گزشتہ سال اپریل تک محض 24 سال کی عمر میں راحیل کئی ممالک کا سفر کرچکا تھا اس کے ہمسائے میں شائد ہی کسی نے اتنی بار باہر کا سفر کیا ہو. راحیل کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ ایک کالج کا طالبعلم ہے تاہم اس میں آن لائن مارکیٹنگ کی بے پناہ صلاحیت ہے، وہ بیرون ممالک کئی سفر کر چکا ہے، اس کے بینک اکائونٹ میں اس کے باپ کے اکائونٹ سے زیادہ رقم موجود ہے اور یہ سب اس نے ایمازون پر ہوڈیز اور ٹی شرٹس فروخت کرکے حاصل کیا ہے.
اگر آپ گوگل پر How to become a seller on Amazon لکھیں تو گوگل فوراََ آپ کو درج ذیل اقدامات کی ایک فہرست پیش کردے گا.
Start an Amazon Account
Choose Your Fulfillment Method
Find A Product
Order and Ship Your Product
Create Your Amazon Listing
Get Paid
اگر اس حوالے سے حیرت ہو رہی ہے کہ ایمازون پاکستان میں آپریٹ کرتی ہے یا نہیں تو گوگل کرلیں، تمام سرچ انجنز کے پہلے صفحے پر سب سے پہلی آپشن کے طور پر دراز ڈاٹ پی کے ظاہر ہوگی.
ایمازون کا تعارف:
ایمازون کی ویب سائٹ پر ایک فہرست دی گئی ہے جس کے مطابق دنیا کے 103 ممالک کے شہری اس پر رجسٹر ہو کر چیزیں فروخت کرسکتے ہیں. اگر آپ کا تعلق فہرست پر موجود 103 ممالک میں سے ہے تو آپ کے پاس ایک مصدقہ فون نمبر اور بین الاقوامی طور پر قابل چارج کریڈٹ کارڈ ہونا چاہیے. اس کے بعد آپ ایمازون پر ایک فروخت کنندہ (seller) کے طور پر رجسٹر ہو سکتے ہیں اور مختلف ممالک میں اپنی پراڈکٹس فروخت کرسکتے ہیں. ایمازون کے 103 ممالک کی فہرست میں سینیگال، بنگلا دیش، سلوواکیہ، یوگنڈا، موزمبیق اور بھارت کا نام تو موجود ہے تاہم اس میں پاکستان کا نام شامل نہیں.
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان کا نام ایمازون کی فہرست میں نہیں ہےتو پھر پاکستانی شہری کمپنی کے ذریعے اپنی پراڈکٹس کیسے بیچ رہے ہیں؟
اسی سوال کی کھوج میں “منافع” نے ایسے افراد سے رابطہ کیا جو پاکستان میں رہتے ہوئے ایمازون پر کاروبار کر رہے ہیں. اس طرح ہماری ملاقات ثاقب اظہر سے ہوئی جو “Enablers” کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں، ثاقب کے بقول انہوں نے یہ کمپنی پاکستانیوں کی مدد بنائی ہے اور یہ پاکستان میں معاشی امکانات سے پردہ اٹھانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے.
ثاقب کی آدھی زندگی برطانیہ میں گزری ہے، انہوںنے وہاں پڑھا، مخلتف کمپنیوں میں ملازم رہے اور کئی کاروبار بھی کیے تاہم آخر کار وطن واپسی کا قصد کیا. اس حوالے ثاقب اظہر کہتے ہیں ” میں نے اپنے لوگوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا، ہم لوگوں میں شعور پیدا کرنے کیلئے پاکستان کے بڑے شہروں میں ٹریننگ سیشنز، سیمینارز اور ورکشاپس کا اہتمام کرتے ہیں اور پھر لوگوں کی پراڈکٹس ایمازون جیسے عالمی پلیٹ فارم پر پیش کرنے کیلئے ان کی مدد کرتے ہیں. یہی ہماری طاقت ہے.”
