دودھ کی مارکیٹ پر قبضے کی جنگ اگلے مرحلے میں‌داخل

اینگرو فوڈز اور نیسلے پاکستان سال ہا سال صارفین کی جیب پر اپنا حق برقرار رکھنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن اصل مشکل تو ابھی آنی ہے۔

2059

ٹی وی پر چلنے والے ایک اشتہار نے پاکستان کی مارکیٹنگ میں ہلچل مچا دی ہے. اینگرو فوڈز کے دودھ کی مصنوعات کے ایک مشہور برانڈ آلپرز کے حوالے سے چلنے والے ایک ٹی وی اشتہار ایک گمنام حریف کی پیکنگ میں دودھ دکھایا گیا ہے. جس میں دودھ کی بند پیکنگ کا پیلا رنگ اتفاقیہ طور پر نیسلے کے نیڈو فورٹی گرو سے کافی ملتا جلتا ہے. اشتہار میں ایک ننھا بچہ دودھ کے پیلے پیکٹ کو دیکھ کر اپنی ماں سے پوچھ رہا ہے کہ “کیا یہ دودھ نہیں‌ ہے؟” جس پر اس کی ماں کہتی ہے کہ “نہیں‌ بلکہ یہ تو تیل ملی سفیدی ہے” اس کے بعد دادی اماں سوال کرتی ہیں “یعنی کہ اتنے سال سے ہم دھوکہ کھا رہے ہیں؟”

گو کہ نیسلے کا نام اشتہار میں کہیں‌ نہیں ہے لیکن کمپنی کو اس بات پر اعتراض ہے کہ ان کی مصنوعات کے بارے میں اس قسم کی باتیں منسوب کی جا رہی ہیں. نیسلے کی اشتہاری کمپنی اوگلوی اینڈ ماتھر نے تصدیق کی ہے کہ نیسلے پاکستان اس اشتہار کو ٹی وی پر نشر ہونے سے روکنے کیلئے اینگرو فوڈز کے خلاف قانونی اقدامات کر چکی ہے. آلپرز کا یہ اشتہار کچھ ٹی وی چینلز پر ابھی بھی نشر کیا جا رہا ہے لیکن اس میں سے بچے کا پیلے پیکٹ والے دودھ کے متعلق سوال حذف کر دیا گیا ہے.

اشتہاری کمپنی کا کہنا ہے کہ “ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ نشر ہونے والے اس اشتہار سے کاروبار کو مارکیٹ اور فروخت کی مد میں کتنا نقصان پہنچا ہے کیونکہ اس اشتہار کو نشر ہوئے ابھی کچھ ہفتے گزرے ہیں.”

ظاہری طور پر یہ دو دیوقامت اداروں کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کہانی ہے جس میں اپنے سے بڑی کمپنی نیسلے پاکستان کے مقابلے میں مارکیٹ میں‌ اپنی جگہ بنانے کیلئے اینگرو فوڈز کے برانڈ منیجرز دونوں مصنوعات کا تقابلی جائزہ اس انداز میں‌ پیش کر رہے ہیں. جبکہ یہ کہانی درحقیقت دو دیوقامت کمپنیز کی مارکیٹ میں جگہ حاصل کرنے کی جنگ ہے جس میں‌ان کا سب سے بڑا حریف ملک بھر میں‌ دودھ کی دکانیں ہیں جو کھلا دودھ فروخت کرتی ہیں.

یہ اشتہار اور اس کے بعد لیا جانے والی قانونی اقدام دودھ کی مارکیٹ کے بڑے میدان جنگ میں ایک معمولی جھگڑے کی حیثیت رکھتا ہے جہاں اینگرو فوڈز اور نیسلے پاکستان حریف کم اور ایک دوسرے کے اتحادی زیادہ ہیں. دونوں کمپنیاں ایک دوسرے سے ڈبہ بند دودھ کی مارکیٹ میں اپنی جگہ کے حصول کیلئے جھگڑ رہے ہیں لیکن دونوں‌ کا مقصد کھلے دودھ کی بجائے ڈبہ بند دودھ کی مارکیٹ کو وسعت دینا ہے.

