چائے عام پاکستانی کی پہنچ سے دور کیوں ہو رہی ہے؟

340

ایک کپ چائے لاہور کے ڈھابوں پر تیس چالیس روپے میں مل جاتی تھی۔ اَب پچاس ساٹھ روپے کی ملتی ہے اور یوں عام آدمی کا یہ مشروب شائد آئندہ مہینوں میں مزید مہنگا ہو کر ناقابل خرید حد تک پہنج جائے کیونکہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے چائے کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

2021ء کے آخر میں فی کپ چائے 30 روپے کی ملتی تھی۔ پھر یہ 40 روپے کی ملنے لگی۔ وسط 2022ء میں مزید 10 روپے بڑھ کر 50 روپے کی ہو گئی اور اَب عیدالفطر کے بعد سے کئی شہروں میں 60 روپے میں ایک کپ چائے ملتی ہے۔

دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی طرح مہنگی چائے کے پیچھے بھی دو عوامل کارفرما ہیں۔ درآمدات پر پابندی اور ہماری زراعت کا نوحہ۔

دنیا کیلئے جو محض چائے ہے وہ ہمارے یہاں دودھ پتی اور ناجانے کیا کیا کچھ ہے۔ اضافی ذائقوں کی وجہ سے چائے کے ایک کپ پر اٹھنے والے اخراجات بھی اضافی ہیں۔ برصغیر میں چائے تین بنیادی اجزاء یعنی چائے پتی، دودھ اور شکر کا مرکب ہوتی ہے۔

ہمارے حساب کتاب کے مطابق اگر ایک شخص روزانہ تین کپ چائے پیتا ہو اور فی کپ 50 روپے کا پڑتا ہو تو اُس کا ماہانہ چائے کا خرچ ساڑھے چار ہزار روپے ہو گا۔ اَب اگر فی کپ 60 روپے کا ہو تو ماہانہ چائے کا بل ہو جائے گا پانچ ہزار چار سو روپے۔

بات دراصل یہ ہے کہ درآمدات بند ہونے کی وجہ سے رمضان سے قبل چائے پتی کی قیمت 1100 روپے سے بڑھ کر 1600 روپے فی کلو تک چلی گئی لیکن یکدم 500 روپے فی کلو اضافے کی وجوہات کیا ہیں اور رمضان کے بعد بھی قیمتیں اوپر کیوں جا رہی ہیں؟

بدقسمتی سے پاکستان برائے نام چائے پیدا کرتا ہے اور یہ دنیا میں چائے کی بڑے درآمد کنندگان میں بھی شامل ہے۔ گزشتہ سال پاکستان نے 59 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی چائے درآمد کی۔ اس کے برعکس بھارت مقامی کاشت سے سالانہ 9 لاکھ 40 ہزار ٹن چائے پیدا کرتا ہے اور 70 فیصد مقامی طور پر استعمال کرتا ہے۔

تقسیم کے وقت ہندوستان میں چائے کی پیداوار سالانہ 600 ملین پائونڈ تھی جو مقامی ضرورت سے زیادہ تھی اور تقریباََ آدھی برطانیہ کو برآمد کر دی جاتی تھی۔ 1971ء تک مشرقی پاکستان میں کاشت ہونے والی چائے سے کسی حد تک مقامی ضرورت پوری ہو رہی تھی اور بہت کم درآمد کرنا پڑتی تھی لیکن سانحہ مشرقی پاکستان چائے نوشوں کیلئے بھی کسی سانحے سے کم نہ تھا۔ مجبوراََ حکومت پاکستان کو چائے کی درآمد کیلئے سری لنکا سے رجوع کرنا پڑا۔ یہ کسی قدر سستی بھی پڑتی تھی۔

1982ء میں چینی ماہرین نے مانسہرہ کے پہاڑی علاقوں کو چائے کی کاشت کیلئے موزوں قرار دیا اور 1986ء میں یہاں پہلی بار چائے کاشت کی گئی۔ 2001ء میں سوات میں حکومت اور نجی کمپنیوں نے مل کر چائے کے پودے لگائے۔ ایک وقت پر پاکستان میں چائے کا زیر کاشت رقبہ 900 ہیکٹر تک جا پہنچا جو اَب بہ مشکل 100 ہیکٹر ہو گا وہ بھی یونی لیور مانسہرہ میں کاشت کر رہی ہے۔ چائے کاشت کرنے میں دلچسپی اس لیے پیدا نہیں ہو سکی کیونکہ ابتدائی طور پر حکومت اس کے مفت پودے دیتی تھی اور مالی وسائل بھی مہیا کرتی تھی لیکن جیسے ہی سرکار نے ہاتھ کھینچا، لوگوں کی دلچسپی بھی نہ رہی۔

مہنگی چائے کے پیچھے کچھ مقامی محرکات بھی ہیں۔ جیسا کہ دودھ کئی شہروں میں 150 روپے لٹر سے بڑھ کر 170 روپے اور 200 روپے تک فروخت ہو رہا ہے۔ چینی 90 روپے کلو سے 130 روپے کلو اور گیس سلنڈر 4500 روپے کا ہو چکا ہے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور درآمدی پابندیوں کے دوران آئندہ بھی چائے کی قیمتیں نیچے آنے کی توقع نہیں البتہ مزید اوپر چلی جائیں تو اس بارے میں ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here