کیا انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی پاکستان کی ایم آئی ٹی بن سکتی ہے؟

ادارے بنانا بے حد مشکل ہے تاہم انہیں برباد کرنے کیلئے صرف ایک نوٹیفکیشن کی ضرورت ہوتی ہے: ڈاکٹر عمر سیف

جب ڈاکٹر عمر سیف 2001ء میں میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں پہلی بار ایک لیکچر کے سلسلے میں گئے تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی یونیورسٹی کا کیمپس بالکل چھوٹا سا ہے، عمر سیف کیمبرج یونیورسٹی سے پڑھے ہیں لیکن ایم آئی ٹی کا کیمپس انہیں کیمبرج سے بھی چھوٹا لگا بلکہ لاہور کے ایچی سن کالج سے بھی چھوٹا۔

پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ جس دن وہ لیکچر دینے گئے اس دن بارش ہو رہی تھی، انہیں یونیورسٹی بلڈنگ کی پانچویں منزل پر جانا تھا لیکن لفٹ خراب تھی اس لیے سیڑھیوں کے ذریعے پانچ منزلوں کا فاصلہ طے کرنا پڑا۔

عمر سیف کہتے ہیں کہ اپنی باری پر جب انہوں نے بولنا شروع کیا تو سامعین میں سے بہت سے لوگوں کو پہچان لیا کیونکہ ان کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں، وہاں آر ایس اے (سائبر سکیورٹی تھریٹس سے نمٹنے کا سسٹم) کا موجد سامنے بیٹھا تھا، آپریٹنگ سسٹم پر پہلی کتاب لکھنے والا شخص بھی سامعین میں موجود تھا۔

ڈاکٹر عمر سیف کے مطابق اس وقت احساس ہوا کہ ایم آئی ٹی اپنے وسائل کی وجہ سے دنیا کی بہترین یونیورسٹی نہیں ہے بلکہ جو چیز اسے دنیا بھر میں نمایاں بناتی ہے وہ اسکے طلبا اور اسٹاف کے ممبران ہیں۔

153 سالہ تاریخ میں ایم آئی ٹی نے دنیا کو بہترین دماغ دیے ہیں جن میں  93 نوبل انعام یافتہ، 25 ٹرنگ ایوارڈ یافتہ اور 8 فیلڈ میڈلسٹس کسی نہ کسی طور پر ایم آئی ٹی سے وابستہ رہے ہیں، اس کے علاوہ 34 خلاباز اور امریکی ائیرفورس کے 16 سائنسدان بھی اس ادارے سے وابستہ رہے۔

سنہ 2001ء کے اس تجربے نے ڈاکٹر عمر سیف کو یہ تحریک دی کہ وہ پاکستان میں بھی ایم آئی ٹی کی نوعیت کی ایک یونیورسٹی قائم کریں جہاں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو دنیا کو کچھ کر کے دکھا سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: 

پاکستان ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس کے میدان میں ایشیاء کی بڑی مارکیٹ بننے کی جانب گامزن ہے: جرمن ادارہ

آئی ٹی کی برآمدات 10 ارب ڈالر تک لے جانے، اسلام آباد میں 40 ایکٹر پر سافٹ وئیر سٹی بنانے کا فیصلہ

ایک زمانے میں جو چیز ڈاکٹر عمر سیف کا صرف خواب تھی وہ اب لاہور کے فیروز پور روڈ پر انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی (آئی ٹی یو) کی صورت میں عملی شکل میں وجود میں آ چکی ہے، تاحال اس کا کوئی باقاعدہ کیمپس نہیں بن سکا اور ایک سرکاری عمارت کی دو منزلوں کو کام میں لایا گیا ہے لیکن اپنے قیام کے ابتدائی مراحل کے باوجود ہی یہ یونیورسٹی اچھا تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

ڈاکٹر عمر سیف کہتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے پہلے یونیورسٹی کیمپس تعمیر کیا جاتا ہے، حکومت نے کم مدت میں بے شمارکیمپس تعمیر کیے ہیں جبکہ اس کی بجائے اصل ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ لائق اور قابل لوگوں کو پہلے اکٹھا کیا جائے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی سے کوئی شخص جا کر ہارورڈ میں پروفیسر لگ گیا ہو؟ ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن ہم یہ بات بھارت کی یونیورسٹیوں سے متعلق نہیں کہہ سکتے۔ بھارتی پروفیسر دنیا میں ہر جگہ کام کر رہے ہیں، پاکستان نے اس سطح کی صلاحیت کے لوگ کبھی پیدا ہی نہیں کیے۔

