پاکستان تحریک انصاف کی حکومت معاشی محاذ پر خاطر خواہ کامیابیاں نہیں سمیٹ سکی. روپے کی مسلسل گراوٹ درآمدات پر منحصر ملکی معیشت پر اثرانداز ہوئی اور رواں سال فروری میں مہنگائی چار سال کی بلند ترین شرح 8.2 فیصد تک پہنچ گئی ہے.
پاکستان ادارہ برائے شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں ہر سال 7.19 فیصد اضافہ ہوا اور آخری بار 2014ء میں مہنگائی نے 8.2 فیصد کی حد کو چھوا تھا. ایسا دکھائی پڑتا ہے کہ ایک اور ٹیکس ایمنیسٹی سکیم آنے کو ہے. وزیراعظم عمران خان 4 مارچ کو تاجر طبقے کے کچھ ارکان سے ملے تھے اور کسی ممکنہ سکیم کے حوالے سے تجاویز طلب کی تھیں.
کسی نئے ‘فنانشل این آر او’ کی خوبیاں اور خامیاں دیکھنے سے پہلے اور یہ دیکھنے سے پہلے کہ اس سے کیا حاصل ہو سکتا ہے ہمیں پہلے متعارف کرائی جانے والی ایمنیسٹی سکیموں پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے کہ ان سے کتنا ٹیکس اکٹھا کیا جا سکا اور ملکی معیشت پر کیا اثر پڑا.
چلیں ہم یہ تسلیم کرتے ہوئے آغاز کرتے ہیں کہ ایسی سکیمیں ہمیشہ اصل ٹیکس دہندگان کیلئے حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہیں جبکہ ٹیکس چوروں کی حمایت میں ہوتی ہیں. وہ قومی زرمبادلہ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں جب ایسی سکیموں کی غیر موجودگی میں ٹیکس کولیکشن کے حوالے سے ان کا موازنہ کیا جاتا ہے.
پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرپرسن ندیم الحق کہتے ہیں کہ ایک اور ایمنیسٹی سکیم بالکل غیر ضروری ہے. یہ ماضی کا حصہ ہے، حکومت کو اچھی ٹیکس پالیسی بنانی چاہیے. ایمنیسٹی سکیم کا تو ایک ہی مطلب ہوا کہ آپ میں ٹیکس کے حوالے سے پالیسی سازی کی صلاحیت نہیں یا اس کا انتظام نہیں چلا سکتے.
ایمنیسٹی سکیموں کی تاریخ اور ان کی ناکامی:
کوئی شخص یا ادارہ جس نے پہلے ٹیکس ادا نہ کیا ہو ایمنیسٹی سکیم کے دوران وہ ایک مخصوص رقم رضاکارانہ طور پر جمع کروا سکتا ہے اور اس صورت میں وہ کسی قسم کی قانونی کارروائی سے بچ سکتا ہے. اس سے سرکاری محکمہ خزانہ کو ٹیکس سے جمع شدہ پیسہ بڑھانے اور ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنے میں مدد ملتی ہے تاہم ایسی سکیموں سے ٹیکس ادا کرنے والوں کے بدلے ٹیکس چوروں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے.
