1970ء تک پاکستان میں صرف ایک ڈیری پلانٹ تھا جس کی ملکیت ملکو لمیٹڈ کے نام تھی اور مقامی مارکیٹ میں ڈبہ بند دودھ کے بارے میں زیادہ آگہی نہیں تھی. پھر اس پلانٹ کو ڈنمارک کی ٹرنکی ڈیریز کمپنی، سویڈن کی ٹیٹرا پیک کمپنی اور پاکستان کی پیکجز لمیٹڈ کمپنی نے حاصل کر لیا جو اپنے ساتھ پیکنگ کیلئے کم لاگت کا کاغذ لے کر آئے جس کی معیاد 15 روز تھی. یہ دودھ کی مصنوعات کی مارکیٹ میں ایک انقلاب سے کم نہ تھا.
ٹیٹرا پیک 1984ء میں پاکستان میں باضابطہ وجود میں آئی تھی. اس وقت ڈبہ بند مصنوعات کیلئے ملک پیک (نیسلے)، حلیب اور بمبینو ہی نمایاں تھے. لیکن 80ء کی دہائی اس کمپنی کیلئے کافی مشکل ثابت ہوئی کیونکہ صارفین ڈبہ بند دودھ کے تصور کو سمجھ رہے تھے. کچھ سال بعد صارفین اس پر اعتماد کرنے لگے اور نئی مشینری متعارف کروائی گئی جس سے ڈبہ بند دودھ کی مارکیٹ میںاضافہ ہوا. 2000ء میں ڈبہ بند دودھ کی مارکیٹ کافی بہتر ہو گئی اور تب سے اس میں اضافہ چلا آ رہا ہے. آج ٹیٹرا پیک پاکستان کے صارفین میں بڑے خریدار جیسے نیسلے پاکستان، اینگرو، شکرگنج، حلیب اور شیزان بھی شامل ہیں.
2011ء میں ٹیٹرا پیک نے 14 ارب روپے سے زائد کی لاگت سے اپنے کام کو لاہور سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں واقع ایک بڑی فیکٹری میں منتقل کیا جو ملک کا واحد پلانٹ ہے جسے جاپان انسٹیٹیوٹ آف پلانٹ مینٹیننس (جے آئی پی ایم) کی جانب سے بہترین کارکردگی پر ایوارڈ سے نوازا گیا. اس کمپنی کی کامیابی کی کہانی پر نظر ڈالتے ہیں.
جاپانی معیار کا اطلاق
ٹیٹرا پیک پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر جارج مونٹیرو کے مطابق ٹیٹرا پیک واحد غیر جاپانی کمپنی ہے جو جے آئی پی ایم کے دوسرا مرحلے تک پہنچی ہے جس کا مطلب دنیا کا بہترین مقام ہے.
پرافٹ/منافع کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں جارج مونٹیرو نے کہا “لاہور میں واقع ٹیٹرا پیک کی فیکٹری کام کے لحاظ سے ہماری 3 بڑی فیکٹریوں میں شمار ہوتی ہے. لاہور فیکٹری کی کھپت کو اس انداز میں بہتر کیا گیا ہے کہ ٹیٹرا پیک کو دنیا بھر میں اضافی فیکٹریاں لگانے کی ضرورت نہیں ہے. کارکردگی، استعداد، فضلہ اور حادثات سے بچاؤ سمیت دیگر شعبہ ہائے کارکردگی کے حوالے سے لاہور کی فیکٹری سرفہرست ہے.”
ان کا کہنا ہے کہ جاپانی معیار کو لاگو کرتے ہوئے چھوٹی سے بڑی فیکٹری میں تبدیلی کے عمل کو نہایت آسان بنایا گیا. انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا “یہ سارا طریقہ کار ملازمین کی کام سے متعلق سمجھ بوجھ اور خودمختاری کو بہتر بنانے پر منحصر ہے. اس کے پیچھے اصل سوچ یہ ہے کہ ادارے میں نچلے طبقوں کو فیصلہ سازی اور سمجھ بوجھ پر زور دیا جائے. چاہے کوئی چیز کام کرے یا نا کرے لوگوں نے کچھ نہ کچھ کہنا ہوتا ہے. عام طور پر جو شخص آئیڈیا پیش کرتا ہے وہ سب کی یا کم از کم اس پراجیکٹ میں سب کی رہنمائی کرتا ہے. پھر ہر روز ہی حالات میں بدلاؤ آتا ہے اور مسلسل بہتری کا عمل جنم لیتا ہے.”
