پاکستان میں ایک بھی ملین ڈالر سافٹ وئیر کمپنی نہیں! لیکن ملئے ایسے شخص سے جو اس تصور کو بدل رہا ہے

عامر وائیں کی کمپنی 'آئی ٹو سی' تیزی سے ملک کی سب سے بڑی سافٹ وئیر ایکسپورٹ کرنے والی کمپنی بن رہی ہے

755

جب آپ عامر وائیں کے فیروز پور روڈ پر واقع دفتر میں داخل ہوں تو وہاں سب سے قابل مشاہدہ چیز یہ ہے کہ دیگر دفاتر کی طرح بہت زیادہ آرائش نظر نہیں‌ آتی. خودپسندی عامر کا شیوہ نہیں. ان کی کمپنی اپنے ملازمین کو کھانا بھی فراہم کرتی ہے تو عامر خود کھانا لینے کیلئے قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں. جب آپ ان کی شخصیت یا بزنس کی بات کرتے ہیں تو یہ خودنمائی سے بالا تر ہیں.

عامر نے یونیورسٹی آف ٹیکساس سے پہلے کپمیوٹر سائنس اور پھر انجنئیرنگ میں گریجوایشن کیا، 1987ء میں انوویٹو پرائیویٹ لمیٹڈ (‌ٰ Innovative Pvt Ltd) کے ساتھ کاروباری دنیا میں قدم رکھا، اس کے کچھ سال بعد Avanceon کے نام کمپنی شروع کی. ان کی تیسری کمپنی i2c ہے جو کہ پاکستان کی بڑی سافٹ وئیر کمپنیوں‌ میں سے ایک ہے. اس کی بنیاد 2001ء میں رکھی گئی اور عامر اب اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او) کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں. اپنے قیام سے لیکر یہ کمپنی عالمی سطح پر ادائیگیوں کے عمل میں دیگر کمپنیوں پر غالب رہی ہے اور خاص طور پر پاکستان سے باہر بھی بہترین کمپنیوں میں شمار کی جاتی ہے.

بزنس ماڈل ساس (SaaS) کا قیام:
سن 1996ء میں عامر کو احساس ہوا کہ بیرونی ذرائع سے حاصل شدہ سافٹ وئیر ڈویلپمنٹ ماڈل خاص طور پر پاکستان کے حساب سے ایک ناکام ماڈل ہے کیونکہ یہاں ہر نئے کلائنٹ کیساتھ پیدا ہونے والا تعلق کاورباری تعلق میں بدل جاتا ہے اور اپنی ذاتی انٹلیکچوئل پراپرٹی بنانے کا موقع نہیں ملتا.
اس کے علاوہ عامر وائیں کے بقول اس کاوربار کی ترقی کیلئے مستقل باصلاحیت افرادی قوت کی ضرورت ہے یعنی ہزاروں کی تعداد میں ماہر ڈیویلپرز اس کاروبار کو مستقل چلانے کیلئے چاہیں. گو کہ پاکستان میں بہت ہی باصلاحیت لوگ موجود ہیں تاہم اس شعبہ میں بہت زیادہ باصلاحیت لوگ نہیں ہیں کہ تسلسل کیساتھ کاوربار چلایا جاسکے.

منافع سے گفتگو کرتے ہوئے i2c کے سی ای او عامر وائیں نے بتایا کہ کہ انہوں نے ایسی سافٹ وئیر پراڈکٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں اپنا ہی آئی پی ڈویلپ کیا جائے اورایک ہی پراڈکٹ کئی صارفین کو فروخت کی جائے. یہ قدم درست سمت میں تھا تاہم اس کے اپنے نقصانات ہیں. سب سے پہلے تو کوئی بھی سافٹ وئیر ہو وہ مخلتف طرح کے ہارڈ وئیر اور ماحول کو سپورٹ کرتا ہو کیونکہ کچھ ایسے صارفین بھی ہوتے ہیں جن کے پاس انٹرنیٹ سروس اچھی نہیں ہوتی. دوسری بات یہ کہ یہ ہر سال لازمی طور پر سکریچ سے شروع ہوتا ہے. فروخت کرنے کے بعد سافٹ وئیر کی مینٹی نینس فیس تھوڑی سی ہوتی ہے اور یہ چیلنج مارکیٹ میں مندی یا ملک میں کسی منفی واقعہ کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے. آپ دیکھ سکتے ہیں اکثر کمپنیاں اچھے وقت میں‌سٹاف بھرتی کرتی ہیں جبکہ برے وقت میں نکال دیتی ہیں.

