مصدق ذوالقرنین جرابیں بیچ کر ارب پتی کیسے بن گئے؟

1233

1992ء میں ‌دو بھائیوں مصدق ذوالقرنین اور نوید فاضل نے اپنے ایک دوست طارق اقبال خان کے ساتھ مل کر فیصل آباد میں ہوزری بنانے والی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ پیشہ کے اعتبار سے انجینئر مصدق ذوالقرنین ان دنوں سوئی نادرن میں‌ ملازمت کر رہے تھے اور نوید فاضل جو برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجوایشن مکمل کرکے پاکستان میں مناسب کی تلاش کر رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کے ایک دوست طارق اقبال نے انہیں ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ میں نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں بتایا اور انہیں مشورہ دیا کہ اس ٹیکنالوجی کو پاکستان میں متعارف کروایا جائے اور ایک ہوزری بنانے والی کمپنی کا آغاز کیا جائے۔
انٹرلوپ لمیٹڈ کے چیئرمین مصدق ذوالقرنین نے پرافٹ/منافع سے بات کرتے ہوئے کہا “اس وقت ہماری شہر میں کافی جائیداد تھی جو کمرشل بن گئی۔ ہم نے اس کا کچھ حصہ فروخت کیا اور پیسہ اس کمپنی میں لگا دیا۔”
ایک کروڑ روپے سے کچھ کم کی لاگت سے اٹلی سے 10 کمپیوٹرائزڈ جرابیں بُننے کی مشینیں درآمد کر کے انٹرلوپ نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ مصدق ذوالقرنین نے کہا ’’اس وقت اس کمپنی کا مارکیٹ میں حصہ 26 سال پہلے شروعات کی نسبت 4300 گنا زیادہ ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پچھلے 26 سال سے پاکستانی روپے کے حساب سے سالانہ اوسطاً 36.7 فیصد یا امریکی ڈالر کے حساب سے اوسطاً 28.5 فیصد منافع حاصل ہوا۔

بلندی کا سفر
اس وقت کمپنی کی مارکیٹ ویلیو 40 ارب روپے کے قریب ہے اور 30 جون 2018ء مالی سال میں اس کی آمدن 31.1 ارب روپے تھی۔ یہ کمپنی نائیکی، ایڈیڈاز ، پوما اور ان جیسے دیگر بڑے عالمی برانڈز کو ہوزری مصنوعات فراہم کرتی ہے۔ شروعاتی دور میں زیادہ تر کاروبار متاثرکن مارکیٹنگ اور صارف تک رسائی کی حکمت عملی اختیار کرتے تھے تاہم انٹرلوپ کی قسمت اچھی تھی کہ صارف خود ان کے دروازے پر پہنچ گئے۔
بہت کم ایسی کمپنیاں ہوتی ہیں جہاں صارف خود پہنچ جاتے ہیں۔ 90ء کی دہائی میں اٹلی کی جن کمپنیوں نے انٹرلوپ کو مشینیں بنا کر فروخت کیں تھی ان کمپنیوں کے ایجنٹس پاکستان میں‌موجود تھے جو مشینوں کی مارکیٹنگ کے ذمہ دار تھے اور صارف کو ان کمپنیوں تک لے کر آتے تھے جنہوں نے پہلے سے مشینیں خرید رکھیں تھیں۔ اس کے بعد ان ایجنٹس کی ذریعے مصدق ذوالقرنین کی ملاقات ایک فرانسیسی صارف سے ہوئی۔
یہ وہ دور ہے جب کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ متعارف ہی ہوا تھا اور پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اس سے آشنا نہیں تھی اور مصدق ذوالقرنین کا مشینوں کی طرف رحجان نے انٹرلوپ کی بھی خوب مدد کی۔ ’’میں آواری ہوٹل میں اس شخص سے ملنے پہنچا۔ میں نے اس کے اخراجات اور نمونے دکھانے کیلئے اپنا لیپ ٹاپ کھولا۔ اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری اتنی جدت پسند نہیں تھی اور کمپیوٹرز کا استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ اس سے اس شخص پر انٹرلوپ کی جانب سے مثبت اثرات پڑے۔‘‘ بعد ازاں وہ شخص انٹرلوپ کیلئے دو نئے صارف لایا جن میں سے ایک کا تعلق کوریا اور دوسرے کا فرانس سے ہی تھا۔