ثاقب نے کہا کہ وہ صرف ٹرینر ہی نہیں بلکہ کامیاب ایمازون سیلر بھی ہیں اورگزشتہ کئی سال سے یہ کام کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ لوگوں کو اپنا کاروبار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور 5 سے 9 کی شفٹ پر ہی فوکس نہیں کرتے.
اپنی کمپنی کے بارے میں ثاقب اظہر نے بتایا کہ “Enablers” پاکستان میں لوگوں کو ٹریننگ اور مشاورت فراہم کرتی ہے اور ایمازون پر انہیں بزنس شروع کرنے کیلئے مدد دیتی ہے. ایمازون ایک بڑا پلیٹ فارم ہے جہاں ہر سیکنڈ میں 3 چیزیں فروخت ہوتی ہیں اور روزانہ 3.5 ارب ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے. پاکستانیوں کے لیے وہاں کام کرنے کے بڑے مواقع موجود ہیں. ثاقب کے بقول ایمازون پر کاوربار کرنے کیلئے پاکستان میں لوگوں کو زیادہ شعور نہیں ہے.
انٹرویو کے دوران “منافع” نے قانونی مشکلات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی کہ کس طرح پاکستانی شہری قانونی طور پر ایمازون پر پراڈکٹس فروخت کرسکتے ہیں تاہم اس حوالے سے مبہم جواب ملا، ثاقب کی کمپنی کے منعقد کردہ سیمینارز جہاں ‘ہرچیز’ بتائی جاتی ہے وہاں بھی اس بارے میں جواب واضح نہیں تھا.
تاہم اس نقطے کی وضاحت کرتے ہوئے ثاقب اظہر کا کہنا تھا کہ ہر چیز کو ہی کسی نہ کسی طور پر قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سیمینارز میں ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح پاکستان میں اور بیرون ملک (پاکستان میں رہتے ہوئے) اپنے کاروبار قائم کرسکتے ہیں. ہم امریکا اور برطانیہ میں کمپنی رجسٹر کروانے کے خواہشمند اپنے کسٹمرز کو اپنے مصدقہ پارٹنرز کے پاس بھیجتے ہیں.
ایمازون کتنی بڑی کمپنی ہے؟
ایمازون موجودہ دور میں ہر لحاظ سے ای کامرس اور لوجسٹکس کی سب سے بڑی کمپنی ہے. 2018ء کے اختتام تک ایمازون کے ڈلیوری انفرسٹرکچر میں 180 سے زائد وئیرہائوسز، 28 سورٹنگ سینٹرز، 59 لوکل پیکج ڈلیوری سٹیشنز اور 65 ایسے مراکز (پرائم نائو ایکسپریس) ہیں جہاں سے پراڈکٹ صارف کو محض 2 گھنٹے میں حاصل ہوجاتی ہے.
جیف بیزوز نے ایمازون کا آغاز 1994ء میں ایک آن لائن بُک سٹور سے کیا لیکن آج ایپل اور ایلفابیٹ جیسی بڑی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایمازون دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن چکی ہے. یہ آڈیو ویڈیو ڈائون لوڈز، سافٹ وئیر، ویڈیو گیمز، الیکٹرونکس، ملبوسات، فرنیچر، خوراک، جیولری تک فروخت کر رہی اور آج دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی ہے.