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس جاپانی طریقہ کار سے ترقی پذیر ممالک میں ٹیٹرا پیک بہت جلدی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں صارفین کی جانب سے کچھ مزاحمت کی جاتی ہے. مونٹیرو نے کہا “پاکستان میں واقع ہماری فیکٹری یورپ کی فیکٹریوں سے کہیں آگے ہے. ترقی پذیر ممالک میں لوگ اس سوچ کو مثبت انداز میںدیکھتے ہیں. وہ اس تبدیلی کو ایک چیلنج سمجھتے ہیں اور ایک ایسا موقع گردانتے ہیں جس سے انہیں سیکھنے اور خود کو قابل بنانے میں مدد ملتی ہے. ہمیں یورپ اور امریکہ جیسے ممالک میں کچھ زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے.”
ٹیٹرا پیک کی پاکستان میں مستحکم تاریخ ہے اور اس کے ساتھ مزید کشادگی سے کمپنی کو اپنے کاروبار کا دائرہ بڑھانے میں حوصلہ افزائی ملی. مونٹیرو نے کہا “ہم پہلے ہی مضبوط بنیادوں کے حامل ہیں اور آبادی اور دودھ کی مارکیٹ کا حجم دیکھا جائے تو اس میں بیشمار مواقع موجود ہیں. ٹیٹرا پیک پہلے ہی پاکستان میں کامیاب کاروبار ہے. تاہم ہم جگہ اور توسیع کے معاملات میں کچھ مبور تھے. پرانا پلانٹ 2011 میں پہلے ہی 30 سال پرانا ہو چکا تھا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ مل کر نیا پلانٹ تیار کیا جائے.”
یہ بھی پڑھیں: دودھ کی مارکیٹ پر قبضے کی جنگ اگلے مرحلے میںداخل
اب یہ کمپنی جاپان انسٹیٹیوٹ آف پلانٹ منیجمنٹ کے معیار پر پورا اترنے کیلئے تیار ہے. منافع سے گفتگو کرتے ہوئے سونیا کیانی جو ٹیٹرا پیک کی جانب سے پاکستان، عرب، مصر، مشرقی افریقہ اور جنوبی افریقہ میں ریجنل کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہیں کا کہنا تھا “اس سال ہم دنیا کے بہترین معیار کے حصول کیلئے تیاری کر رہے ہیں اور امید ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے. ہمیں اس ایوارڈ کی نامزدگی کے لئے مثبت اشارہ ملا ہے.”
مونٹیرو کا کہنا ہے کہ ٹیٹرا پیک نے پاکستان میں توسیع کیلئے نمایاں کامیابیاں سمیٹیں ہیں.
برآمداتی میدان میں درپیش چیلنجز سے نپٹنے کیلئے اب ویتنام میں فیکٹری کا انعقاد کیا جا رہا ہے. انہوں نے کہا “2015 سے 2017 تک حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے برآمدات بری طرح متاثر ہوئی ہیں جس کی وجہ سے دوسرے ٹیکس اور ڈیوٹیز کے ساتھ خام مال کی درآمد میں بڑے پیمانے پر ڈیوٹیز کا نفاذ عمل میں آیا. ٹیٹرا پیک پاکستان کی پیداوار کا تقریباََ ایک تہائی حصہ دنیا بھر میں برآمد کیا جاتا ہے جس میں حال ہی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے. ہماری بڑی برآمدی مارکیٹوں میں سے ایک جنوب مشرقی ایشیا ہے جہاں ویتنام میں ٹیٹرا پیک کی برآمدات میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے. جسے 2020 میں وہ ترک بھی کر سکتے ہیں.” انہوں نے مزید کہا “ہم ویتنام میں ایک فیکٹری تعمیر کر رہے ہیں. اگرچہ اس عمل سے ہماری ویتنام کو برآمدات ختم ہو جائیں گی. ترجیحات بدل چکی ہیں ہم ویتنام میں فیکٹری کا آغاز کرنے کی بجائے پاکستان میں رہتے ہوئے مزید توسیع کر سکتے تھے.”
