سن 2000ء میں پاکستانی ورکرز کی استعداد کار (لیبر پروڈکٹویٹی) چین اور بھارت سے زیادہ تھی تاہم 2008ء میں چین پاکستان سے آگے نکل گیاجبکہ 2012ء میں بھارت ہم پر سبقت لے گیا. ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ کیوں اور کیسے پیچھے رہ گیا؟ اور یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ ورکرز کی استعداد کار یعنی لیبر پروڈکٹیویٹی دراصل ہے کیا اور یہ کیوں ضروری ہے؟
ماہرین معاشیات لیبر پروڈکٹوٹی کو فی کس اقتصادی پیداوار قرار دیتے ہیں. ریاضی میں اس کا حساب مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کو افرادی قوت کے کل سائز سے تقسیم کرکے لگایا جا سکتا ہے.
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے ڈیٹا کے مطابق 2018ء میں پاکستان کی ورکرز کی استعداد کار کا تخمینہ 15 ہزار 430 ڈالر لگایا گیا اور اس میں سن 2000ء سے لیکر ہر سال اوسطاََ 1.5 فیصد اضافہ دیکھا گیا. اسی مدت کے دوران بھارتی ورکرز کی استعداد کار 18 ہزار 565 ڈالر رہی جو پاکستان سے 20 فیصد زیادہ تھی اور اس میں سن 2000ء سے لیکر سالانہ 5.7 فیصد اضافہ ہوتا رہا. جبکہ 2000ء سے لیکر چینی ملازمین کی استعداد کار 8.8 فیصد بڑھی اور 2018ء میں یہ 29 ہزار 499 ڈالر تھی.
ملازمین کی استعداد کار (لیبر پروڈکٹوٹی) ترقی کے اعشاریوں میں سے ایک ہے. یہ کسی معیشت کے زیر اثر ہر فرد کو متاثر کرتی ہے. ایک زیادہ مستعد معیشت انہی وسائل میں زیادہ خدمات اور مصنوعات فراہم کرنے کے قابل ہوگی یا پھر وسائل کم بھی ہوں گے تو بھی اسی حساب سے مصنوعات اور خدمات فراہم کرنے کے قابل ہوگی. ملازمین کی استعداد کار زیادہ ہوگی تو کاروبار طبقے کیلئے منافع اور ملازمین کیلئے معاوضہ زیادہ ہوگا اور کام کی شرائط بھی بہتر ہوں گی اور حکومت بھی زیادہ ٹیکس کی صورت میں زرمبادلہ پیدا کرسکے گی.
“منافع” نے اس حوالے سے کچھ کاروباری افراد اور ماہرین کے ساتھ گفتگو کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی تمام اقسام کی افرادی قوت میں دیگر ممالک کے مقابلے میں دو بڑی چیزوں کی کمی ہے. مہارت اور کام کرنے کیلئے مضبوط اخلاقیات.
پاکستان میں آجر (مالکان) بحیثیت مجموعی افرادی قوت (ملازمین) کی استعداد کار پر سرمایہ کاری میں بہت تنگ نظر واقع ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں ملازمین کو معاوضہ کم ملتا ہے. نیتجتاََ وہ محنت کم کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مالکان اور ملازمین میں عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے.
اس کے علاوہ پاکستان میں کام کرنے والی کمپنیوں کے تنظیمی ڈھانچوں میں ایسے نقائص موجود ہیں جو نہ صرف انفرادی کاروبار بلکہ ملکی معیشت کی پیداواری صلاحیت بھی کم کرنے کا موجب بنتے ہیں.
اور پھر ایک مسئلہ ‘نامعلوم قسم کی بے روزگاری’ ہے. اس چیز کو کچھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص ملازم تو ہوتا ہے لیکن اس کے کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ دراصل کچھ نہیں کر رہا ہوتا. یہ تب ہوتا ہے جب کسی شخص کو ایک ایسے کاروبار میں ملازم لگا دیا جائے جسے اسکا کوئی قریبی شخص یا خاندان کا کوئی رکن چلا رہا ہو. حالانکہ کسی ملازم کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن پھر بھی اسے رکھ لیا جاتا ہے.