مارکیٹ شیئرز، جدت اور مقابلہ بازی کی وجہ سے ایمازون کا شمار ٹیکنالوجی کی چار بڑی کمپنیوں گوگل، ایپل اور فیس بک کے ساتھ ہوتا ہے اور گزشتہ سال ستمبر میں یہ ٹریلین کا نشان عبور کرچکی ہے. کمپنی کا اپنا ایک پبلشنگ ہائوس اور ایک فلم اینڈ ٹیلیویژن سٹوڈیو بھی ہے، کمپنی صارفین کیلئے Kindle ای ریڈرز، ٹیبلٹ اور دنیا کی سب سے بڑی کلائوڈ انفراسٹرکچر سروسز بھی فراہم کرتی ہے. ایمازون نے کچھ ممالک کیلئے علیحدہ ریٹیل ویب سائٹ بنا رکھی ہے اور کچھ ممالک میں پروڈکٹس کی بین الاقوامی شپنگ بھی کرتی ہے. ریونیو کے لحاظ سے ایمازون دنیا کی سب سے بڑی انٹرنیٹ کمپنی اور ملازمین کے حساب سے امریکا کی دوسری بڑی کمپنی ہے.
ایمازون پاکستان کو نظر انداز کرچکی، لیکن پاکستانی اسے نظر انداز نہیں کرتے:
ایمازون کچھ ممالک کے لیے علیحدہ ویب سائٹس رکھتی ہے ان ممالک میں امریکا، یونائٹڈ کنگڈم ایند آئرلینڈ، فرانس، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، سپین، نیدرلینڈز، آسٹریلیا، برازیل، جاپان، چین، بھارت، میکسیکو، سنگاپور اور ترکی شامل ہیں.
تاہم پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں. ایمازون آخر پاکستان کو چیزیں بیچنے کی اجازت کیوں نہیں دیتی؟ جبکہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے کافی بڑا ملک ہے، معاشی طور پر اہمیت رکھتا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے بھی تاریخی مواقع موجود ہیں. تاہم اگر بینکنگ چینلز کی پابندیوں اورخاص طور پر رقم کی اندرون ملک سے بیرون ملک ترسیل کو دیکھا جائے تو کوئی بھی شخص یہ آسانی سے دیکھ سکتا ہے کہ ایمازون پاکستان میں کیوں نہیں آتی. بہرحال جو پاکستانی ان ابتدائی مشکلات پر قابو پا لیتے ہیں انہیں اس کا انعام بھی کافی پرکشش ملتا ہے.
لاہور کے میاں بیوی مصطفیٰ اور مریم علی بیگ بھی ایمازون پر چیزیں فروخت کرنے والی اپنی کمپنی چلاتے ہیں، مریم کی کہانی بھی کچھ جانی پہچانی ہے، انہوں نے برانڈ مینجر کی حیثییت سے 14 سال تک ٹیٹرز پیک، پیکجز، مے فئیر سویٹس اور نو سے پانچ کی نوکری کی جسے وہ وقت کا ضیاع سمجھتی ہیں، اس دوران مریم اپنی زندگی اور کام میں وہ توازن پیدا نہ کرسکیں جس کی وہ خواہشمند رہیں. مریم کہتی ہیں کہ وہ کسی ایسے کام کی تلاش میں تھیں جہاں انہیں وقت کا مسئلہ نہ ہو، جہاں 9 سے 5 کے مقررہ وقت میں کام نہ کرنا پڑے. مریم کو مارکیٹنگ اور پروڈکٹ ڈویلپمنٹ پسند ہے اور اس فیلڈ میں انہوں نے کچھ عرصہ کام بھی کیا جس سے انہیں اپنے مسئلے کا حل یعنی وقت کی قید سے آزادی ملی اور اس کے ساتھ صحیح مالی فوائد بھی حاصل ہوئے. یعنی کہ جو چیز کارپوریٹ کی دنیا میں میسر نہیں تھی وہ حاصل ہوگئی.
اپنا بزنس کرنے کی خواہش اور زندگی میں توازن کیلئے مریم نے مخلتف کام کرتے ہوئے بالآخر ایمازون کو دریافت کرلیا.