کھلے دودھ سے مقابلہ
ٹیٹرا پیک اور دیگر ڈیری کمپنیوں کی بڑے پیمانے پر مصنوعات کے باوجود کھلا دودھ مقامی دودھ کی مارکیٹ کا بڑا اور اہم جزو ہے. ایک اندازے کے مطابق ڈبہ بند دودھ مارکیٹ کے حجم کا صرف 8 فیصد ہے جبکہ کھلا دودھ 92 فیصد مارکیٹ پر قابض ہے.
مونٹیرو نے کہا “پاکستان میں عجیب بات یہ ہے کہ یہاں مکمل چکنائی کے ساتھ دودھ کی مانگ زیادہ ہے. پاکستان ایسے چند ممالک میں سے ایک جہاں چکنائی والی خوراک پر زیادہ دھیان دیا جاتا ہے. دنیا بھر میں زیادہ تر خوراک کے حوالے سے بنائے گئے محکمہ جات کم چکنائی کو ترجیح دیتے ہیں. وہ کم بالائی یا بغیر بالائی کے دودھ کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کی زیادہ توجہ وٹامن اور پروٹین والے غذائی عناصر پر ہوتی ہے.”
ان کے مطابق کھلے دودھ کا استعمال صحت کیلئے مضر ہے کیونکہ گائے کے جسم میں ایسے بیکٹیریا ہوتے ہیں جو انسانی جسم کیلئے غیر موزوں ہیں اور یہ بیکٹیریا دودھ میں تب تک رہتے ہیں جب تک اسے کثافتوں سے پاک نہیں کر لیا جاتا. دوسرا یہ کہ تازہ کھلے دودھ کی مدت پاکستان کی آب و ہوا میں محض 2 گھنٹے ہی ہے تو یہ بات ناممکن ہے کہ تازہ دودھ کی صارفین تک ترسیل اسی دورانیے میں ہو. مونٹیرو نے کہا “یہ فارم سے صارفین تک کھلے دودھ کی ترسیل محض 2 گھنٹے میں کیسے کر لیتے ہیں جبکہ زیادہ تر فارمز شہری آبادی سے دور بنائے جاتے ہیں. ان 2 گھنٹوں میں دودھ کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے مختلف اجزاء شامل کرکے دودھ کو ٹھنڈا کر لیا جاتا ہے. زیادہ تر یہ برف ہوتی ہے. تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برف بنانے کیلئے کس قسم کا پانی استعمال کیا جاتا ہے؟ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے حال ہی میں کثیر تعداد میں غیر صحت بخش دودھ کو ضائع کیا ہے.”
کیانی نے مزید کہا “دیہی اور پسماندہ علاقوں میں لوگ روایتی انداز میں گائے سے براہ راست دودھ پیتے ہیں. جو تپ دق (ٹی بی) پھیلنے کا سب سے بڑا محرک ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان دنیا کے ان 7 ممالک میں شامل ہے جہاں تپ دق کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا.” عالمی تنظیم صحت کا کہنا ہے کہ ہر سال پاکستان میں تپ دق کے تقریباََ 5 لاکھ 10 ہزار کیس منظر عام پر عاتے ہیں اور اندازاََ 15 ہزار افراد تپ دق سے بچاؤ کیلئے اقدامات کرتے ہیں.