مصدق ذوالقرنین نے کہا ’’10 یا 12 سال قبل ہمیں‌ بالکل اندازہ نہیں تھا کہ مارکیٹنگ کیسے کی جائے کیونکہ ہم نے کبھی مارکیٹنگ کی ہی نہیں تھی۔ مارکیٹنگ کی سب سے بڑی کوشش ہمیں تب کرنی پڑی جب ہم نے بڑے پیمانے پر ریٹیلرز کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے کیلئے اپنا کاروبار امریکا تک پھیلا لیا۔‘‘ امریکا میں انٹرلوپ کی نیو جرسی میں مقیم ایک امپورٹر سے شراکت داری تھی جس نے کمپنی کو وہاں قدم جمانے میں مدد دی۔
2009ء میں کمپنی نے نیدرلینڈ میں واقع یوروسوکس پلس نامی ایک ادارے سے شراکت داری کی جو اپنے کلائنٹس یورپ میں مارکیٹینگ کیلئے معلومات، ڈیزائن، فروخت اور تقسیم کی سہولیات فراہم کرتی تھی۔ چند سالوں میں کمپنی نے بنگلہ دیش اور سری لنکا میں اپنی مصنوعات تیار کرنے کا آغاز کر دیا تاکہ اپنی برآمدی مارکیٹ میں اضافہ کیا جا سکے اور پاکستان میں پرنٹنگ اور دودھ کا کاروبار بھی شروع کر دیا۔
اس وقت انٹرلوپ کے پاس 5 ہزار سے زائد اٹلی کی مشینیں، 15 ہزار سے زائد ملازمین کا 3 بڑے براعظموں پر مشتمل ایک تنظیمی نیٹ ورک ہے۔
مصدق ذوالقرنین کا کہنا ہے ’’تاہم ابھی تک زیادہ تر سرمایہ کاری ہم پاکستان میں ہی کرتے ہیں۔ سری لنکا میں ہمارے پاس صرف 2 سو سے 3 سو مشینیں ہیں۔پاکستان میں ہم ایک ہزار 2 سو مزید مشینوں کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ہماری اس مٹی سے محبت کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘
مارچ 2019ء میں انٹرلوپ پاکستان میں اپنے 12.5 فیصد حصص پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں فروخت کر کے عوامی کمپنی بن گئی۔ جن کی مالیت 5 کھرب روپے سے زائد تھی۔ یہ ملک میں پہلی مرتبہ نجی شعبے کی جانب سے کی جانے والی اتنی بڑی سرمایہ کاری تھی۔

عوام دوست رحجان
جب 1962ء میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی ناسا کے اسپیس سنٹر کے دورہ پر تھے ان کی نظر ایک صفائی کرنے والے پر پڑی جس کے ہاتھ میں جھاڑو تھی۔ امریکی صدر خود چل کر اس شخص کی طرف گئے اس سے اپنا تعارف کروایا اور پوچھا ’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
زیادہ تر لوگوں کیلئے وہ صفائی کرنے والا اپنی روزمرہ کی ڈیوٹی کر رہا تھا۔ تاہم اس صفائی کرنے والے کے جواب نے ثابت کیا معمولی کام کرنے کے پیچھے ایک عظیم مقصد بھی ہو سکتا ہے۔
صفائی کرنے والے نے جواب دیا ’’میں انسان کو چاند پر پہنچانے میں مدد کر رہا ہوں۔‘‘
مصدق ذوالقرنین کے مطابق انٹرلوپ اسی فلاسفی پر عمل پیرا ہے۔ ’’ہم ایک ڈکشنری کا مطالعہ کر رہے تھے تو ہمیں پتہ چلا کہ بُننے کا اصل مطلب سوت کا پھندہ یعنی انٹرلوپ بنانا ہے تو ہم نے اس کمپنی کا نام انٹرلوپ رکھنے کا فیصلہ کیا۔‘‘