پاکستان میں سب سے پہلی ٹیکس ایمنیسٹی سکیم 1958 میں متعارف کرائی گئی تھی اور اس کے بعد ایک درجن سے زائد بار متعارف کرائی جا چکی ہے اور ہر حکومت نے یہی کہا کہ اس کی سکیم آخری ہے. ان میں سے بیشتر سکیموں کی تفصیلات حاصل کرنا مشکل ہے غالباََ ان میں سے بہت ساری دستاویزات کے ڈھیروں تلے دب چکی ہوں گی جو شاید کہیں موجود بھی ہیں یا نہیں. مثال کے طور پر 1985ء، 1991ء، 1998ء اور 2012ء میں متعارف کرائی گئی سکیموں کے صرف نام باقی ہیں، ٹیکس کی شرح، فائل کردہ ڈیکلیریشنز یا حاصل شدہ آمدنی سے متعلق تفصیلات کسی کو معلوم نہیں ہیں. ان سکیموں کے حوالے سے سٹیٹ بنک آف پاکستان، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور وزارت خزانہ کے پاس کسی قسم کا ڈیٹا دستیاب نہیں. جن سکیموں کا ڈیٹا دستیاب تھا ان کی تفصیلات ہم نے ذیل میں دی ہیں:
پہلی ایمنیسٹی سکیم ایوب خان کے دور میں 1958ء کے آخر میں متعارف کرائی گئی. اس دوران 71 ہزار ڈیکلیریشنز ہوئیں اور 2 لاکھ 66 ہزار 183 ٹیکس دہندگان ٹیکس کے دائرے میں شامل ہوئے جن سے 1.12 ارب روپے وصولی ہوئی. اس سب کے باوجود 1958-59ء کے مالی سال میں کل جی ڈی پی کا محض 10 فیصد ٹیکس جمع ہو سکا.
‘سیاہ معیشت’ اور ٹیکس نہ دینے والی معیشت (اَن ٹیکسڈ) پاکستان کے معاشی مسائل کا ہمیشہ حصہ رہی ہے تاہم ہر گزرتے دن کے ساتھ مسئلے کی سنگینی بڑھتی جا رہی ہے. پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی نوے کے عشرے کے آخری سالوں میں منعقدہ ایک تحقیق کے مطابق 1987ء میں غیر قانونی معیشت (انڈر گرائونڈ اکانومی) ملکی معیشت کا 4 فیصد تھی تاہم 1997ء میں یہ تقریباََ 40 ہو گئی. مالیاتی اصطلاحات میں 1987ء میں غیر قانونی معیشت (انڈرگرائونڈ اکانومی) 15 ارب ڈالر تھی جو 1997ء میں 1215 ارب ڈالر ہو گئی. 1997ء کی ٹیکس ایمنیسٹی سکیم کے تحت 141 ملین ڈالر جمع ہوئے، ان اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سکیم بے نتیجہ رہی.
سن 2000ء کی ایمنیسٹی سکیم شائد موجودہ حکومت کیلئے زیادہ اہم ہو کیونکہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی مشرف حکومت کی اُس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے. سکیم کے تحت عمران خان نے 1983ء میں خریدا گیا لندن فلیٹ ظاہر کیا تھا، عمران خان کے علاوہ اس سکیم کے تحت تقریباََ 79 ہزار ڈیکلیریشنز ہوئیں جس سے 10 ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہوا. یہاں یہ بات زیادہ دلچسپی کی متقاضی ہے کہ یہی عمران خان 2013ء میں ٹیکس ایمنیسٹی سکیموں کے سب سے بڑے مخالف بن گئے. اوور اب بطور وزیراعظم وہ ایک اور ایمنیسٹی سکیم لانے کا سوچ رہے ہیں. عمران خان اور ان کی جماعت کی پالیسی میں تضاد پر بعد میں روشنی ڈالیں گے.
2013ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے ایک اور ایمنیسٹی سکیم کا اعلان کیا، 1997ء کی سکیم کی مانند اس بار بھی صرف اندرون ملک اثاثوں پر فوکس کرتے ہوئے ایک مخصوص ووٹ بیس کی تشفی کی گئی. یہ سکیم ابتدائی طور پر درآمدی کاروں کے ان مالکان کیلئے تھی جنہوں بغیر ٹیکس ادا کیے بیرون ملک سے کاریں منگوائیں. تب بلیک مارکیٹ کی وجہ سے ملکی معیشت کا اندازاََ 35 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا تھا. تاہم ایمنیسٹی سکیم سے جمع ہونے والا ٹیکس اس رقم کا محض ایک فیصد تھا.