ڈبہ بند دودھ کی تیاری کے حوالے سے مونٹیرو نے کہا کہ کھلے دودھ کی سپلائی چین کا تعین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس پر کئی نام یا لیبل درج نہیں ہے. “آپ صرف اس شخص پر یقین ہی کر سکتے ہیں جو دودھ آپ تک پہنچاتا ہے. لیکن جو آپ تک دودھ پہنچاتا ہے وہ وہی شخص نہیں ہے جو دودھ دوہتا ہے یا اسے اکٹھا کرتا ہے. اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو اس سپلائی چین میں شامل تمام افراد پر یقین کرنا ہوتا ہے. آپ ایک ایسے سسٹم سے دوچار ہیں جہاں معیار جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں.”
یہ بھی پڑھیں: کیا ’ہمدرد‘ لاکھوں صارفین تک پہنچنے کو کوشش میں کامیاب ہو سکتا ہے؟
دوسری جانب کیانی کا کہنا ہے کہ ڈبہ بند دودھ کی سپلائی چین کا تعین کیا جا سکتا ہے اور صارفین جانتے ہیں کہ اسے پیش کرنے والا کون ہے. “کھلے دودھ کے معاملے میں یہ جانتے بوجھتے کہ فوڈ اتھارٹی نے کثیر تعداد میں ناقص دودھ ضائع کیا. پیداواری ذرائع اور ملاوٹ پھر بھی ایسے ہی رواں ہیں.”
حتیٰ کہ دودھ کی پیداوار اور فروخت کے حوالے سے ضابطے اور معیار پاکستان میں انتہائی مشکل ہیں. دسمبر 2016ء میں 3 خودمختار ادارے پاکستان کونسل آف سائینٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر)، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنس اور یونیوسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد سے کھلے اور ڈبہ بند دودھ کے نمونوں کی جانچ کا کہا گیا. تینوں اداروں نے مختلف نتائج اخذ کئے جو نمونوں کی جانچ اور ان کے نتائج کے مستند ہونے کے حوالے سے ان اداروں کی قابلیت پر ایک سوالیہ نشان ہے.
سپریم کورٹ نے پنجاب فوڈ اتھارٹی سے ان نمونوں کی جانچ کا کہا گیا جنہوں نے دودھ کے کئی بڑے برانڈز کو صارفین کیلئے موزوں قرار دیا. 2017ء میں انہیں صارفین کیلئے صحت بخش قرار دیا گیا لیکن جون 2018ء میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ایک رپورٹ جاری کی جس میںکہا گیا کہ دودھ کے یہ تین برانڈز صحت بخش خوارک کے قوانین پر پورا نہیں اترتے. کیانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا “کئی سالوں سے پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اپنے معیار قائم کئے ہیں اور انہیں مزید سخت بنایا گیا ہے. اب مختلف صوبوں میں مختلف فوڈ اتھارٹیز موجود ہیں اور تمام صوبوں میں معیار ایک سے نہیں ہیں. مثال کے طور پر چکنائی کے عنصر والی مصنوعات میں تغیر ہو سکتا ہے جو اس بات پر منحصر ہے کہ دودھ کہاں سے آیا ہے لیکن یہ انسانی صحت کیلئے نقصان دہ نہیں ہے.”