ڈبہ بند دودھ کی تاریخ

پاکستان میں ڈبہ بند دودھ کی صنعت دودھ کو پیک کرنے سے ہی شروع ہوتی ہے. 1956ء میں وزیر علی گروپ نے سویڈن کی پیکجنگ کی ایک بڑی کمپنی ٹیٹرا پیک کے اشتراک سے “پیکجز لمیٹڈ” نامی ایک پیکجنگ کمپنی کا آغاز کیا. پیکجز جلد ہی پاکستان کی ابتدائی غذائی اجناس کی پیکنگ کرنے والی صنعت کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا.

1976ء میں کمپنی معمولات کے روزمرہ جائزہ کے دوران انتظامیہ کو علم ہوا کہ مشروبات پیک کرنے کی ایک مشین کا استعمال بہت کم ہے. بجائے یہ کہ اس مشین کو اسی طرح‌ رہنے دیا جاتا یا اس مشین کے استعمال سے متعلقہ اجناس کو روک دیا جاتا پیکجز نے مشروبات کی پیکنگ میں‌ سرمایہ کاری شروع کر دی.

اس کے بعد ملک پیک متعارف کروایا گیا. ڈبہ بند دودھ کا ایک ایسا برانڈ جو آج بھی ملک میں سب سے زیادہ مقبول ہے.

ملک پیک لمیٹڈ 1979ء میں‌ بنی اور اس نے اپنی مصنوعات سازی کا کام 1981ء میں‌ شروع کیا. 1984 تک اس کمپنی نے اپنا دائرہ کار پھلوں سے تیار کردد مشروبات تک وسیع کر لیا. اور پیکجز لمیٹڈ کے تحت “فروسٹ” کے نام سے مختلف مشروبات تیار کئے. اگلے سال ملک پیک نے مکھن اور اس سے اگلے سال بالائی سے بنی ڈبہ بند مصنوعات متعارف کروائی.

1988ء میں سوئٹزر لینڈ کی غذائی اجناس کی ایک کثیرالملکی کمپنی “نیسلے” نے ملک پیک کے زیادہ حصص حاصل کر لئے اور اسے نیسلے ملک پیک لمیٹڈ کا نام دیا گیا. نیسلے کے بعد پاکستان میں ڈبہ بند غذائی اجناس کی مارکیٹ کے وسائل میں‌ سرمایہ کاری اور تکنیکی مہارتوں میں نمایاں اضافہ ہوا. جس کے باعث پاکستان میں کھلی مصنوعات کی نسبت ڈبہ بند مصنوعات کی مانگ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا.

1990ء سے 2000ء کے شروع کے عرصے میں پیکجز لمیٹڈ نے نیسلے ملک پیک کے اشتراک سے ٹیلیویژن پر بڑے پیمانے پر معلوماتی اشتہارات نشر کئے (اس وقت ملک میں صرف 2 حکومتی نشریاتی ادارے ہی کام کر رہے تھے) تاکہ پاکستان کے متوسط طبقے کے صارفین کو کھلی اجناس کے مقابلے میں ڈبہ بند غذائی اجناس کے حفاظتی پہلوؤں سے آگاہ کیا جائے. حکمت عملی واضح تھی کہ اگر لوگوں کو علم ہوجائے کہ کھلی غذائی اجناس کے مقابلے میں ڈبہ بند اجناس زیادہ بہتر ہیں تو تمام ڈبہ بند مصنوعات تیار کرنے والے ادارے ترقی کریں گے.

یہ کوشش انفرادی طور پر ایک برانڈ کی تشہیر نہ تھی (اگرچہ کچھ کچھ ایسا ہی تھا) بلکہ اس کا مقصد ہر قسم کی ڈبہ بند مصنوعات کے بارے میں‌ صحت کی زیادہ حفاظت کی رائے کو قائم اور مضبوط کرنا تھا.