تاہم اس مخصوص نام کے انتخاب کی دوسری وجوہات بھی تھیں جن میں سے ایک کمپنی میں‌ کام کرنے والے افراد کے ساتھ بہتر رابطہ رکھنے کا اعادہ بھی تھا۔ انہوں نے کہا ’’اس وقت عموماً اپنے خاندان کے نام پر کمپنیوں کا نام رکھنے رحجان تھا۔ لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ہم چاہتے تھے کہ ہماری کمپنی میں کام کرنے والا ہر شخص اس کمپنی کا حصہ ہو۔‘‘
اس طرح انٹرلوپ تقریباً ایک کروڑ روپے یا 3 لاکھ 48 ہزار امریکی ڈالر سے شروع کی گئی ایک ایسی کمپنی بن گئی جس کی اب مالیت 40 ارب روپے یا 300 ملین ڈالر کے قریب ہے۔ جس کی کارکردگی اور لوگوں پر خصوصی نظر میں اضافہ ہو رہا ہے جو اس کمپنی کی بنیادی حکمت عملی ہے۔ مصدق ذوالقرنین نے کہا ’’ہم نے بہترین مشینیں خریدیں۔ ہم نے فضول اخراجات نہیں کئے۔ پہلے 4 سے 5 سال مشکل تھے لیکن ہم نے پہلے دن سے ہی کوشش کی کہ ہم پڑھے لکھے نوجوانوں کو اس میں شامل کریں اور انہیں تربیت دیں اور انہیں‌ وہ کرنے دیں‌ جو وہ چاہتے ہیں۔‘‘
حال ہی میں کمپنی پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں عوامی کمپنی بن گئی لیکن مصدق ذوالقرنین نے کچھ عرصہ پہلے اس کمپنی کو ان لسٹڈ عوامی کمپنی بنا دیا تھا۔ ’’یہ پہلے ایک پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی تھی ہم نے زیادہ پابندیاں لاگو کرنے اور بہتر انتظامیہ بننے کیلئے یہ قدم اٹھایا۔ ایک وقت ایسا تھا جب میرے اور میرے بھائی کے علاوہ ہمارے خاندان کا کوئی فرد بھی اعلیٰ بورڈ کا رکن نہیں تھا۔ کچھ اپنے میدان کے منجھے ہوئے کھلاڑی تھے اور زیادہ تر ایسے لوگ تھے جنہوں نے یہیں سے کام کا آغاز کیا اور ترقی کرتے کرتے اعلیٰ بورڈ رکن کے منصب تک پہنچ گئے۔‘‘
2011ء میں انٹرلوپ نے پلانٹ کی حدود میں ایک نئی ثقافت کا اطلاق کیا اور تمام پلانٹ منیجرز کو اپیریل انوویشن اینڈ ٹریننگ سینٹر (اے آئی ٹی سی) سری لنکا میں تربیت دی گئی۔ 2014ء میں مشینوں کی کارکردگی بڑھانے اور ضیاع کو کم کرنے کیلئے ٹویوٹا پروڈکشن سسٹم (ٹی پی ایس) متعارف کروایا گیا۔ جس کے نتیجے میں ضیاع اور وقت کی لاگت میں کمی آئی، نئی مصنوعات زیادہ فروخت ہوئی، مصنوعات کا معیار بہتر ہوا اور اندازاً 2 لاکھ مربع فٹ کی جگہ خالی کر کے دیگر معمولات میں استعمال کی گئی۔ 2017ء میں کمپنی نے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جسے “انٹرلوپ وے” کہا گیا۔ اس طریقہ کار میں معیار اور اچھی اقدار سے مینوفیکچرنگ اور عوام کو مرکز توجہ بنایا گیا۔