ماہر معاشیات ڈاکٹر ایس اکبر زیدی کہتے ہیں کہ ایسا شخص کاروبار کی پیداواریت (پروڈکٹوٹی) میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہا ہوتا اور اگر اسے نکال بھی دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا. وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا سروسز سیکٹر جی ڈی پی کا 53 فیصد ہے اور اس میں بھی صورتحال کم و بیش یہی ہے. یہاں قابلیت اور نتائج کی بجائے تعلق کی بنیاد پر زیادہ افراد کو روزگار کیلئے رکھا جاتا ہے. ایک اضافی شخص گو کہ کاروبار کو فائدہ نہیں پہنچاتا لیکن اُس کی وجہ سے اوسط پیداواریت ضرور کم ہو جاتی ہے. ڈاکٹر زیدی اس قسم کو نان پروڈکٹو ایمپلائمنٹ (غیر پیداواری ملازمت) قرار دیتے ہیں.
کوئی شخص یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ یہ نسبتاََ غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن پاکستان ادارہ برائے شماریات اسے کنٹری بیوٹنگ فیملی ورکر کا نام دیتا ہے جو پاکستان کی کل افرادی قوت کا 21.4 فیصد یعنی 13.2 ملین افراد ہیں.
مینوفیکچرنگ سیکٹر میں پیداواریت کو ایسے دیکھا جاسکتا ہے کہ کسی چیز کو بنانے کے لیے کتنے افراد کی ضرورت ہے. مثال کے طور پر اگر ایک جگہ پر 20 لوگ ایک پروڈکٹ تیار کر رہے ہیں اور کسی دوسری جگہ پر وہی پروڈکٹ 8 افراد تیار کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ 12 اضافی افراد کو کسی اور کام میں لگایا جا سکتا ہے.
پاکستان میں کاروبار میں عام طور ضرورت سے زیادہ سٹاف رکھنے کا مسئلہ رہتا ہی ہے اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کاروبار بیرون ملک ہے تو وہاں بھی کسی رشتہ دار کو لگا دیا جاتا ہے. اس سے کاروبار غیر ملکی سرمایہ کاروں کے سرمائے سے بھی محروم رہ جاتا ہے.
مشرومز گارمنٹس مینوفیکچرنگ کمپنی کے مالک شہزاد الہٰی ایک پاکستانی ٹیکسٹائل کمپنی کی مثال دیتے ہیں جو اپنا ایک یونٹ فروخت کرنا چاہتی تھی. وہ بتاتے ہیں کہ “چینی اس یونٹ کو خریدنا چاہتے تھے لیکن وہ یونٹ چلانے والے مینجرز کی تعداد دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے. وہ وہی کام کم تعداد میں مینجرز سے لے سکتے تھے اور بالآخر اسی وجہ سے یونٹ نہ بک سکا.”
ڈاکٹر زیدی ایک دوسری مثال سرکاری اداروں کی دیتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ ان اداروں میں افرادی قوت آدھی بھی کم کردیں تو بھی ان کی پیداواری صلاحیت آدھی نہیں ہوگی بلکہ ہوسکتا ہے کہ ان کی استعداد کار بہتر ہو جائے. جب آدھے لوگ نکلیں گے تو باقی کے لوگ زیادہ اچھے نتائج دیں گے.”
مہارت اور تربیت کی کمی:
یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ پاکستانی بزنس مالکان خاص طور پر ایکسپورٹ انڈسٹری اور ٹیکسٹائل وغیرہ سے منسلک لوگ بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی سٹاف کی ٹریننگ اور مہارت کو بہتر بنانے کیلئے خرچا نہیں کیا.