ساری پیشرفت کے باوجود بھی ڈبہ بند دودھ پاکستان میں دودھ کی مارکیٹ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی رہا جبکہ دودھ پاکستان کے گھریلو صارفین کے استعمال کی سب سے بڑی ضرورت ہے.

ادارہ برائے شماریات کے مطابق پاکستان میں اوسطا پورے مہینے کے اخراجات کا 9.5 فیصد دودھ اور اس سے تیار کردہ اشیاء پر خرچ ہوتا ہے جس میں بڑا حصہ پھر بھی دودھ کا ہی ہے. ڈیلی منافع نے جب ان اعداد و شمار کا تجزیہ کیا تو 2018ء میں ہر مہینے تقریباََ 3373 روپے فی گھر دودھ کی مد میں خرچ کیا گیا.

دودھ کی مانگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واحد ضرورت ہے جسے ہر پاکستانی صارف استعمال کرتا ہے. اور جب نیسلے نے پاکستان میں دودھ کی مارکیٹ قدم رکھا تو پاکستان میں دودھ کی مارکیٹ میں ایک بہتر سرمایہ کاری کے مقابلے کا رحجان پیدا ہوا.

2006ء میں اینگرو کارپوریشن نے پہلا صارف دوست ماتحت ادارہ اینگرو فوڈز متعارف کروایا اور ان کی پہلی تیار کردہ مصنوعات “آلپرز” کے نام سے ڈبہ بند دودھ تھا جو نیسلے ملک پیک کیلئے ایک براہ راست مدمقابل تھا.

اینگرو فوڈز کے 6 سال تک نیسلے کی بالادستی کیلئے خطرہ سمجھا جانے والے آلپرز نے مارکیٹ میں‌ ڈبہ بند دودھ کی مارکیٹ کو وسعت دینے میں کافی مدد کی. اینگرو فوڈز کے قیام سے ایک سال قبل 2005ء میں ڈبہ بند دودھ پاکستان میں دودھ کی مارکیٹ کا صرف 3 فیصد تھا. 2012ء میں‌ اس کے حصص بڑھ کر پوری مارکیٹ کا 7.8 فیصد ہو گئے.

دوسرے الفاظ میں اینگرو اور نیسلے نے ایک دوسرے کی مارکیٹ پر قبضہ نہیں کیا بلکہ دونوں نے کھلے دودھ کی مارکیٹ سے اپنا حصہ وصول کرنا شروع کر دیا.

عوام کی رائے کے بعد نیسلے کی انتظامیہ کو اندازہ ہوا کہ ڈبہ بند دودھ کی مارکیٹ ان کے حصص پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا. 2012ء میں‌ انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون کو دیئے گئے انٹرویو میں نیسلے پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر یان ڈونلڈ نے کہا کہ “ڈبہ بند دہی کی مارکیٹ میں ہمارا حصہ 80 فیصد ہے. تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ مارکیٹ میں ہمارا حصہ کیا ہے. ہمیں ڈبہ بند مصنوعات کے شعبے میں آگے بڑھنا چاہیے”.

نیسلے پاکستان اور اینگرو فوڈز کے کبھی دوستانہ تعلقات نہیں رہے لیکن 2006ء اور 2012ء کے درمیانی عرصہ میں دونوں نے ایک دوسرے کو کبھی اپنا پہلا حریف نہیں سمجھا. اور پھر حالات بدل گئے اور دونوں کمپنیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ سخت کر لیا.

2012ء کے جمود کے بعد 

اعداد و شمار کے مطابق 2012ء تک مارکیٹ میں‌ ڈبہ بند دودھ کی شرح نمو کافی سست رہی.

قابل غور بات یہ ہے کہ ڈبہ بند دودھ نے پاکستان میں‌ دودھ کی مارکیٹ میں مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہیں. ڈیلی منافع نے جب پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ 2002ء سے 2018ء تک پاکستان میں دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کی شرح‌ نمو میں سالانہ 15.1 فیصد اضافہ ہوا (اس دوران افراط زر کی اوسط شرح 8.4 فیصد سالانہ رہی). اسی عرصہ میں ڈبہ بند دودھ کی خرید میں 25.7 فیصد اضافہ ہوا. جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2002ء سے 2018ء تک کے عرصے میں صارفین کی جانب سے دودھ کی مصنوعات میں‌ ڈبہ بند دودھ کی خریداری کا تناسب 2.5 فیصد سے بڑھ کر 7.3 فیصد ہو گیا.