انٹرلوپ نے ٹویوٹا کے پرانے ملازمین کو نوکریاں دیں تاکہ کمپنی زیادہ مستحکم ہو سکے۔ مصدق ذوالقرنین نے کہا ’’ہمارے ہاں لوگوں کا خیال ہے کہ استحکام ماحول اور بہتر مالی معاملات کی بدولت ہی ممکن ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ استحکام ایک مرکزی خیال نہایت وسیع ہے۔‘‘ مصدق ذوالقرنین نے کچھ سال قبل امریکہ کے شہر کینٹکی میں جارج ٹاؤن کے مقام پر ٹویوٹا کے پلانٹ کے دورے کی یاداشت کو تازہ کیا جہاں پلانٹ کا نائب صدر شروعات میں پروڈکشن لائن میں اسمبلر کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دے چکا تھا۔ ’’ٹویوٹا اپنے افراد کو ابتدائی مرحلے سے تربیت دینا شروع کرتا ہے اور انہیں ترقی دیتا ہے۔ یہی ان کی ترقی کی وجہ ہے۔‘‘
’’انٹرلوپ میں ہم بھی ایسا ہی کر رہے ہیں اور ہمارے پاس ایسے کئی ہنرمند افراد موجود ہیں جو قائدانہ صلاحیتیں رکھتے ہیں جنہیں ہم تربیت دے رہے ہیں۔ کسی بھی خالی آسامی کو پر کرنے کیلئے ہمارے پاس وافر ممکنہ آپشنز موجود ہیں۔ اور ان میں سے جو بہترین ہوگا وہ اس آسامی کا حقدار ہوگا پھر چاہے وہ خاندان سے ہو یا خاندان سے باہر سے۔ اور ہر کوئی محنت کرکے بتدریج چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے پر بھی فائز ہو سکتا ہے۔‘‘
فیصل آباد میں جہاں زیادہ تر کاروباروں میں سیٹھ کلچر چلتا ہے وہیں انٹرلوپ کا شمار چند گنی چنی کمپنیوں میں ہوتا جہاں کارپوریٹ کلچر رائج ہے۔ مصدق ذوالقرنین نے کہا ’’جو کام ہم کر رہے ہیں وہ زیادہ بڑا نہیں ہے۔ بس دوسرے لوگ یہ کام نہیں کر رہے۔‘‘ تاہم یہ کمپنی فیصل آباد میں نئے گریجوایٹس کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ انہوں‌ نے کہا ’’ہر سال ہم تقریباً 40 سے 50 نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمتیں دیتے ہیں۔‘‘

دلچسپ امر یہ ہے کہ کمپنی میں میں ملازمین کو جو تنخواہیں‌ دی جاتی ہیں وہ مارکیٹ کے حساب سے بہت بہتر ہیں اور حصہ دار اچھا خاصا منافع کما رہے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں سے گزشتہ سالوں میں کئی مرتبہ اس کمپنی میں‌ سرمایہ کاری ہے۔ مصدق ذوالقرنین نے کہا ’’وہ جانتے ہیں کہ مستقل آمدن سے کمپنی میں پھر سے سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہاں وہ ترقی کر سکتے ہیں اور ان کی نوکریاں محفوظ ہیں۔ جب ملک کی حالت خراب تھی اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں‌ لوگوں کا روزگار چھینا جا رہا تھا انٹرلوپ نے کسی ملازم کو نوکری سے برخاست نہیں کیا۔‘‘
تاہم ایسا بھی ہرگز نہیں‌ کہ انٹرلوپ میں ملنے والی تنخواہیں آسمان سے باتیں کرتی ہوں۔ ایک غیر مانیٹری پالیسی کا اطلاق ان تمام معاملات کی دیکھ ریکھ کرتا ہے۔
انٹرلوپ میں منیجر سیلز اینڈ مرچنڈائزنگ کے عہدے پر فائز سمونہ حسنین 11 سال سے اس کمپنی میں ملازمت کر رہی تھیں پھر انہیں کچھ گھریلو مصروفیات کی بناء پر اس کمپنی کو الوداع کہنا پڑا۔ انہوں نے 3 سال کے وقفے کے بعد کمپنی کے ری کونیکٹ پروگرام کے تحت اسی آسامی کو پھر سے حاصل کر لیا۔ یہ پروگرام خاص طور پر ایسی خواتین کیلئے ہے جو کچھ دیر کے وقفے کے بعد اپنے کیرئیر کا پھر سے آغاز کرنا چاہتی ہیں۔
ایسی خواتین جن کے ہاں 1 سال سے کم عمر بچے ہیں ان کے پاس کام کرنے کیلئے اپنی مرضی کے دن اور اپنی مرضی کے وقت کے انتخاب کی سہولت موجود ہے۔