ریسرچ کرنے والی یونیورسٹی کا قیام

عمر سیف نے کہا کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد ہوتا ہے کہ وہ علم کے نئے زاویے تخلیق کرے جس کی وجہ سے معاشرے کو فائدہ پہنچ سکے لیکن پاکستان میں صورتحال خراب ہے، یہاں کبھی بھی یونیورسٹیوں کا مقصد نئی تحقیق یا علم کے نئے راستے پیدا کرنا نہیں رہا بلکہ  ہماری یونیورسٹیاں تیزی سے کالجوں میں تبدیل ہوئی ہیں جن کا مقصد اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ طلباء کی ایک بہت بڑی تعداد کو صرف پڑھایا جائے۔

ہماری یونیورسٹیوں کو کبھی یونیورسٹی بنانے کا سوچا ہی نہیں گیا، کسی یونیورسٹی کے شعبہ جات ہی اس کی اصل بنیاد ہوتے ہیں، ان شعبہ جات کی آگے بنیاد ہوتی ہے نئے علم و تحقیق کی آزادی، لیکن یہ چیزیں ہماری یونیورسٹیوںمیں مفقود ہیں۔

ڈاکٹر عمر سیف اس کوتاہ نظری کا ذمہ دار حکومت کو بھی ٹھہراتے ہیں کیونکہ یونیورسٹیوں میں تحقیق کے فروغ اور حوصلہ افزائی کیلئے کبھی کوئی پالیسی مرتب ہی نہیں کی گئی۔

آخر ایسا کیوں ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یونیورسٹیوں‌ کو ہمیشہ سیاسی طاقت کے گڑھ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور طلبا کو بجائے سکالر بنانے کے سیاسی کارکن بنایا جاتا رہا ہے۔

بڑے بڑے غنڈے یونیورسٹیوں میں رہتے رہے ہیں، ہماری یونیورسٹیوں سے اسلحہ تک برآمد ہوتا رہا ہے، یہاں مفادات کیلئے طلباء کو سیاست میں ملوث کیا گیا، انہیں مسلح کیا گیا، سیاستدانوں نے یونیورسٹیوں سے اپنا فائدہ اٹھایا اور پھر انکی حالت پر چھوڑ دیا۔

تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ دینا آسان ہے کہ جب کوئی طالب علم کسی پاکستانی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے تو چار سال کے کورس میں معمولی ردوبدل کے علاوہ کچھ تبدیل نہیں ہوتا، تو اس صورت میں آئی ٹی یو پاکستان کے دوسرے اداروں سے کیسے مختلف ہے؟

ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ آئی ٹی یو کے 112 فیکلٹی ممبرز میں سے 86 ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں اور انہیں ریسرچ کی مکمل آزادی ہے، آئی ٹی یو میں ایک استاد پورے سمیسٹر میں صرف ایک کورس ہی پڑھاتا ہے، ایک استاد جو سمیسٹر میں سات کورس پڑھا رہا ہو اس سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اتنا پڑھانے کے بعد ریسرچ بھی کرے گا؟

عمر سیف کے مطابق آئی ٹو یو میں ایسا نہیں ہے، یہاں اساتذہ کو ریسرچ کیلئے ہر سہولت دی جاتی ہے بلکہ پی ایچ ڈی کا ہر طالب علم ریسرچ کیلئے ہونے والے اخراجات کی مد میں ماہانہ 80 ہزار روپے بھی وصول کرتا ہے۔

آئی ٹی یو میں ڈیٹا سائنس کے ایک طالب علم حسن فیصل نے بتایا، ’’میں نے بہترین اساتذہ کی وجہ سے اس یونیورسٹی میں داخلہ لیا، یہاں پڑھائی کا معیار بہترین ہے اور جس سطح کی ریسرچ ہوتی ہے اس کی وجہ سے میں نے باہر جانے کا ارادہ ترک کر دیا، یہاں طلباء کی قدر کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آئی ٹی یو دوسرے اداروں سے نمایاں ہے۔‘‘

ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ عموماََ پاکستانی یونیورسٹیوں میں فیکلٹی ممبرز ایویلیوایشن فریم ورک میں کام کرنے سے گریزاں رہتے ہیں جس کی وجہ سے ہائیر ایجوکیشن کا معیار دن بدن پست ہو رہا ہے، ٹینیور ٹریک میں تنخواہ زیادہ ہوتی ہے پھر بھی یونیورسٹی ٹیچرز احتساب سے ڈرتے ہیں اور لیکچرر کے طور پر 75 ہزار ماہانہ کمانے کو ترجیح دیتے ہیں اور نوکری کے اختتام پر پنشن بھی پاتے ہیں۔