ایمازون پر دکانداری
مریم نے ایک پروگرام کے بارے میں بتایا جو وہ اب کر رہی ہیں (پروگرام بھی Enablers کا تجویز کردہ ہے). ایمازون کا ایک پروگرام ہے جسے ایف بی اے ( Fulfillment by Amazon) کہا جاتا ہے جس میں آپ ایمازون کے وئیر ہائوسز میں اپنی پروڈکٹ بھیجتے ہیں جہاں وہ اس کی پیکجنگ اور سٹور کرنے سے لیکر تمام دیگر چیزوں کا خیال رکھتے ہیں اور اپ سے کچھ رقم لیتے ہیں.
ایف بی اے پروگرام سیلرز کو کمپنی کے وئیر ہائوس استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے جہاں سیلر سٹوریج، پیکجنگ، لیبلنگ اور شپنگ کی سہولیات حاصل کرسکتا ہے. جب کوئی سیلر ایمازون کو پراڈکٹ بھیجتا ہے تو کمپنی اس کا خیال رکھتی اور کسٹمرز کو پہنچاتی ہے.
مریم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ایف بی اے پر رجسٹرڈ سیلرز ایمازون وئیرہائوس کو براہ راست بھی اپنی پراڈکٹس بھیج سکتے ہیں. یا ڈسٹری بیوٹرز بھی ایسا کرسکتے ہیں. اگر آپ پاکستان یا فرض کیا چین سے کوئی چیز ایمازون کے وئیرہائوس میں بھیجنا چاہتے ہیں تو پروڈکٹ کی ابتدائی پیکجنگ، شپنگ اور کسٹمز کلئیرنس وغیرہ سب آپ کو ہی برداشت کرنا پڑتی ہے اور جب وہ چیز ایمازون کے وئیر ہائوس میں پہنچ جاتی ہے تو اسے سنبھالنا، لیبل لگانا، سٹورکرنا اور ڈلیور کرنا ان کے ذمے ہوتا ہے، کیونکہ اس کیلئے آپ انہیں ادائیگی کررہے ہیں.
مریم کے شوہر مصطفیٰ نے بتایا کہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے اگر آپ کے پاس بڑی ٹیم نہ ہو، اس صورت میں پیکجنگ اور ڈلیوری کے بارے میں پریشانی کی کوئی بات نہیں.
ایمازون کیساتھ پارٹنر شپ کے بارے میں مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ دراصل وہ آپ کی پروڈکٹ میں 30 فیصد کے شراکت دار بن جاتے ہیں. مثال کے طور پر اگر اپ کی چیز 30 ڈالر میں بکے تو 10 ڈالر ایمازون کو جائیں گے، وہ یہ بات بھی یقینی بناتے ہیں کہ آپکی پروڈکٹ سب سے زیادہ پسند کی جانے والی بن جائے جس کا مطلب ہو گا کہ یہ دو دن ڈلیور کی جانے والی چیزوں میں جگہ پا چکی ہے. جس کے بعد اسے سٹوریج کے حوالے کردیا جائے گا اور اگر کسٹمر کو سروس سے متعلق کوئی مسئلہ ہوا تو ایمازون کی ٹیم اسے اسی طرح حوالے کردے گی. یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کوئی چیز واپس کرنا چاہتا ہو تو ایمازون وہ بھی کریگی اور ہوسکتا ہے اس کیلئے سیلر سے کچھ نہ کچھ چارج کرے.
صحیح پروڈکٹ کا انتخاب:
ایمازون پر کام کرنے والے بہت سے سیلرز سے گفتگو کے بات ‘منافع’ نے یہ نتیجہ اخد کیا کہ یہ کام کرنے کیلئے سب سے ضروری چیز پراڈکٹ ہے کہ اپ کس طرح کی پراڈکٹ ایمازون پر فروخت کرنا چاہ رہے ہیں. ایک سیلر کنیل بھٹی نے بتایا کہ وہ گزشتہ کئی سال سے پالتو جانوروں کے استعمال کی اشیاء جیسا کہ کتے کے تولیے فروخت کررہے ہیں، اور ٹی شرٹس فروخت کرنے سے یہ تجربہ اچھا رہا ہے، عامر شاہ نے بتایا کہ وہ کیولر جیکٹس بیچتے ہیں، انہوںنے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ وہ بیچیں جو دوسرا کوئی نہ بیچ رہا ہو کیونکہ جب کسی خاص چیز کو بیچنے والوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے تو خریداروں کی تعداد کم ہو جاتی ہے.