پیداواریت ملازمین کی مہارت کیساتھ مربوط ہے اور مینوفیکچرنگ سیکٹر میں تو یہ چیز خصوصی طور پر اہمیت کی حامل ہے. یہ اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی مشین چلانے میں مہارت رکھتا ہے تو وہ غیر تربیت یافتہ شخص کی نسبت زیادہ مصنوعات پیدا کرے گا. افرادی قوت کی مہارت بڑھانے کیلئے ٹریننگ اور سکل ڈویلپمنٹ پروگرام منعقد کرنے ضروری ہیں تاہم پاکستان یہ خیال بھی ممنوع ہے.
ٹائم مینجمنٹ کی ٹریننگ دینے والی ایک فرم “ٹائم ٹینڈرز” کے سی ای او یامین اللہ احمد کہتے ہیں کہ مطلوبہ تربیت کے بغیر کسی بھی ورکر کو پروڈکشن فلور پر تعینات نہیں کیا جا سکتا. “چین، فلپائن یا یورپ میں ورکرز کے پاس کسی خاص کام میں مہارت کے سرٹیفکیٹ ہوتے ہیں. تاہم اگر آپ پاکستان میں فیکٹریوں کے پروڈکشن فلورز پر جائیں تو کسی ورکر کے پاس ٹریننگ سرٹیفکیٹ نہیں ہوگا. ایک میشن آپریٹر صرف اور صرف تجربے کی بنیاد پر مشین چلاتا ہے. اس چیز کی وجہ سے کافی ساری انڈسٹریز مکمل طور پر بندش کے دہانے پر ہیں کیونکہ ماہر ورکرز ریٹائر ہو رہے ہیں اور نئے آنے والوں کے پاس کام کی ٹریننگ نہیں ہے.
یامین اللہ کے مطابق پاکستانی انڈسٹری مالکان یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اس حد تک ٹیکنالوجی کی تبدیلیاں آ جائیں گی. ان کے پاس طویل المدتی حکمت عملی نہیں تھی، اس لیے کم پیداواریت کیلئے صرف ورکرز کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا. مالکان نے بھی اپنا حصہ بحیثیت جثہ ڈالا ہے. انڈسٹری میں ٹائم مینجمنٹ اور ٹریننگ نہیں دی جاتی. کیونکہ اس پر اخراجات اٹھتے ہیں اور نتائج آپ کے سامنے ہیں.
ٹریننگ کے علاوہ ٹیکنالوجی تک رسائی اور اسے استعمال کرنے کے صلاحیت بھی پیداواریت کے لیے ضروری ہے. ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی میں صرف روایتی کام کیے جا سکتے ہیں. تاہم جب سے دنیا ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے ٹیکنالوجی کی مدد ضروری ہوگئی ہے.
ڈاکٹر ایس اکبر زیدی کہتے ہیں کہ ” ٹیکنالوجی استعمال کرنے کیلئے ورکرز کا پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ پڑھا لکھا شخص ہی بہتر طور پر ٹیکنالوجی استعمال کرسکتا ہے. بصورت دیگر آپ فرسودہ کام کے قابل ہی رہ جاتے ہیں. پاکستان میں آئی فون بنانے پر زیادہ وقت خرچ ہو گا کیونکہ یہاں ٹیکنالوجی اور خواندگی کم ہے، جس جگہ ٹیکنالوجی ترقی یافتہ اور خواندگی زیادہ ہوگی وہاں اسی طرح کی پروڈکٹ بنانے میں کم وقت لگے گا.”
کام کی اخلاقیات کا مسئلہ:
ایک اور مسئلہ کام کیلئے مضبوط اخلاقیات کا نہ ہونا ہے، پاکستان میں طلباء سے کسی مرحلے (سکول کالج) پر بھی کام کی اخلاقیات کا مطالبہ نہیں کیا جاتا، اس کا مطلب مسلسل اور بہت زیادہ محنت نہیں اور نا ہی سال یا سمیسٹر کے آخر میں امتحانات دینا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلباء ہر روز دل لگا کر تندہی کام کریں.