مصدق ذوالقرنین کا ماننا ہے کہ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ کام کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ان میں سے بہت کم خواتین ایسی ہیں‌جو سگریٹ نوشی کرتی ہیں یا دوسری خواتین سے گپ شپ میں‌مصروف رہتی ہیں۔ زیادہ تر خواتین اپنا کام احسن طریقے سے مکمل کرکے گھر جا کر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنا چاہتی ہیں۔‘‘
انٹرلوپ کے عوامی اہداف 2020ء میں تمام شعبوں میں خواتین کی نمائندگی 10 فیصد تک بڑھانے کا ہدف بھی شامل ہے۔
اسی طرح ملازمین کی شادی کی سالگرہ پر کمپنی کی طرف سے دو افراد کے ڈنر کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
یہ کمپنی ملازمین کیلئے رہائشی اور ٹرانسپورٹ سمیت بہتر اور سستے کھانے کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔ مصدق ذوالقرنین کا کہنا ہے ’’لاہور میں‌ ہمارے پاس رہائشی ہاسٹلز موجود ہیں۔ فیصل آباد میں خواتین ایگزیکٹوز کیلئے کالونی بھی موجود ہے۔ تاہم صرف وہ ملازمین جو دوسرے شہر سے ملازمت کیلئے آئے ہیں رہائشی سہولیات صرف انہی کیلئے ہیں۔ باقی افراد کیلئے دور دراز تک ٹرانسپورٹ کی سہولیات موجود ہیں۔‘‘
’’انٹرلوپ کا میس اپنے ملازمین کیلئے سبسڈائز کھانے کی سہولیات بھی فراہم کرتا ہے۔ کمپنی کے صدر اور نائب صدر کیلئے ہفتے میں‌ کم از کم دو مرتبہ اس میس سے کھانا لازم ہے۔ مزدور بطقہ بھی وہیں سے کھاتا ہے۔ ہر شخص مل کر کھاتا ہے۔‘‘
انٹرلوپ میں مرد و خواتین کیلئے بچوں کی دیکھ بھال کیلئے بین الاقوامی معیار کے کمرے اور تعلیم یافتہ کنڈرگارڈن استاد بھی موجود ہیں۔ مصدق ذوالقرنین کا کہنا ہے ’’یہ صرف بچوں کی دیکھ بھال کیلئے کمرے نہیں‌ بلکہ ایک پری کنڈرگارڈن ہے جہاں 6 ماہ سے 6 سال تک کے بچے آ سکتے ہیں۔‘‘
’’ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنے ملازمین کو بہت زیادہ تنخواہ دیتے ہیں‌۔ لیکن ہم انہیں تمام سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ انہیں عزت اور نوکری کا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔‘‘
انٹرلوپ نے ملازمین سے رابطوں پر 2013ء میں اپنے پہلے اور 2015ء میں اپنے دوسرے سروے کا انعقاد کیا جس کے مطابق ملازمین سے رابطوں کا‌ انڈیکس 64 فیصد رہا جس میں دو سال میں 3 فیصد اضافہ ہوا۔ 2018ء میں کئے جانے والے سروے میں ملازمین کی جانب سے کمپنی پر اعتماد کی شرح 83 فیصد تھی۔
تاہم مصدق ذوالقرنین کا کہنا ہے کہ یہ مالکان کی ذمہ داری ہے کہ ملازمین کو کام کرنے کیلئے بہترین ماحول اور سہولیات فراہم کی جائیں۔ اور مالکان کو ان کی جانب سے بھی معاملات کو بہتر بنانا پڑتا ہے۔ ’’مالک اور ملازمین دونوں کی ضروریات اور ذمہ داریاں ہیں۔ اسے دونوں‌کیلئے یکساں‌ مفید بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘

اس کمپنی کا ایک مربوط اور جامع نظریہ ہے۔ ’’ایک ملازم کے کم پیداواری ہونے کے بہت سے نقصانات ہو سکتے ہیں۔ ہم یہاں لوگوں کو مختلف گروہوں میں بانٹ دیتے ہیں اور انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ مل کر کام کریں اور مخصوص ہدف پورا کر لیں تو انہیں‌ بونس دیا جائے گا۔ ساتھ کام کرنے والوں کا دباؤ بھی انہیں اپنے کام کا احساس دلاتا ہے کیونکہ ملازمین جانتے ہیں کہ اگر وہ غیر پیداواری رہے تو اس سے اس مخصوص گروہ کے سبھی ملازمین متاثر ہوں گے۔‘‘
’’ہماری ایک پالیسی ہے جس کے تحت جو بھی کسی کمرشل وجوہ پر کمپنی چھوڑتا ہے وہ سی ای او کی خصوصی ایماء کے علاوہ دوبارہ یہاں ملازمت نہیں‌کر سکتا۔ چنانچہ لوگ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایک دفعہ یہ کمپنی چھوڑ دی تو یہاں واپس نہیں آ سکتے۔‘‘
اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟
اس وقت کمپنی کی مصنوعات کی فروخت28 کروڑ 36 لاکھ ڈالر ہے اور یہاں سالانہ 60 کروڑ جرابوں کے جوڑے، 2 کروڑ 60 لاکھ کلوگرام سوت اور 45 لاکھ کلوگرام رنگی ہوئی سوت کی پیداوار ہوتی ہے۔
جیسے جیسے عوامی ابتدائی پیشکش بڑھ رہی ہیں انٹرلوپ اپنے ہوزری بنانے کے کاروبار کو وسعت دے کر ملک میں ڈینم مصنوعات بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
2020ء تک انٹرلوپ اپنی فروخت کو 45 کروڑ ڈالر تک لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اپنی سالانہ پیداوار کو 75 کروڑ جرابوں کے جوڑے، 1 کروڑ ڈینم سے تیار کردہ ملبوسات، 1 کروڑ 50 لاکھ کھیل سے جڑے ملبوسات، 3 کروڑ کلوگرام سوت، 65 لاکھ کلوگرام رنگے ہوئے سوت تک لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مصدق ذوالقرنین کا کہنا ہے ’’پاکستان ڈینم کی مصنوعات تیار کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہم پہلے ہی دنیا کے بڑے مینوفیکچررز کی فہرست میں ہونے کے باوجود ہوزری مصنوعات میں بھی اضافہ کر رہے ہیں۔ ڈینم مصنوعات میں روشن مواقع ہیں اور یہ ہماری فروخت پر مثبت اثرات مرتب کرے گی۔‘‘
انہوں نے کہا ’’چینی مصنوعات مہنگی ہوتی جا رہی ہیں اور چائنہ کی مقامی ڈینم کی کھپت بڑھ رہی ہے۔ لوگ اب چین سے نکلنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کا ڈینم کی مارکیٹ میں حصہ محض 3 سے 3۔5 فیصد ہے۔ تو ہم اسے 10 فیصد تک کیوں نہیں بڑھا سکتے۔‘‘

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here