پنجاب فوڈ اتھارٹی ڈبہ بند دودھ کو ضوابط میں لانے کےقابل رہی ہے لیکن کھلے دودھ کو ضابطوں میں لانے میں اسے تاحال کامیابی نہیں ملی. مونٹیرو نے کہا “یہ ایک مشکل چیلنج ہے. اگر آپ لاہور کی مارکیٹ دیکھیں تو آپ کو غالباً 5 لاکھ گائے کی ضرورت پڑے گی.” مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر فارمز بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور کبھی ایک فارم صرف 2 یا 3 گائے پر مشتمل ہوتا ہے. اگر مونٹیرو کے بتائے ہوئے اعداد و شمار کو مانا جائے تو صرف لاہور میں دودھ کی طلب پوری کرنے کیلئے 1 لاکھ فارمز کا ہونا ضروری ہے. “اگر سپلائی کو چھوڑ کر صرف ڈیری فارمز کی بات کی جائے تو یہ پھر بھی بہت بڑا ٹاسک ہے. اور جب آپ اس کی ترسیل کو بھی شامل کریں تو یہ اور بھی پیچیدہ ہو جاتا ہے. پنجاب فوڈ اتھارٹی کبھی کبھار شہروں کے داخلی راستوں پر کھلے دودھ کے نمونوں اکٹھا کر سکتی ہے لیکن کیا یہ دودھ کی کوالٹی کی گارنٹی ہو سکتی ہے؟”
پاکستانی مارکیٹ کیلئے مزید کیا ہو سکتا ہے؟
پاکستان میں ڈبہ بند دودھ کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن مقامی مارکیٹ میں مصنوعات کی پیشکش کے لحاظ سے دیگر مارکیٹوں کے پیچھے پیچھے رہتا ہے. کیانی کا کہنا ہے “دنیا بھر میں دستیاب مختلف قسم کی اشیاء اور ہمارے ہاں ٹیکنالوجی سے حاصل کی جانے والی اشیاء کا بڑے پیمانے پر موازنہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان پیش کیا کر رہا ہے. مستقبل کیلئے ہمارا مقصد صارفین کیلئے موجودہ پیشکشوں کو وسیع کرنا اور نئی مصنوعات متعارف کروانا ہے.”
مونٹیرو نے کہا “ڈبہ بند دودھ کھلے دودھ کی نسبت زیادہ سہولت فراہم کرتا ہے کیونکہ اسے ٹھنڈا کرنے کیلئے فریج کی ضرورت نہیں پڑتی اور فریج کو کسی اور زیادہ اقدار والی مصنوعات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے.”
پاکستان میں دودھ کی مارکیٹ میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بیچے جانا والا 98 فیصد دودھ چکنائی والا ہے. “ملک میں بکنے والا زیادہ تر ڈبہ بند دودھ بالائی والا ہوتا ہے. بہت کم تعداد میں افراد بغیر بالائی کے دودھ استعمال کرتے ہیں.”
ایک ایسی مصنوعات جو پاکستانی مارکیٹ کیلئے سودمند ثابت ہو سکتی ہے وہ پھیکا دودھ ہے. ٹیٹرا پیک کی ریسرچ کے مطابق 20 سے 30 فیصد عوام میٹھے کے بغیر اشیاء استعال کرتے ہیں. ایک اور ریسرچ سے اندازہ لگایا گیا کہ 60 فیصد عوام میٹھے کے شوقین ہیں. کیانی نے کہا “زیادہ تر افراد کو علم ہے کہ میٹھا ان کیلئے صحت مند نہیں لیکن وہ اس کی وجہ نہیںجانتے. زیادہ تر افراد اس کی تشخیص ہی نہیں کرواتے.”
امریکی اور یورپی مارکیٹوں میں بغیر دودھ کے مصنوعات جیسے سویا یا بادام کا تیل کی مانگ زیادہ ہے اور لوگ بھی سبزیوں کے تیل ملا دودھ استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس میں چکنائی کم ہے اور یہ صحت کیلئے مفید ہے. صرف امریکہ میں دودھ کے متبادل کی مارکیٹ کا حجم 1.98 بلین ڈالر ہے. مونٹیرو کا کہنا ہے “میں پاکستان میں ایسا ہوتا نہیں دیکھ رہا. لیکن مارکیٹ میں بنغیر شوگر کے دودھ کیلئے مواقع موجود ہیں.”
کمپنی کا ایسا بھی خیال ہے کہ دہی اور دوسری مشروب کیلئے مارکیٹ میں جگہ بنائی جائے جو یورپ اور جنوبی ایشیا میں کافی معروف ہے لیکن پاکستانی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہی ہے. کیانی کا کہنا ہے “پاکستان میں دہی سے روایتی طریقے سے تیار کردہ مشروبات جیسے لسی استعمال کیا جاتا ہے. لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر کسی کے چکھنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے اس لئے اس میں معیار قائم کرنا بہت مشکل ہے.”
یہ بھی پڑھیں: فوڈ ڈلیوری مشکل ترین کام، پھر بھی ‘چیتے’ نے اسے کیوں چنا؟