان کی بیوی ڈاکٹر ثانیہ وجاہت ڈرماٹالوجسٹ ہیں اور حال ہی میں کوئین میری یونیورسٹی لندن سے ماسٹرز ان استھیٹکس کی ڈگری لی ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ کلینک مستقبل کی ضرورت ہیں، تو یہ چیز میں کاروبار میں شامل کرنا چاہتا ہوں اور اس پر کام پہلے ہی شروع کر چکا ہوں، اس میں لیزر مشینز، وائٹننگ، وزن کم کرنے اور بوٹوکس سمیت تمام سہولتیں ہونگی.