تاہم 2006ء سے 2012ء اور 2012ء سے 2018ء تک کے دونوں دورانیے میں واضح‌ فرق ہے.

2006ء سے 2012ء کے دوران صارفین کی جانب سے دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کی خریداری میں 20.8 فیصد سالانہ اضافہ ہوا. ڈبہ بند دودھ کی خریداری میں 36.3 فیصد سالانہ نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا (اس عرصے کے دوران افراط زر کی شرح 11.8 فیصد سالانہ رہی).

اس صنعت کی شرح‌ نمو میں زبردست اضافہ نیسلے پاکستان اور اینگرو فوڈز دونوں کیلئے ہی خوشگوار رہا. اس عرصے میں نیسلے پاکستان نے اپنی سالانہ آمدن میں 23.7 فیصد اضافہ کیا. 2006ء سے 2012ء کے عرصے میں اس کی سالانہ آمدن 22 ارب سے بڑھ کر 79.1 ارب روپے تک جا پہنچی. جب کہ اسی عرصے میں اینگرو فوڈز کی کارکردگی زیادہ بہتر رہی اور اس کی آمدن 72.4 فیصد اضافے کے ساتھ 1.5 ارب سے بڑھ کر 39.5 ارب روپے سالانہ تک جا پہنچی.

ڈبہ بند غذائی اجناس کی صنعت کھلی اجناس کے مقابلے میں مارکیٹ پر اثر انداز ہوئی. جو اپنے صارفین کی شرح 2006ء سے 2012ء کے دوران 4.2فیصد سے بڑھا کر 7.8 فیصد پر لے آئے.

اس کے بعد معاملات کا رخ تھوڑا بدل گیا. دودھ کی مارکیٹ کی بڑھتی ہوئی شرح نمو میں 9.5 فیصد سالانہ کمی آنا شروع ہوگئی (اس عرصہ میں افراط زر کی سالانہ شرح 5.2 فیصد تھی). تاہم دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کھلے دودھ کی شرح‌ نمو میں ڈبہ بند دودھ کی نسبت اضافہ ہوا. یہ اضافہ 9.6 فیصد سالانہ تھا جبکہ اسی عرصے میں ڈبہ بند دودھ کی شرح نمو 8.8 فیصد رہی. اس کے نتیجے میں 2012ء سے 2018ء کے عرصے میں ڈبہ بند دودھ کی صنعت کا دودھ کی مارکیٹ میں‌حصہ 7.8 فیصد سے گھٹ کر 7.3 فیصد رہ گیا.

اس کا تعین ابھی تک نہیں‌کیا جا سکا کہ ڈبہ بند مصنوعات کی صنعت میں لمبے عرصے کی مسلسل نمو کے بعد گراوٹ کی اصل وجہ کیا ہے خاص کر 2012ء سے 2018ء کے عرصے میں اور کم از کم اس عرصے کے ابتدائی سالوں میں‌جب ملک کے معاشی حالات زیادہ خراب نہیں تھے.

ایک بات تو واضح ہے کہ گراوٹ کا یہ بہاؤ نیسلے پاکستان اور اینگرو فوڈز کیلئے یکساں نہیں تھا. نیسلے پاکستان کی سالانہ بڑھوتری کی مجموعی شرح 6 سال میں 23.7 فیصد سے گر کر 8.1 فیصد رہ گئی.

تاہم اینگرو فوڈز کو سالانہ بڑھوتری کی مجموعی شرح میں زیادہ گراوٹ کا سامنہ کرنا پڑا جو 2012ء میں 72.4 فیصد تھے منفی 3.9 فیصد کی خطرناک حد تک گر گئے. اس گراوٹ میں 2015ء کے بعد زیادہ تیزی دیکھی گئی. آمدن کی سالانہ شرح میں 36.4 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی.