ثاقب اظہر نے بتایا کہ اگر کوئی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جرابیں فروخت کرتا ہے تو ان جرابوں کی ایمازون پر بہت زیادہ طلب ہے. ہم ایسی چیزیں بیچجنے کی ترغیب دیتے ہیں کہ جو زیادہ لمبا ورصہ چل سکیں جیسے کچن کا سامان، دفتری سٹیشنری، کپڑے صاف کرنے کی چیزیں، تھری ڈی پین، کھلونے وغیرہ. پاکستان میں یہ تمام چیزیں دستیاب ہیں بس لوگوں کو بیچنے کا طریقہ معلوم نہیں.
ایمازون پر کاروبار کیلئے کتنی سرمایہ کاری چاہیے؟
یہ سوال ہر کوئی پوچھتا ہے کہ ابتدائی طور پر ایمازون پر کام کرنے کیلئے کتنی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی اور کتنے وقت میں منافع ملنا شروع ہوگا. اس حوالے سے ثاقب اظہر نے کہا کہ ہم ٹریننگ سیشنز میں بتاتے ہیں کہ آہستہ اور مسلسل چلنے والا ریس جیت جاتا ہے. ابتدائی طور پر کم از کم 3500 ڈالر سے 5000 ڈالر کی سرمایہ کاری ہونی چاہیے. طاہر ہے اگر آپ زیادہ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں تو آپ زیادہ تیزی سے کمائی کر سکتے ہیں.
تاہم مریم کی رائے اپنے شوہر سے مخلتف ہے وہ کہتی ہیں کہ اس کا انحصار سرمایہ کاری کی بجائے پراڈکٹ پر ہوتا ہے جو آپ فروخت کر رہے ہیں کیونکہ آپ پراڈکٹس 5 ڈالر یا 5 ہزار ڈالر میں فروخت کرسکتے ہیں.
اگر کوئی ای کامرس میں سرمایہ کاری کا سوچ رہا ہے تو اس کے پاس ضرور ایک پلان ہونا چاہیے، ابتدائی طور پر آپ کے پاس رجسٹریشن، لائسنس، پہلی شپ منٹ، کسٹمز ڈیوٹی اور دیگر لوازمات کو پورا کرنے کیلئے مناسب رقم ہونی چاہیے. جبکہ ابتداء میں دو سے تین مارکیٹنگ کمپینز چلانے کیلئے بھی سرمایہ ہونا ضروری ہے.
مارکیٹنگ کا سوال:
ان لائن چیزیں فروخت کرنے والے کسی بھی شخص یا گروپ کیلئے مارکیٹنگ ایک ایسی چیز ہے جس سے کسٹمرز آپ کے اشتہارات، ویب سائٹ، سوشل میڈیا پیج پر کلک کرتے ہیں. اس طرح فروخت کنندہ کو یہ معلوم ہوتا رہتا ہے کہ صارف آپ سے کیا چاہتا ہے اور آپ کی حالیہ مارکیٹنگ مہم کتنی موثر رہی اور مزید کسٹمرز کو اپنی جانب کھنیچنے کیلئے مزید کتنی سرمایہ کاری اور مارکیٹنگ درکار ہوگی.
مریم کہتی ہیں کہ اس کیلئے آپ کو سرچ انجن آپٹمائزیشن (ایس ای او) آنا بہت ضروری ہے، تاکہ آپ اپنے پیج پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لانے کیلئے مناسب کلیدی الفاظ استعمال کرسکیں. آپ کی پراڈکٹ کے پیج کی آپٹمائزیشن نہایت ضروری ہے.