اگر یونیورسٹی انتظامیہ فیکلٹی ممبرز کو ایویلیوایشن فریم ورک کے تحت کام کرنے پر راضی کرلے تو دھوکے کا ڈر رہتا ہے، پروفیسرز نے بھی سسٹم کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا ہے، پاکستان میں اس طرح کی بے شمار کہانیاں موجود ہیں کہ پروفیسر اپنا جرنل شروع کرتے ہیں اور چربہ سازی کرتے ہوئے اگر پکڑے جائیں تو انہیں نوکری سے برخاست نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ عدالت یا کسی سیاسی جماعت کا سہارا لے لیتے ہیں، اسی لیے پاکستانی یونیورسٹیاں تباہ ہو رہی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر انہیں تسلیم نہیں کیا جاتا۔

اس کے برعکس آئی ٹی یو کے فیکلٹی ممبرز کو ریسرچ کے لیے ضروری سفرسے لیکر سامان خریدنے اور اپنی مدد کیلئے نئے لوگوں کو بھرتی کرنے تک کے اخراجات دیے جاتے ہیں تاکہ ریسرچ کو فروغ ملے اور امریکا کی ایم آئی ٹی کی طرح کا تحقیقی ماحول یہاں بھی پنپ سکے، اساتذہ کو ٹینیور ٹریک سسٹم کے تحت رکھا جاتا ہے، کارکرکردگی کو دیکھ کر کسی پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاتی، انہیں چھ سال کے عرصہ میں اپنی فیلڈ سے متعلق دو بار ٹیکنالوجی کی کسی کانفرنس کا انعقاد یا کوئی جرنل شائع کرنا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ 2018 میں آئی ٹی یو نے ’’ہیومن فیکٹرز اِن کمپیوٹنگ سسٹمز‘‘ کے حوالے سے ایک بڑی کانفرنس منعقد کی اور چار پیپرز پاکستان سے شائع کیے جو کہ سارے ہی آئی ٹی یو سے شائع ہوئے، ان میں سے ایک پیپر کانفرنس میں جمع کرائے گئے کل 2500 پیپرز میں دوسرا بہترین پیپر قرار پایا۔

انہوں نے کہا کہ ریسرچ یقیناََ مہنگی ہے اور پاکستان مین بہت سی یونیورسٹیاں اس مد میں زیادہ رقم خرچ کرنے کے قابل نہیں، اس کے برعکس امریکا میں یورنیورسٹیوں کو عموماََ انڈومنٹ فنڈز اور مختلف فیملی فائونڈیشنز کی جانب سے چندے ملتے ہیں، خدمت خلق کے جذبے سے سرشار کئی ارب پتی افراد اور ان کے خاندان سٹینفرڈ اور پرنسٹن یونیورسٹیوں اور ان جیسے دیگر اداروں کی مالی مدد کر رہے ہیں۔

ہم ٔپاکستانی بہت خیرات کرتے ہیں لیکن یہاں بہت کم فیملی فائونڈیشنز ہیں، زیادہ تر دولتمند مرنے کے بعد اپنی دولت بچوں کیلئے چھوڑ جاتے ہیں، اس کے برعکس زیادہ تر بڑی امریکی یونیورسٹیاں فائونڈیشنز کی طرف سے دیے جانے والے عطیات کی بنیاد پر ہی چلتی ہیں، یہ سب فائونڈیشنز یونیورسٹیوں کے انڈومنٹ فنڈز میں رقم جمع کراتی ہیں اور اکثر یونیورسٹیوں کے انڈومنٹ فنڈز پاکستان کے کل بجٹ سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

تاحال آئی ٹی یو کو کسی نجی انڈومنٹ فنڈ کی جانب سے پیسہ نہیں ملتا تاہم حکومت کی جانب سے پچاس کروڑ روپے کا انڈومنٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے لیکن یہ رقم انتہائی ضرورت کے وقت کیلئے رکھی گئی ہے۔