یامین اللہ کے مطابق یہ مسئلہ گھر سے شروع ہوتا ہے کیونکہ والد کے پاس بچوں کے مستقبل سے متعلق کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی. مزید برآں ایسا کوئی طریقہ کار بھی نہیں ہوتا جس سے ان کے بچے کو انفرادی طور پر پروڈکٹو بنایا جاسکے.
سافٹ وئیر فرم ‘مائنڈ بلیز’ کے شریک بانی ساجدون ندیم کے مطابق کام میں اخلاقیات والا مسئلہ صرف کام کی حد تک نہیں ہے بلکہ یہ کسی شخص کے دوسروں کیساتھ رویے میں بھی پایا جاتا ہے. غیر ذمہ داری اور غیر پیشہ ورانہ مہارت والدین کی پیدا کردہ ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے بچپن میں بچے میں ایسی خوبیاں اجاگر ہی نہیں کی ہوتیں. کوئی ورکر ذمہ داری سے کام کیوں نہیں کرتا اس کی سادہ سے وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ غیر ذمہ دارانہ رویہ بچپن سے ہی اس میں پروان چڑھایا جاتا ہے.
تاہم اگر درج بالا دلیل کو مانا جائے تو یہی شخص بیرون ملک جا کر زیادہ ذمہ دار کیسے بن جاتا ہے؟
ڈاکٹر زیدی کے مطابق باہر لوگ نوکری کھونے کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم کوئی اور کام کرلیں گے. اگر آپ نے دوسرے ملک میں نوکری کیلئے پیسہ خرچ کیا ہے تو آپ یقیناََ اپنی نوکری کے بارے میں سنجیدہ ہونگے. ایک دوسری وجہ یہ کہ جب ملازم دوسروں کو سستی سے کام کرتے دیکھتے ہیں تو وہ خود بھی ایسا کرتے ہیں. اگر وہ یہ دیکھیں کہ ہر کوئی تندہی سے کام کر رہا ہے تو وہ بھی سخت محنت کریں گے.
کام چوری اور سستی گو کہ پوری دنیا میں ہوتی ہے لیکن پاکستان میں یہ غیر معمولی طور پر زیادہ ہے. یہ چیز ہمیں آہستہ آہستہ ورثے میں ملتی رہتی ہے. یامین اللہ اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مالکان خود کام چور واقع ہوتے ہیں. ان میں اکثر کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوتے.
ساجدون اس بات سے اختلاف کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کم پیداواریت کی وجہ یہ بھی ہوتی کہ ملازم اپنی نوکری سے مطمئن نہیں ہوتا جو کارپوریٹ کلچر میں سب سے زیادہ ہے اور اخلاقی اقدار کی کمی ہے.
ساجدون کے مطابق یہاں لیبر قوانین مناسب طور پر نافذ نہیں کیے جاتے. مالکان ملازمین سے غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ فریقین میں کشیدگی رہتی ہے اور نتیجہ ملازمین کی برخاستگی کی صورت نکلتا ہے. کمپنیاں مسائل کی جڑ تک پہنچنے کی بجائے اعلیٰ عہدوں پر مینجرز کو بٹھا دیتی ہیں جو محکمانہ سیاست شروع کردیتے ہیں. اگر آپ اپنے ملازمین کا خیال رکھیں گے تو وہ آپکا رکھیں گے لیکن آپ کے ایسا کرنے کے باوجود کوئی ملازم اگر مستعدی سے کام نہیں کر رہا تو وہ اس نوکری کا حقدار ہی نہیں ہے.