عامر بتاتے ہیں کہ دراصل پہلے دو بزنس ماڈلز میں پیش آنے والے مخلتف چیلنجز کے نتیجے کے انہوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر i2c بنائی گئی. اورایک ایسا بزنس ماڈل بنانے کی کوشش کی جو مستحکم ہو، انہوں نے SaaS ‌یعنی (Software as s Service) کے ساتھ اشتراک کیا. انہوں نے بتایا کہ اس ماڈل کے تحت ہم کسی ایک کسٹمر کیلئے سافٹ وئیر نہیں بناتے نا ہی پیکجڈ سافٹ وئیر بیچتے ہیں جو مخلتف طرح کے ماحول کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو. اس کی بجائے ہم ایسا سافٹ وئیر تیار کرتے ہیں جو صرف ہمارے اپنے ڈیٹا سینٹرز پرچل سکتا ہےکیونکہ یہاں ہم تمام مسائل کو حل کرسکتے ہیں. انہوں نے کہا کہ جاری کنٹریکٹس کی وجہ سے ریونیو زیادہ مستحکم ہو گئے ہیں اور کاوربار کی ترقی ناصرف آرگینک کلائنٹس کی تعداد بڑھنے کیساتھ بڑھی ہے بلکہ نئے آنے والے کلائینٹس کی وجہ سے بھی اس میں اضآفہ ہوا ہے.

انڈسٹری کے نقطہ نگاہ سے عامر فنانشل سروسز میں رہے اور اے ٹی ایم ڈرائیونگ اور کارڈ پراسیسنگ جیسے کام کیے. انہوں نے اپنی کمپنی i2c اس طرز پر بنائی ہے کہ جہاں کمپنیاں اپنی پراڈکٹ ناصرف لانچ کرسکتی ہیں‌ بلکہ اسکی مکمل نگرانی کرسکتی ہیں اور ادائیگیوں کو بڑھا بھی سکتی ہیں اور یہ سب جدید ٹیکنالوجی اور ترقیاتی اصولوں‌ کےحامل ایک ہی پلیٹ فارم پر ممکن ہے.

عامر بتاتے ہیں کہ آج i2c کے بزنس کوقریباََ 2 عشرے ہوچکے ہیں، اس کا آغاز سلیکون ویلی سے ایک کارپوریشن کے طور پر ہوا تھا اور پھر اس میں دو کینیڈین کمپنیاں بھی شامل ہوئیں جس کے بعد عالمی سطح پر اس کے کلائنٹس کی تعداد میں اضافہ ہوا، اب i2c کے کلائنٹس میں متحدہ عرب امارات کا فرسٹ ابوظہبی بنک، کینیڈا کا سی آئی بی سی، امریکا کا کمرشل بنک، آسٹریلیا پوسٹ اور کئی دوسرے ادارے شامل ہیں جو ویزہ، ماسٹر، ڈسکور، امیریکن ایکسپریس یا یونین پے کارڈ استعمال کرتے ہیں.

ایک بہترین کاروبار
خاص طور پر i2c پے منٹس پروسیسنگ اندسٹری کے ساتھ کافی مستحکم طور پر وابستہ ہے جہاں‌کوئی مالیاتی ادارہ … کوئی بنک یا کریڈٹ یونین … اپنے کسٹمرز کو کریڈٹ کارڈز، ڈیبٹ کارڈز یا پری پیڈ کارڈ مہیا کرنا چاہتی ہو تو اسے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پلیٹ فارم i2c مہیا کرتی ہے.

عامر وائیں نے i2c کے بزنس ماڈل کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ معلومات، فراڈ مانیٹرنگ، ٹرانزیکشن پراسیسنگ اور کارڈ ہولڈرز کو خودکار طور پر میسج بھیجنے کے نظام کو i2c سے سپورٹ کیا جاتا ہے. موبائل ایپلی کیشنز بھی کسٹمرز اور ان کے بینکوں کے مابین تعلق کا ایک بڑا ذریعہ بن چکی ہیں. بہت سے بنک ایسی سروسز i2c جیسی کمپنیوں کو آئوٹ سورس کردیتے ہیں. امریکا میں کچھ بڑے بینکوں کو چھوڑ کر تقریباََ تمام بنک ہی یہ چیز آئوٹ سورس کرتے ہیں.

پے منٹس پراسیسنگ اندسٹری عالمی سطح پر بے حد مستحکم اندسٹری ہے اور دنیا بھر میں بمشکل ایک درجن ایسی کمپنیاں آپریٹ کررہی ہیں. بہت زیادہ سکیورٹی، زیادہ ڈیمانڈ، پیچیدہ مطالبات اور سخت قوانین کی وجہ سے اس انڈسٹری میں داخل ہونا بھی مشکل ہے. عامر کے مطابق اگر آپ ایک دفعہ اس میں داخل اور پھر کامیاب ہو جائیں تو یہ بہت وسیع مواقع کی حامل ہے.