دو مختلف صورتحال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نیسلے پاکستان اینگرو فوڈز کے مقابلے میں زیادہ بڑا اور مستحکم ادارہ ہے اور اس کی بڑی مصنوعات میں اینگرو فوڈز کی طرح صرف دودھ اور اس سے تیار کردہ اشیاء ہی نہیں ہیں. جس کا مطلب یہ ہے کہ اینگرو فوڈز کو بھی اپنی مصنوعات میں اضافہ کرنا پڑے گا ایسا صرف اس لئے نہیں کہ اپنے حریف کی برابری کرنی ہے بلکہ اس لئے بھی کہ مستقبل میں دوبارہ کبھی ایسی صورتحال پیش نہ آئے.

تشہیری جنگ کا آغاز

2006ء سے 2012ء کے درمیان نیسلے پاکستان نے اینگرو فوڈز کو ایک ہی مارکیٹ میں اپنی آمدن اور مارکیٹ میں اپنا حصہ بڑھاتے دیکھا لیکن یہ نیسلے پاکستان کیلئے زیادہ خطرناک صورتحال نہ تھی. اگرچہ اعداد و شمار زیادہ تر اینگرو فوڈز کے حق میں تھے لیکن دونوں کمپنیاں ترقی کر رہی تھیں. تاہم 2013ء میں دونوں کمپنیوں کی آمدن میں واضح کمی دیکھی گئی جو 2014ء تک جاری رہی اور پھر نیسلے پاکستان نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سب سے بڑائی فوڈ کمپنی کا اعزاز واپس پانے کیلئے منظم حکمت عملی پر سوچنا شروع کر دیا.

نیسلے پاکستان نے جس حکمت عملی کا انتخاب کیا اس میں تشہیری مہم پر بھی خاصی توجہ دی گئی. کمپنی کی جانب سے تشہیری اخراجات کو تقریباََ دوگنا بڑھا دیا گیا. 2015ء میں 9.5 ارب روپے مختص کئے گئے جبکہ 2014ء میں یہ اخراجات 5.3 ارب روپے تھے. نیسلے پاکستان نے لوگوں کے ذہنوں میں اپنے برانڈ کو زیادہ بہتر بنانے کیلئے کثیر سرمایہ کاری کی. (2012ء میں شروع کیا جانے والا موسیقی کا شو “نیس کیفے بیسمنٹ” کیلئے سرمایہ کاری نیسلے پاکستان کی جانب سے کی گئی تھی. اور اس کے اخراجات نیسلے پاکستان نے اپنی سالانہ مارکیٹنگ اخراجات کی مد میں‌ رکھے ہیں).

اینگرو فوڈز کے پاس نیسلے پاکستان سے تشہیری میدان میں مقابلے کیلئے سرمایہ کی کمی تھی پھر بھی اینگرو فوڈز نے 2015ء میں اپنے حریف کے مقابلے تشہیری مہم کیلئے اخراجات میں‌اضافہ کرتے ہوئے کل حجم 2.4 ارب کا ایک تہائی حصہ مخصوص کر دیا.

اخراجات میں اضافہ اور آمدن میں کمی کا مطلب کہ اینگرو فوڈز کے پاس مارکیٹ میں سرمایہ کاری کیلئے وسائل بھی کم تھے.

دودھ ملی سفیدی کا شوشہ

اینگرو فوڈز اور نیسلے پاکستان کے درمیان اصل تنازعہ دونوں کمپنیوں کی مصنوعات ہیں. اینگرو فوڈز کے کارپوریٹ ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ڈیلی منافع کو فراہم کو دیئے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ “آلپرز فل کریم ملک پاؤڈر کیلئے خالص دودھ سے نمی نکال دی جاتی ہے اور اس میں وٹامنز اور کیلشئم جیسے غذائی مرکبات شامل کئے جاتے ہیں. جب اس میں پانی ڈالا جاتا ہے یہ پھر سے خالص دودھ کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو کیلشئم اور وٹامنز سے بھرپور ہوتا ہے.”