گوگل انالیٹکس کی طرح ایمازون اپنا ڈیٹا فروخت نہیں کرتا، اس کیے کسی کو کلیدی الفاظ یا ٹریفک کا علم نہیں ہوتا. تاہم کچھ کمپنیاں مخلتف نوعیت کے سافٹ وئیرز استعمال کرکے ٹریفک کا پتا چلانے کیلئے کوشاں رہتی ہیں تاہم اکثر وہ اندازوں سے ہی کام چلاتی ہیں.
ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا تجربہ رکھنے والے کسی بھی شخص سے پوچھیں تو وہ فوراََ آپکو اِن بائونڈ مارکیٹنگ کی بنیادی باتیں بتائے گا، ان بائونڈ مارکیٹنگ کی مدد سے کوئی بھی آرگنائزیشن ناصرف مناسب تعداد میں ڈیٹا جمع کرسکتی ہے بلکہ لوگوں کو آن لائن اپنی پراڈکٹس کے بارے میں بتا بھی سکتی ہے اور کسٹمرز کو اپنے پیجز پر بھی لا سکتی ہے.
انسٹا گرام آپ کے پیج پر ٹریفک لانے کا بڑا ذریعہ ہے، چیزیں کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر رکھی جاتی ہیں جہاں سے صارف آپ کے پیج اور آپکی پراڈکٹ تک پہنج جاتا ہے.
مریم کے نزدیک یہ بات بھی اہم ہے کہ آپ یہ یقینی بنائیں کہ جن لوگوں کو آپ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی جانب لائیں وہ پراڈکٹ بھی ضرور خریدیں. مثال کے طور پر یہ بہتر ہوگا کہ 10کسٹمرز آپکے پیج پر آئیں اور ان میں سے 7 لوگ چیز خریدیں بہ نسبت 50 ایسے لوگ پیج پر آئیں جن میں سے صرف 10 لوگ پراڈکٹ خریدیں.
قانونی سوال:
یہ سوال باقی ہے کہ ایمازون پر کام کرنے کیلئے قانونی دشواریوں سے کیسے عہدہ برآ ہونا ممکن ہے؟ اگر آپ کا بنک اکائونٹ، گھر یا دفتر کا پتہ اور فون نمبر پاکستان کا ہے تو آپ ایمازون پر کاروبار رجسٹر نہیں کرسکتے.
مصطفیٰ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ “ہمارہ امریکا کے ایک بنک میں اکائونٹ ہے جس کی وجہ سے ایمازون پر رجسٹریشن ہوسکی، اب ہم اپنی پراڈکٹس امریکا، کینیڈا اور میکسیکو میں بیچ سکتے ہیں.”
تاہم ایسے لوگ جن کا امریکا میں بنک اکاوئنٹ یا ایڈریس نہیں انہیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، کنیل بھٹی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں بیٹھ کر ایمازون کیساتھ بزنس کرنے کیلئے بھی مکمل قانونی واستہ موجود ہے اورہ وہ راستہ یہ ہے کہ آپکی کمپنی اور آن لائن بنک اکائونٹ پاکستان سے باہر رجسٹرڈ ہو جو کہ بالکل قانونی ہے.
ایمازون سے کتنا کمایا جا سکتا ہے؟
جیسا کہ ثاقب نے بتایا کہ ایمازون سے کمائی کی کوئی حد مقرر نہیں، بچوں کے پراڈکٹس فروخت کرنے والا ٹاپ سیلر ماہانہ 80 ہزار ڈالر جبکہ تھرمومیٹرز بیچنے والا 70 ہزار ڈالرز بھی کما رہا ہے، سیالکوٹ کھیلوں کا سامان بنانے میں شہرت رکھتا ہے وہاں سے ایک شخص جو کھیلوں کا سامان ایمازون پر فروخت کر رہا ہے وہ ماہانہ 1.1 ملین ڈالر تک بھی کما رہا ہے.