انہوںنے بتایا کہ پاکستان میں ابھی تک کیش استعمال کیا جا رہا ہے تاہم کریڈٹ کارڈز اور نان کیش ادائیگی کی دوسری قسمیں بھی زیادہ تر ٹرانزیکشنز کیلئے استعمال ہو رہی ہیں. اس لیے جب بھی کوئی شخص ادائیگی کرتا ہے پروسیسر کو بھی کچھ نہ کچھ ملتا ہے. ہر کلائنٹ سے اچھا خاصا پیسہ مل جاتا ہے اور ہم کئی کئی سال کے معاہدے کرتے ہیں. جیسے جیسے ادائیگیاں چیک اور کیش سے الیکٹرونک شکل میں منتقل ہو رہی ہیں ویسے ہی ہمارا کام رفتار پکڑ رہا ہے. الیکٹرونک ذرائع سے ٹرانزیکشنز کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے دبائو بھی بڑھتا ہے اور عام طور پر جب کوئی صارف پٹرول یا کچھ اور خرید رہا ہو تو بعض اوقات پروسیسنگ نہ ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے. یہ صارف کیلئے برا تجربہ ہوتا ہے اور کمپنی کے کلائنٹس پر بھی اس کا برا اثر ہوتا ہے. اس لیے سسٹم کو 100 فیصد کام کرنا چاہیے. ہم بغیر کسی وقفے کے 10 سال سے کام کر رہے ہیں اسی لیے کلائنٹس کیساتھ تعلق بھی اچھا بن چکا ہے.

عامر کا کہنا تھا کہ اس انڈسٹری میں سکیورٹی بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ ڈیٹا چوری کے واقعات غیر معمولی بات نہیں ہے اور اسی لیے یہ انڈسٹری مشکل سمجھی جاتی ہے. تاہم عامر کیمطابق i2c اس لحاظ سے خوش قسمت ہے اور یہ دنیا چند بہترین کمپنیوں میں سے ایک ہے.

انہوں نے بتایا کہ i2c کے مدمقابل ملٹی بلین ڈالر فرسٹ ڈیٹا کارپوریشن، فیڈیلٹی انفارمیشن سسٹم، ٹی ایس وائے ایس اور فیزرو جیسی بڑی بڑی کمپنیاں‌ہیں لیکن اگر مدمقابل کمپنیاں بڑی ہیں تو عامر نے بڑی مہارت سے i2c تمام کمپنیوں کے مقابلے میں کھڑا کیا ہے.

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمارے حریف بڑے ہیں اور شائد اسی وجہ سے وہ تیز رفتاری سے کام کرنے کے لائق نہیں. ان کے پاس ٹیکنالوجی بھی پرانی ہے اور اکثر مین فریم بیسڈ سسٹمز پر چل رہی ہے. اگر کوئی بڑا بنک کلائنٹ ہو وہ اس کے لیے کچھ چیزیں تبدیل کر لیتے ہیں، امریکا میں 10 ہزار بنک ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان بنکوں میں سے اکثر کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتی گی اور وہ گاہک کی مرضی کے مطابق چلنا چاہتے ہیں. دوسری طرف i2c بہت زیادہ نرمی کا مظاہرہ کرتی ہے اور زیادہ تر چیزیں کلائنٹس کے ہاتھ میں ہوتی ہیں جس سے وہ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی وقت کوئی بھی تبدیلی کرسکتے ہیں. عامر نے بتایا کہ اپنی مثالی اقدار کی وجہ سے ہی i2c ایف آئی ایس کے مقابلے میں آسٹریلیا پوسٹ کو اپنا کلائنٹ بنا سکی.

بلین ڈالر ٹارگٹ
جب پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کا ذکر ہوتا ہے تو تین کمپنیوں کے نام سامنے آتے ہیں، نیٹ سول، سسٹمز لمیٹڈ اور دی ریسورس گروپ. تینوں کمپنیاں عوامی طور پر جانی پہچانی اور نجی کمپنیوں کے مقابلے میں قابل فہم حد تک حصہ رکھتی ہیں. تاہم عامر کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی دیگر آئی ٹی کمپنیوں کی نسبت زیادہ منافع کماتی ہے اور اس کا بزنس گراف اوپر کی جانب جا رہا ہے. اگر آپ آئی ٹو سی کے 2001ء میں آغاز سے لیکر اب تک کا جائزہ لیں تو آپ کو ریونیو اور منافع کا گراف بغیر کسی معمولی سے نقطہ کے اوپر کی جانب جاتا نظر آئے گا.