2016ء میں ایک بار پھر معاشرے کے انہی طبقات کیلئے ایمنیسٹی سکیم متعارف کرائی گئی جس کا مقصد چھوٹے کاروباری افراد کیلئے ٹیکس میں چھوٹ اور مالی جرائم میں ملوث مجرموں کو استثنیٰ دینا تھا جوں جوں وہ اپنے مقامی اثاثے قانون کے دائرے میں لیکر آتے. تاہم اس طبقہ نے سکیم سے فائدہ اٹھانے میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی اور بمشکل 10 ہزار ڈیکلیریشنز ہو سکیں اور محض 0.85 ارب روپے ٹیکس جمع ہو سکا.
2018ء کی مستثنیات اور بیرونی عوامل:
اگر جمع شدہ ٹیکس کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ اب کی سب سے کامیاب ترین ٹیکس ایمنیسٹی سکیم ہے جو 2018ء میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں متعارف کرائی گئی، مسلم لیگ ن کی یہ پہلی سکیم تھی جس میں اندرون اور بیرون ملک اثاثوں کو ڈیل کیا گیا، صرف مشرف کی سکیم میں اس سے قبل اندرون ملک اور بیرون ملک اثاثوں کو ظاہر کرنے کا کہا گیا تھا. یہ شائد اس حقیقت کی نشاندہی ہو کہ جو لوگ اپنی باہر کی پراپرٹی پر ٹیکس نہیں دیتے وہ ٹیکس نیٹ آنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں بہ نسبت ان لوگوں کی جو ملک کے اندر جائیدادیں رکھتے ہیں اور ٹیکس سسٹم میں نقائص سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹیکس ادا نہیں کرتے.
8 اپریل 2018ء کو سابق صدر ممنون حسین نے چار آرڈیننس جاری کیے جن کے تحت ایمنیسٹی سکیم جاری کی. اس سکیم کے تحت اندرون و بیرون ملک پوشیدہ اثاثوں کو قانونی کرنے، انکم ٹیکس کی شرح میں کمی، ڈالر کی شکل میں بانڈز کا اجراء، اور نان فائلرز کی بنک ٹرانزیکشنز روکنا شامل تھا.
اس سکیم کے تحت فارن کرنسی اکائونٹس کیلئے دو فیصد ٹیکس کی شرح کی پیشکش کی گئی جبکہ دیگر اثاثہ جات کیلئے یہ شرح 5 فیصد تھی. غیر ملکی اثاثہ جات میں سےغیر منتقلہ جائیداد کیلئے 3 فیصد، ملک میںواپس آنے والے اثآثوں پر ٹیکس 2 فیصد جبکہ واپس نہ آنے والے اثاثوں پر 2 فیصد لگایا گیا.
ایف بی آر کے ابتدائی تخمینے کے مطابق اس سکیم سے تقریباََ 120 ارب روپے مختلف نوعیت میں جمع ہوئے. تاہم ایک چیز جو ہو سکتا ہے اس سکیم کی کامیابی کی ضمانت بنی ہواس کو سمجھنا بھی ضروری ہے. وہ یہ کہ جس وقت اس سکیم کا اعلان کیا گیا اس وقت بیرون ملک غیر ظاہر شدہ اثاثہ جات کا تحفظ کرنا خطرے خالی نہ تھا کیونکہ دنیا بھر کی حکومتیں غیر قانونی اور پوشیدہ اثاثوں اور دولت کو قانونی بنانے کیلئے سرجوڑ رہی تھیں.
پاکستان آرگنائزیشن آف اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی) کے کثیر الجہتی کنونشن کا رکن بن گیا جو ستمبر 2018ء کے بعد بیرون ملک پاکستانیوں کے آفشور فنانشل اکائونٹس کی معلومات فراہم کریگا. اس کا براہ راست اثر ایف بی آر کی صلاحیت بڑھانے پر ہے جو اب او ای سی ڈی کے رکن ممالک میں پاکستانیوں کے آفشور اکائونٹس کی تفصیلات حاصل کر سکتا ہے.