نیڈو فورٹی گرو خشک دودھ کی مارکیٹ میں 90 فیصد سے زائد حصص رکھتی ہے. اس کے اجزائے ترکیبی میں خالص دودھ سبزیوں کی چکنائی، ایمولسفائر، وٹامنز اور منرلزشامل ہیں اور ڈبہ کے باہر نمایاں درج ہے کہ یہ فل کریم ملک پاؤڈر ہے.

دونوں‌ مصنوعات کے ایک ہی جیسے اجزائے ترکیبی طاقت افزا، زیادہ گرمی میں تیار کئے گئے ہیں غرضیکہ خشک دودھ کی دونوں مصنوعات کو دیگرا اجزاء کے امتزاج سے زیادہ صحت افزاء بنایا گیا ہے.

نیسلے پاکستان کے ترجمان کے مطابق اینگرو فوڈز کا نشر ہونے والا یہ اشتہار غلط حقائق اور معلومات پر مبنی ہے.

اس حوالے سے پرافٹ کو دئیے گئے بیان میں اینگرو فوڈز کی جانب سے کہا گیا کہ اشتہار میں نیڈو یا کسی اور برانڈ کو نشانہ نہیں بنایا گیا. ترجمان اینگرو فوڈز نگین رضوی کا کہنا ہے کہ “اس اشتہار میں‌ ہرگز کسی کا نام نہیں‌ لیا گیا. اشتہار میں‌ ایک فرضی دودھ کی کمپنی کا ذکر ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ قدرتی دودھ نہیں ہے بلکہ ایسے تمام برانڈز کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں خریدتے وقت صارف سمجھتا ہے کہ یہ دودھ ہیں مگر ان میں پاؤڈر اور سبزیوں کا تیل استعمال کیا جاتا ہے. ہماری صارفین سے درخواست ہے کہ پاؤڈر اور سبزیوں کے تیل سے بنائے گئے دودھ کے بارے میں قانونی نقطہ نظر جان لیں. حتٰکہ قانون بھی یہی کہتا ہے کہ اس طرح‌ کی مصنوعات دودھ ہرگز نہیں ہیں اور کمپنیوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ایسے اجزاء سے بنائی گئی مصنوعات کے پیکٹ پر وارننگ درج کی جائے.”

آلپرز خود کو فل کریم دودھ کے حوالے سے متعارف کروا رہا ہے جبکہ نیڈو خود کو دودھ پاؤڈر متعارف کروا رہا ہے جس میں سبزیوں کی چکنائی شامل ہے. اوگلیوی اور ماتھر میں نیڈو کے بزنس ہیڈ عبدالصبور کا یہ دعویٰ‌ ہے کہ نیڈو بھی آلپرز کی طرح خالص دودھ سے ہی بنا ہے تاہم بعد میں اس میں سبزیوں کی چکنائیوں اور دیگر چکنائیوں کے بعد اسے خالص دودھ نہیں کہا جاسکتا.

ایسا نہیں‌ کہ اس طرح کی تقابلی تشہیر پاکستان میں‌ پہلی دفعہ ہوئی ہو. کوکا کولا نے احد رضا میر اور مایا علی پر مشتمل تشہیری مہم “ظالما کوکا کولا پلا دے، چائے کو ٹھنڈا کر دے” متعارف کروائی. چائے کو ٹھنڈا کر دے والے جملے میں پاکستان کے سب سے بڑے چائے کے برانڈ یونی لیورز پاکستان اور ٹپال کو نشانہ بنایا گیا ہے.

لپٹن نے ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر اس تشہیر کا بھرپور جواب دیا. جوابی تشہیری مہم میں کہا گیا “پاکستانی چائے سے پیار کرتے ہیں ظالما… اچھی کوشش تھی” اور ایک عبارت جس پر درج تھا “پاکستانی چائے پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں”. لپٹن نے کوکا کولا کی تشہیری مہم کے جواب میں Pakistan’sBestBerverage (پاکستان کا بہترین مشروب)کے نام سے ہیش ٹیگ بھی جاری کر دیا.

