پاکستان کو سستی بجلی کے لیے سولر اور ونڈ پاور پر منتقل ہونا ہو گا، رپورٹ

پاکستان 2030ء تک توانائی کے اپنے موجودہ ماڈل کو تبدیل کر کے اس میں سولر اور ونڈ پاور کے حصے میں اضافہ کرے، رپورٹ

741

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں دوبارہ قابل استعمال توانائی کا شعبہ سستی اور دیرپا بجلی کی فراہمی میں نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے جس سے اخراجات میں بچت ہو گی اور صارفین اور حکومت دونوں پر مالی دباؤ میں کمی آئے گی۔
انسٹیٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ کاسٹ ایفکٹو آلٹرنیو (آئی ای ای ایف اے) نے پاکستان میں توانائی کے مستقبل پر اپنی رپورٹ میں توانائی کے موجودہ ماڈل کو تبدیل کر کے سورج کی روشنی اور ہوا سے بجلی بنانے پر زور دیا ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ 2030ء تک توانائی کے اپنے موجودہ ماڈل کو تبدیل کر کے اس میں سولر اور ونڈ پاور کے حصے میں اضافہ کرے۔
رپورٹ میں پاکستان میں توانائی کے موجودہ ماڈل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں بجلی کے حصول کے تھرمل، ہائیڈرو اور نیوکلیئر پلانٹ استعمال کیے جا رہے ہیں اور ملک بھر میں جتنی بجلی پیدا کی جا رہی ہے اس کا تناسب 70:20:10 ہے۔ جس میں تھرمل کا حصہ 70 فی صد، پن بجلی کا حصہ 20 فی صد اور جوہری پلانٹس کا حصہ 10 فی صد ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تیل اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے اور اس سے آلودگی بھی جنم لیتی ہے، جب کہ پن بجلی کی ترسیل یکساں نہیں ہوتی۔ ڈیموں اور دریاؤں میں پانی کی کمی بیشی سے بجلی کی مقدار بھی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ اسی طرح نیوکلیئر پاور پلانٹس لگانا بہت مہنگا پڑتا ہے۔
آئی ای ای ایف اے کے مالیاتی تجزیہ کار اور رپورٹ کے شریک مصنف سائمن نکولس نے اپنے 2030 کے مجوزہ ماڈل میں کہا ہے کہ پاکستان کے لیے 30:30:30:10 کا ماڈل باکفایت اور فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
اس ماڈل میں تھرمل کا حصہ 70 فی صد سے گھٹا کر 30 فی صد، پن بجلی کا حصہ 20 فی صد سے بڑھا کر 30 فی صد رکھا گیا ہے جب کہ جوہری پاور پلانٹس کے 10 فی صد حصے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ نئے ماڈل میں 30 فی صد حصہ مشترکہ طور پر سولر اور ونڈ انرجی کو دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوبارہ قابل استعمال توانائی پر انحصار بڑھانے سے بجلی کی لاگت میں کمی آئے گی جس کا فائدہ صارفین کو ہو گا۔
سولر اور ونڈ پاور پلانٹس کی تعمیر پر مقابلتاً کہیں کم لاگت آتی ہے اور وہ نسبتاً کم وقت میں تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کے اخراجات بھی کم ہو تے ہیں۔ اس ماڈل پر عمل کرنے سے پاکستان مستقبل میں اپنے گھریلو اور صنعتی صارفین کو سستی بجلی فرام کر کے معاشی ترقی کے اہداف حاصل کر سکتا ہے۔
2017ء میں عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی معیشتوں میں دوبارہ قابل استعمال بنائی جا سکنے والی توانائی کی جانب نمایاں پیش رفت دکھائی دی۔ ان معیشتوں میں بجلی کی مجموعی 186 گیگا واٹ میں سے 94 گیگا واٹ بجلی سورج اور ہوا سے حاصل کی گئی۔
آئی ای ای ایف اے کی جانب سے یہ رپورٹ 5 دسمبر کو یونیفائیڈ میڈیا کلب لاهور میں ’ 21 ویں صدی کی پائیدار ترقی ‘ سے متعلق کانفرنس میں پیش کی گئی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here