مزید برآں، فارن ایکسچینج کمپنیوں کو انکم ٹیکس آرڈی نینس 2001ء کے مطابق چلانے کیلئے پروٹیکشن آف اکنامک ریفارم ایکٹ 1992ء میں ترمیم کی گئی. ان ترمیمات کے بعد ایف بی آر اب 10 ملین سے زائد کی بیرونی ترسیلات زر کا ذریعہ پوچھ سکتا ہے اور بیرنی اثاثوں اور آمدن کی تحقیقات کیلئے 5 سال کی حد بھی ختم کردی گئی.
پی ٹی آئی حکومت سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
ابھی پی ٹی آئی حکومت کوٹیکس چوروں کیخلاف کریک ڈائون جیسے مشکل کام کا سامنا ہے، محض 1.3 ملین پاکستانی سالانہ ٹیکس گوشوارے بھرتے ہیں اور بہت کم تعداد میں لوگ ٹیکس کی پوری رقم ادا کرتے ہیں، ایف بی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹوٹل ٹیکس کولیکشن کا محض 40 فیصد ٹیکس جمع ہوتا ہے اور اس کا بھی زیادہ تر حصہ 75 قسم کے مخلتف ودہولڈنگ ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے.
آئی ایم ایف نے پاکستان کی بیرونی مالیاتی ضروریات کا تخمینہ حالیہ مالی سال کیلئے 27 ارب ڈالر لگایا ہے. یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرضوں کیساتھ جڑے خطرات سے ملکی معیشت پر دبائو بڑھا رہے ہیں، اس لیے یہ منطقی لگتا ہے تاہم کرنے میں شائد غیر موثر ہو. کیونکہ موجودہ حکومت کسی بھی طرح خزانے میں رقم لانے کیلئے کوشاں ہے. یہاں تک کہ اسے ٹیکس چوروں کو معاف اور ٹیکس دہندگان پر بوجھ بھی ڈالنا پڑے تو کر ستی ہے.
گزشتہ سال جب پی ٹی آئی حزب اختلاف میں تھی تو نواز شریف حکومت کی ٹیکس ایمنیسٹی سکیم کو موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر نے ٹیکس دہندگان کے منہ پر طمانچہ قرار دیا تھا. اب وقت طدل چکا ہے اور اس قسم کی افواہیں گردش میں ہیں کہ ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس اکٹھا کرنے میں کمی پر قابو پانے اور مزید دولت ملک کے اندر لانے کیلئے وزیر اعظم ایمنیسٹی سکیم پر غور کر رہے ہیں. البتہ کسی نئی سکیم کے ثمرات کے حوالے سے محققین اور ماہرین معاشیات کی رائے تقسیم کا شکار ہے.
کاروباری خبروں کے معروف جریدے بزنس ریکارڈر کے کالم نگار اور معاشی ماہر صہیب جمالی کہتے ہیں کہ 2018ء کی سکیم کے وقت عالمی حالات ایسی سکیموں کیلئے سازگار تھے کیونکہ بیرون ملک خفیہ اثاثے رکھنا غیر محفوظ ہوتا جا رہا تھا. انہوں نے کہا کہ حقیقت میں اس ایمنیسٹی سکیم سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کیا جا سکتا تاہم عمران خان اپنے مقصد کے حوالے سے کچھ واضح نہیں کر رہے.
صہیب جمالی نے کہا کہ تین چیزوں پر قابو پائے بغیر اس سکیم سے بالکل تھوڑا سا فائدہ ہو گا:
بزنس کمیونٹی کو ہراساں نہ کرنے کی یقین دہانی، خاص طور پر انہیں جو گزشتہ سکیموںسے فائدہ اٹھا چکے ہیں.
یہ سمجھنا ہو گا کہ سبھی غیرظاہر شدہ اثاثے ہی غیرقانونی آمدن سے نہیں بنے.
جنہوں نے اس سکیم سے فائدہ نہ اٹھایا ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے.