ٹپال نے “تم میں‌اور ایک کپ ظالما چائے” کے نام سے تشہیری مہم کا آغاز کیا جس کی عبارت درج تھی کہ “ٹپال دانیدار ظالم چائے بنائے”.

نیسلے نے بھی تائید کرتے ہوئے اشتہار میں ٹھنڈی کوکا کولا کا گلاس دکھایا جس میں ایک شخص بسکٹ ڈبو رہا تھا. اشتہار پر لکھا تھا کہ “Dunk now Zalima (اب ڈوباؤ)” اور اس پر عبارت درج تھی کہ “It’s not even a question of choice, #ZaalimaChaiPilaDe” (چائے کے مقابلے میں کچھ نہیں).

بزنس ڈائریکٹر اوگلیوی اور ماتھر زیبان سید کا کہنا ہے کہ “برانڈز اپنے حریف سے مقابلے کیلئے کئی حربے استعمال کرتے ہیں. یہ حربے صحیح ہیں یا غلط یہ ایک الگ بحث ہے کیونکہ اس معاملے پر ابھی تک کوئی قانون سازی نہیں کی گئی. ٹی وی چینلز اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کیلئے یہ زیادہ تر بزنس ہے جو ان کے کلائنٹس لے کر آتے ہیں. کلائنٹس کو اس معاملے میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے. جب وہ مقابلے کیلئے اس طرح کی تشہیر کرتے ہیں”.

تاہم حکومت کی جانب سے کچھ قوانین ایسے موجود ہیں جو کاروبار کی تشہیر پر لاگو ہوتے ہیں. دوسروں کے کاروبار کے مفاد کے خلاف غلط قسم کی تشہیر یا ایسی تشہیر جس سے گمراہ کن معلومات کے پھیلنے کا خدشہ ہو یا ادارے کے نام، اس کے ٹریڈ مارک یا پھر پیکٹ پر دی گئی اطلاعات میں‌ دھوکہ دہی کا عنصر شامل ہو کیلئے پاکستان کی تقابلی کمیشن (The Competition Commission of Pakistan ) کے 2012ء کے قانون کی شک 10 کے تحت قوانین موجود ہیں.

اوگلیوی اینڈ ماتھر میں نیڈو کے سربراہ عبدالصبور نے کہا کہ “پاکستان میں عوام اور ادارے پاکستان کی تقابلی کمیشن (سی سی پی) کی ہدایات کو نظر انداز کر دیتے ہیں. ہمیں اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ وہ قانون شکنی کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹ سکیں. اس سلسلے میں اینگرو نے ایسی تشہیری مہم کا آغاز کیا جو جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے. سی سی پی جیسے اداروں کو ایسی تشہیری مہم شروع کرنے والی کمپنیز کے خلاف براہ راست ایکشن لینا چاہئے.”

سی سی پی کے ڈائریکٹر میڈیا اینڈ ایڈووکیسی اسفندیار خٹک نے کہا کہ “قوانین بالکل واضح ہیں۔ ہم نے ملک میں خاص طور پر تشہیری معاملات کیلئے قوانین وضع کئے ہیں اور ہم ان قوانین کے اطلاق اور اس کی پابندی کو یقینی بنانے کیلئے تیار ہیں۔ ہمارے وضع کئے گئے قانون خاص کر شک 10 کے تحت بہت واضح ہیں کہ کوئی بھی ادارہ کسی دوسرے ادارے کا نام یا مصنوعات گمراہ کن تشہیر کیلئے استعمال نہیں کر سکتا۔ تاہم اگر اس میں‌کوئی گمراہ کن یا جھوٹ پر مبنی بیان نہیں‌ہے تو ہمیں‌کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔”

جبکہ اینگرو فوڈز کا کہنا ہے کہ ان کی تشہیر میں قانون کی خلاف ورزی نہیں‌ کی گئی. اینگرو فوڈز کی ترجمان کا کہنا ہے کہ “ہم ہر لحاظ سے سی سی پی قوانین کی پابندی کرتے ہیں. فل کریم پاؤڈر ملک ایسا خشک دودھ ہے جو فائدہ مند سبزیوں کے تیل سے بنایا گیا ہے.”