عامر وائیں کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی بیرون پاکستان بھی سب سے زیادہ منافع کماتی ہے. ہم نیٹ سول، سسٹمز لمیٹڈ اور دی ریسورس گروپ کے نمبرز پر نظر رکھتے ہیں، گزشتہ سال نیٹ سول نے 8 سے 9 ملین ڈالر منافع کمایا. ہمارا سالانہ منافع اس سے کہیں زیادہ ہے. اگرکوئی شخص تصدیق کرنا چاہے تو میں اسے دکھا سکتا ہوں کہ ہماری کمپنی پاکستان میں سب سے زیادہ منافع کماتی ہے. انہوںنے مزید کہا کہ ہماری نظر 2025ء تک اپنا ریونیو ایک ارب ڈالر تک لے جانے پر ہے اور یہ ضرور ہوگا.

سی اسی او آئی ٹو سی نے کہا کہ ہم منصوبے کے تحت چار مختلف قسم کے لیورز پر کام کر رہے ہیں اگر ہم نے موجود ترقی کی رفتار جاری رکھی تو 2025ء تک اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، ہمارا مجموعی منافع 60 فیصد ہے. ایک بلین ڈالر آرگینک سیلز گروتھ ہے. اس ٹارگت کی حساسیت کو سمجھنے کیلئے آئی ٹو سی کے بزنس کو صنعت کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے. عالمی سطح پر پے منٹ انڈسٹری بہت زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے اور پہلے سے اس بزنس میں موجود لوگوں کو کافی زیادہ منافع دے رہی ہے. مکینزے اینڈ کمپنی کی 2017ء میں ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ 2016ء میں عالمی سطح پر بینکنک سیکٹر کے کل ریونیو میں سے اندازاََ پے منٹ انڈسٹری کا حصہ 34 فیصد تھا، جس میں آئندہ پانچ سال کیلئے سالانہ 7 فیصد اوسط گروتھ متوقع ہے اور 2020ء تک یہ 2 ٹریلین ڈالر کی انڈسٹری بن جائےگی. حیرت انگیز طور پر 2017ء میں ایک سال کے دوران 11 فیصد کا اضافہ ہوا اور ایک ہی سال کے دوران ریونیو 1.9 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچا لہٰذا میکنزے نے اندازہ لگایا کہ یہ 2020ء کی بجائے 2018ء میں ہی 2 کھرب ڈالر سے زیادہ ہو جائےگا اور پانچ سال میں 3 کھرب ڈالر ہو جائےگا جس کی وجہ سے یہ انڈسٹری نئے آنے والوں کیلئے بے حد ساز گار بن جائےگی.

عامر امریکی شہر اوماہا میں 30 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک آپریشن سینٹر بنانے کیلئے سرمایہ کاری کا منصوبہ بنارہے ہیں جہاں 350 افراد کو ملازمت دی جاسکے گی. اس حوالے سے انہوںنے بتایا کہ سینٹر کیلئے عمارت خریدی جاچکی ہے اور اس پر کام جاری ہے. اس سرمایہ کاری کیلئے ریاست نبراسکا کے گورنر نے سلیکون ویلی میں جا کر آئی ٹو سی کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا، کینیڈا کے شہر مونٹریا ل میں قابل لوگوں کی وجہ سے ہم نے وہاں آپریشنز سینٹر قائم کرنے کیلئے تین سال قبل اسی قسم کی سرمایہ کاری کی تھی.

اس کے علاوہ عامر نے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں ایک کم از کم سو ملین ڈالر سالانہ کا معاہدہ طے کیا ہے تاہم انہوںنے کلائنٹ کا نام بتانے سے گریز کیا. ان کا کہنا تھا کہ یہ پری پیڈ کارڈ کے شعبہ میں سب سے بڑا پروجیکٹ ہے اور ایک سال کے دوران 38 ارب ڈالر کی پروسیسنگ کی جائےگی.

سٹاک مارکیٹ میں جانے کا کوئی منصوبہ نہیں
گو کہ کمپنی تمام تر ٹارگٹ پورے کر رہی ہے تاہم عامر وائیں نے کہا کہ آئی ٹو سی سٹاک مارکیٹ میں نہیں‌جائےگی. ان کا کہنا تھا ہماری ضرورت سے زیادہ ہمارے پاس سرمایہ موجود ہوتا ہے اور ہم مقروض بالکل بھی نہیں ہیں. اگر ہم کوئی کمپنی لینا چاہیں تو ہم اپنے پیسوں سے لے سکتے ہیں. آئی پی او میں جانا اس لحاظ سے فائدہ مند نظر آتا ہے کہ اگر ہمیں واقعی سرمائے کی ضرورت ہو. اگر آپ کا بزنس ماڈل کمزور ہو اور آپ رقم موجود نہ ہو تو پھر آپ شئیر خریدنے کو ترجیح دیں گے اور ہمارا بزنس ایسا نہیں ہے.

اس سوال کے جواب میں کہ وہ نیا کیا کرنا چاہتے ہیں ، وائیں نے جواب دیا کہ فی الحال وہ اپنے موجودہ کاروبار پر ہی توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں اور اسی میں مزید سرمایہ کاری کریں گے.

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here