کراچی: معاشی پریشانیوں کے بوجھ تلے دبی وفاقی حکومت نے مقامی تجارتی اور شرعی بینکوں سے 9.44 کھرب روپے کا ریکارڈ قرضہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ رقم جاری مالی سال کے آخری تین ماہ کے پرانے قرضوں اور مالیاتی اخراجات کی ادائیگیوں کے لیے درکار ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق حکومت 8.05 کھرب روپے کے پرانے قرضے کی ادائیگی کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز حاصل کرے گی۔ 9.44 کھرب روپے حکومت کی طرف سے حاصل کی جانے والی واحد سب سے بڑی بینک فنانسنگ ہے لیکن اس کی ابھی تک سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
عارف حبیب لمیٹڈ کی ماہر معاشیات ثنا توفیق نے کہا کہ حکومت نے نومبر 2022 سے عالمی مالیاتی فنڈ کے قرض پروگرام کی معطلی کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں کے حصول میں ناکامی کے بعد ملکی قرضوں پر بڑھتے ہوئے انحصار کے تناظر میں قرض لینے کا اتنا بڑا ہدف مقرر کیا۔ خالص قرضوں میں تازہ اضافہ حکومت کے مالیاتی خسارے کو بڑھا دے گا۔ ان کے مطابق مالیاتی اکاؤنٹ کو دو بڑی وجوہات کی بنا پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے جس میں مقامی قرضوں کا مسلسل بڑھنا اور شرح سود 21 فیصد تک بڑھنے کے بعد سود کی ادائیگیوں میں اضافہ شامل ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دونوں چیزیں ہاتھ سے نکل گئیں۔
31 دسمبر 2022ء تک کل ملکی قرضہ بڑھ کر 38 کھرب روپے تک پہنچ گیا جو پاکستان کی جی ڈی پی کا 45 فیصد اور کل سرکاری قرضوں (بشمول بیرونی واجبات) کا 53 فیصد ہے۔
رواں مالی سال میں ملکی قرضوں پر ڈیبٹ سروسنگ (مارک اَپ لاگت) کا تخمینہ 5.6 کھرب روپے کے قریب لگایا گیا ہے جو ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو کی وصولی کے 76 فیصد کے برابر ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق اس وقت حکومت کے پاس دو آپشنز ہیں: قومی معیشت کو نمایاں طور پر سہارا دینے کے لیے کچھ مالیاتی سپورٹ فراہم کرنا یا عوامی قرضوں کی تنظیم نو کرنا۔ اس سے غیر ترقیاتی اخراجات کو کم اور ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کر کے ٹیکس ریونیو کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ قرضوں کی تنظیم نو مشکل ہے۔ یہ کچھ مقامی بینکوں کے دیوالیہ ہونے کے بڑے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ مزید یہ کہ مرکزی بینک سے لیکویڈیٹی سپلائی کا آپشن ہونا چاہیے اور آئی ایم ایف کو بھی آن بورڈ لینا چاہیے۔
تیسرا آپشن بھی موجود ہے جس میں نئے کرنسی نوٹ چھاپ کر قرض ادا کرنا ہو گا لیکن اس سے ملک میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ افراط زر پہلے ہی چھ دہائیوں کی بلند ترین سطح 36.4 فیصد پر ہے۔
اس وقت ملکی بینک 21 فیصد پالیسی ریٹ کی بجائے 22 فیصد کے تاریخ کے بلند ترین مارک اپ پر فنانسنگ کی پیشکش کر رہے ہیں۔ مزید برآں مرکزی بینک کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے مئی سے جولائی 2023 کے دوران تین سے 12 ماہ کے ٹریژری بلز (ٹی بلز) فروخت کرکے 7.50 کھرب روپے قرض لینے کا ہدف رکھا ہے۔ اس کا مقصد مقررہ اورفلوٹنگ ریٹس پر دو سال سے تیس سالہ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (PIBs) کی نیلامی کے ذریعے مزید 1.49 کھرب کا قرض لینا ہے۔
مزید یہ کہ یہ تین ماہ کے دوران شریعہ کے مطابق بینکوں کو سکوک فروخت کرکے 450 ارب روپے کی فنانسنگ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
حکومت کا میچورنگ ٹی بلز کے لیے 7.08 کھرب روپے بنیادی طور پر جون 2023 کے آس پاس قسطوں میں ادا کرنے کا ارادہ ہے ۔ جبکہ اسے مئی سے جولائی میں پرانے طویل مدتی PIBs کے لیے 647 ارب روپے بھی ادا کرنے ہیں۔