مارکیٹ میں حصص کی دوڑ لیکن مارکیٹ سے ہی انجان

تجزیہ کاروں کے مطابق خشک دودھ کے شعبے میں اینگرو کے مارکیٹ میں حصص نیڈو سے کم ہیں. اینگرو فوڈز کی جانب سے ترنگ اور نیسلے کی جانب سے ایوری ڈے خشک دودھ ہیں جن کا اصل مصرف چائے میں‌ سفیدی ہے.

کھلے دودھ سے مقابلے کی دوڑ میں لگی دونوں کمپنیاں مارکیٹ میں کم قیمت پر دودھ کی فروخت کرنا چاہتی ہیں جس کا مطلب یہ ہے ان میں ڈالے گئے مرکبات بھی سستے ہیں اور یہ دودھ سے تیار کی گئی مصنوعات ہیں نہ کہ بذات خود خالص دودھ.

پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے تمام کمپنیوں کو ایسے مشروبات کو دودھ کہنے پر ممانعت کے احکامات جاری کئے گئے ہیں. اینگرو فوڈز کی جانب سے اپنی مصنوعات “امنگ” کو مشروب کہا گیا ہے جو دودھ کا متبادل ہے لیکن اسے خالص دودھ نہیں‌ کہا جا سکتا.

اینگرو فوڈز، نیسلے پاکستان اور اس طرح کی تمام ڈبہ بند دودھ تیار کرنے والی کمپنیوں نے کئی دہائیوں سے اپنی مصنوعات کے بارے میں یہی کہا ہے کہ اس میں زیادہ خالص، زیادہ صحت مند اور زیادہ حفظان صحت کی زیادہ خوبیوں والا دودھ شامل ہے. تاہم دودھ سے تیار کردہ ان مصنوعات کا مقصد ملک بھر میں کھلے دودھ کی مارکیٹ پر قبضہ کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہئے تھا.

اگر اب یہ کمپنیاں اسے قانونی طور پر دودھ نہیں کہہ سکتیں تو انہیں کیسے پڑوس کے اس گوالے سے بہتر قرار دیا جائے جو 90 کی دہائی سے اب تک دودھ میں ملاوٹ کا گناہ کر رہا ہے. جس کے بارے میں مشہور ہے کہ “گوالہ دودھ میں پانی نہیں ملاتا بلکہ پانی میں تھوڑا سا دودھ ملا دیتے ہے.”

کچھ صافین خاص کر علاقے کے کچھ اونچے طبقے کے صارفین جو کافی عرصے سے ڈبہ بند دودھ استعمال کر رہے ہیں کافی پہلے سے ہی کھلے دودھ کا استعمال ترک یا کم کر چکے ہیں جبکہ کھلا دودھ قیمت میں کم ہے. کیونکہ صارفین کو بھروسہ تھا کہ جو وہ خرید رہے ہیں وہ کوالٹی میں بہتر ہے اور یہ کمپنیاں خالص دودھ مہیا کرتی ہیں.

ڈبہ بند دودھ تیار کرنے والی کمپنیاں اب خود بھی اسی قسم کی تنقید کا شکار ہو گئیں ہیں جس قسم کی تنقید وہ گوالہ کلچر پر کرتی تھیں اور اس کے نتیجے میں ان کی صارفین کی تعداد پہلے ہی گھٹنا شروع ہو گئی ہے.

مارکیٹ میں زیادہ نمبر لینے کی دوڑ میں لگنے کی بجائے ان کمپنیوں کو چاہئے کہ پہلے اپنے صارفین کا اعتماد حاصل کریں کہ اگر وہ تھوڑی زیادہ قیمت دے رہے ہیں تو ایک بہترین معیار کی مصنوعات بھی خرید رہے ہیں.

1 COMMENT

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here