اپنے ایک حالیہ آرٹیکل میں انہوں نے لکھا کہ “اب جبکہ کچھ ٹھیک ہو رہا ہے اور لوگ سمجھ رہے کہ وہ سسٹم کو مزید دھوکا نہیں دے سکتے تو ایسے وقت میں حکومت کو ایک ایمنیسٹی سکیم متعارف کرانی چاہیے. لوگ جانتے ہیں کہ حکومت کچھ نہیں کرسکتی.”
یہاں دو چیزیں قابل ذکر ہیں پہلی یہ کہ 2018ء میں لاہورہائیکورٹ نے 2013ء کی ایمنیسٹی سکیم کو غیر قانونی قرار دیا جس کی وجہ سے بزنس کمیونٹی کے اعتماد کو کافی نقصان پہنچا. اس خوف کے اثرات ابھی تک دیکھے جا سکتے ہیں کہ شہری اپنے اثاثے ظاہر کرنے کو تیار نہیں حالانکہ حکومت باور کروا چکی ہے کہ ایسی سکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی.
دوسری بات یہ کہ 2016ء اور 2018ء کی سکیموں کے بعد نیب کی کارروائیوں کے کوئی قابل ذکر نتائج نہیں نکلے جو ٹیکس چور اور اثاثے چھپانے والوں کیخلاف کی گئیں اور جنہوں نے مذکورہ دونوں سکیموں میں اثاثے ظاہر نہیں کیے. دونوں باتوں کو اکٹھا کرکے دیکھیں تو معلوم پڑتا ہے کہ اب تک ان ایمنیسٹی سکیموں سے ان لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا ہوا ہےجو اثاثے ظاہر کرنا چاہتے تھے لیکن پاکستان اور بیرون ملک قانون کے دائرے سے باہر کام کرنے والوں کیلئے کوئی خوف پیدا نہیں ہوا.
سابق نگران وزیر خزانہ سلمان شاہ اس دعوے سے اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ عالمی صورتحال ایمنیسٹی سکیموں کے لیے ساز گار ہے. لیکن دیگر ماہرین کے برعکس وہ پر امید ہیں کہ ایک اچھی ایمنیسٹی سکیم کی ملک کو اس وقت ضرورت ہے جب کہ بیرونی قرضے بڑھ رہے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر مزید سکڑ رہے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ “ہم ایسی سکیمیں اور ٹیکس کا ظالمانہ نظام نہیں جاری رکھ سکتے جو لوگوں کو قانونی راستہ اختیار کرنے سے متنفر کرتا ہے.”
انہوں نے کہا کہ ورلڈ بنک کے دی سٹولن ایسٹ ریکوری انیشی ایٹو ( ایس ٹی اے آر) کا رکن ہونے کے باوجود بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق پاکستان ابھی تک لوٹی گئی دولت واپس لا سکا نا ہی منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات کرسکا. دنیا بھر میں کالے دھن کیخلاف کریک ڈائون ہو رہا ہے اور ایسے میں اثاثے پاکستان میں منتقل کرنا ایک بہتر آپشن ہے.
پاکستان کی ایمنیسٹی سکیموں کی تاریخ اور موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں حکومت کو چاہیے کہ وہ کم از کم ٹیکس اصلاحات اور ایمنیسٹی سکیم کو ایک ساتھ نافذ کرے، ایسا ممکن نہ ہو تو پہلے اصلاحات کی جائیں اور پھر ایمنیسٹی سکیم متعارف کرائی جائے، فائدہ اٹھانے والوں کو مکمل یقین دہانی کرائی جائے کہ انہیں ہراساں نہیں کیا جائیگا، نیب اور دیگر ادارے ان عناصر کا پیچھا پوری قوت کیساتھ کریں جو اس سکیم سے فائدہ نہ اٹھائیں. ان اقدامات کو بیک وقت نہ کیا تو محدود سی امید ہے کہ مستقل کی ایمنیسٹی سکیم سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوں گے، ٹیکس نیٹ بھی وسیع ہو گا، یا ایف بی آر کی کارکردگی بہتر ہوگی.