یامین کہتے ہیں کہ پاکستان میں معاوضے ظلم کی حد تک کم ہیں، اگر ایک ملازم کے پاس اپنا گھر چلانے کیلئے پیسے نہیں ہیں تو اس سے آپ اچھی پیداواریت کی توقع کیسے کرسکتے ہیں. مالکان نے کافی دولت اکٹھی کی ہے تاہم ملازمین کی تربیت یا مالی حالت سدھارنے کیلئے کبھی خرچ نہیں کیا.
ساجدون کے مطابق اگر درست معاوضہ دیا جائے اور اس کے ساتھ عزت اور قدر کی جائے تو پاکستانی ملازمین بھی دنیا کی برابری کرسکتے ہیں.
تاہم اس قسم کے حالات میں کام کرنے کا منطقی نتیجہ یہ نہیں کہ کوئی ملازم کام کی اخلاقیات کا بھی پاس کرے گا. ڈاکٹر زیدی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ملازمین کو سرکاری نوکری سے نکالے جانے کا خوف ہوتا ہے اس ڈر کی وجہ سے تندہی سے کام نہیں کر سکتے، نجی شعبے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اگر آپ کام نہیں کر رہے تو نکالے جانے کا خطرہ موجود رہتا ہے. تاہم کسی خطرے کے زیر سایہ کام کرنے کا مطلب کام کی اچھی اخلاقیات نہیں.
کام چوری کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟
مائنڈ بلیز کے ساجدون کہتے ہیں کہ خصوصی مانیٹرنگ اور نگرانی کی وجہ سے آن لائن طور پر کام چوری کسی حد تک کم ہوئی ہے. انہوں نے بتایا ایسے سافٹ وئیرز اور ٹولز موجود ہیں جو ملازمین کی نگرانی کیلئے انسٹال کیے جاتے ہیں اس سے پیداواریت میں بھی بہتری آئی ہے.
سافٹ وئیرفرم “سوفٹ پیرامڈ” کے سی ٹی او فاروق خالد نے کہا کہ ان کی کمپنی نے ایسے ٹولز انسٹال کر رکھے ہیں جو نگرانی کرتے ہیں کہ کوئی ملازم کسی کام پر کتنا وقت لگاتا ہے. یہ ٹولز کام کرتے وقت ملازمین کے کمپیوٹر پر سکرین شارٹ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس کام پر کتنا وقت خرچ کیا گیا. ہمارے ملازمین سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز مثلاََ فیس بک وغیرہ تک رسائی رکھتے ہیں تاہم ٹارگٹس اور پروجیکٹس کی تکمیل کے ساتھ سوشل میڈیا استعمال کرنا کوئی مسئلہ نہیں.
“منافع” نے یہ سوال بھی کیا کہ کسی کاروبار کی پیداواریت بڑھانے کیلئے طویل المدتی حکمت عملی کیا ہوسکتی ہے؟
اس کے جواب میں یامین اللہ نے کہا کہ طویل المدتی کاروباری حکمت عملی اس بات کو مدنظر رکھ بنائی جانی چاہیے کہ دنیا آئندہ دس سالوں میں کہاں ہوگی. ایک بات آپ کی حکمت عملی بن جائے تو پھر اس پر عملی کیلئے افرادی قوت لگا دیجئے، انہوں نے زور دیا کہ ہمیشہ نئے لوگوں کو تربیت دینی چاہیے اور انہیں انڈسٹریز میں لگانا چاہیے.
انہوں نے کہا کہ ورکر کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس کی نوکری کس طرح کمپنی کے ویژن سے مطابقت رکھتی ہے اور وہ کس طرح اپنی سے کارکردگی سے اسے بہتر کر سکتا ہے. موجودہ مقابلہ بازی کے رجحان میں کمزور ملازمین کی صلاحیتوں کی اضافے کیلئے ان کی مدد کرنا ضروری ہو گیا ہے.
انفرادی اور تنظیمی سطح پر تجزیہ کاروبار کی مجموعی پیداواریت میں اضافہ کریگا جس کی وجہ سے نتیجاََ ساری معییشت کو فائدہ ہوگا.