کاروبار کو فروغ دینے کا جذبہ

ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ 1997ء میں آیم آئی ٹی اور بوسٹن بنک نے ایک مشترکہ تحقیق کی جس میں یہ معلوم کیا گیا کہ اس ادارے کے طلبا نے دنیا پر کیا اثرات مرتب کیے، تحقیق سے ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان طلبا میں کاروبار کو فروغ دینے کی صلاحیت تھی، ایم آئی ٹی گریجوایٹس کی قائم کردہ کمپنیوں میں 11 لاکھ افراد کو ملازمتیں ملیں اور انکی سالانہ سیل 232 ارب ڈالر تک تھی، یہ کمپنیاں اگر ایک ملک کے پاس ہوتیں تو وہ دنیا کی 24ویں بڑی معیشت بن جاتا، اندازاََ اسکا جی ڈی پی 116 ارب ڈالر ہوتا جو جنوبی افریقہ سے تھوڑا کم اور تھائی لینڈ کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔

عمر سیف کا کہنا تھا کہ آئی ٹی یو بھی اسی جذبے کے تحت بنائی گئی ہے، یہاں ایک پالیسی ہے کہ پروفیسر کوئی چیز ایجاد کرتا ہے تو وہ اسکی ملکیت ہے، یونیورسٹی کا انکی انٹیکلچوئل پراپرٹی پر کوئی حق نہیں جبکہ دوسری یونیورسٹیوں میں ایسا نہیں ہے، کمپنیاں بنانے کیلئے پاکستان کو نت نئے آئیڈیاز کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ٹی یو میں پروفیسرز کو ایک دن کی چھٹی ملتی ہے تاکہ وہ اپنے آئیڈیاز پر کام کیلئے انڈسٹری میں جا کر چیزوں کو دیکھ سکیں یا خود کام کر سکیں، ان میں اکثر کی اپنی کمپنیاں ہیں، یونیورسٹی کے اولین فارغ التحصیل طلبا میں سے 85فیصد کو آئی ٹی یو کے فیکلٹی ممبرز نے اپنی کمپنیوں کیلئے ہائر کررکھا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کا پہلا ٹیک انکیوبیٹر پلان 9 بھی آئی ٹی یو کیساتھ کام کر رہا ہے جہاں اب تک طلبا نے 160 سٹارٹ اپس شروع کیے ہیں جن کی کل مالیت 70 ملین ڈالر ہے لیکن بہت سارے گریجوایٹس دیگر اداروں میں بھی نوکریاں کر رہے ہیں۔

پرافٹ اردو نے جب مختلف آئی ٹی کمپنیوں سے یہ پوچھا کہ وہ کس یونیورسٹی کے گریجوایٹس کو ترجیح دیتی ہیں تو ایک بڑی سافٹ وئیر فرم کی انتظامیہ نے بتایا کہ وہ آئی ٹی یو اور لمز کے بجائے فاسٹ اور نسٹ کے گریجوایٹس کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایک دوسری فرم کی جانب سے کہا گیا کہ ان کی کوئی خاص ترجیح نہیں لیکن ان کے پاس آئی ٹی یو کے بہت کم گریجوایٹس آتے ہیں اور ابھی تک کوئی بھی آئی ٹی یو کا طالب علم ان کی فرم میں کام نہیں کر رہا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2012ء میں اپنے قیام سے لیکر اب تک آئی ٹی یو سے طلبا کے دو بیجز فارغ التحصیل ہوئے ہیں، اس لیے جاب مارکیٹ میں دوسری یونیورسٹیوں کے طلبا کی نسبت آئی ٹی یو کے گریجوایٹس کی تعداد بہت  کم ہے۔

حال ہی میں آئی ٹی یو سے گریجوایشن کرنے والے ایک طالب علم نے پرافٹ اردو  کو بتایا کہ انڈسٹری میں نوکری دیتے وقت مہارت، تعلیمی قابلیت اور کام کو دیکھا جاتا ہے، آئی ٹی یو کے گریجوایٹس کیلئے بھی انڈسٹری میں یہی رجحان ہے۔

ایک طرف آئی ٹی یو پاکستان کی ایم آئی ٹی بننے کی جانب گامزن ہے تو دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس کے بانی وائس چانسلر عمر سیف کو عہدے سے ہٹا دیا ہے، مسائل پہلے ہی سامنے آنے لگے ہیں، بہت سے کنٹریکٹ ملازمین کو نکالا جا چکا ہے۔

عمر سیف کے اپنے الفاظ میں آئی ٹی یو کے بہت سے فیکلٹی ممبرز اس لیے پاکستان آئے کیونکہ انہوں نے آئی ٹی یو کو آئیڈیل سمجھا تاہم اگر معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو وہ سب واپس چلے جائیں گے۔

عمر سیف کے مطابق ادارے بنانا بے حد مشکل کام ہے تاہم انہٰیں برباد کرنے کیلئے صرف ایک نوٹیفکیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here