سکول ٹیچر کے بیٹے کا خواب بنا 14 کھرب روپے کی ریلائنس انڈسٹریز

473
From spice-and-yarn origins to Billion dollar Reliance Industries

1951ء کی بات ہے۔ بھارتی گجرات کے ایک دُور اُفتادہ گائوں کے ایک سکول ماسٹر کا بیٹا خواب دیکھتا ہے کہ ایک دن وہ بڑا آدمی بنے گا مگر ماسٹر صاحب اسے یہ کہہ کر ڈانٹ دیتے ہیں کہ خواب کبھی حقیقت نہیں بنتے۔

تاہم کچھ سالوں بعد وہ لڑکا واقعی ناصرف بڑا آدمی بنتا ہے بلکہ ایک ایسی کمپنی قائم کرتا ہے جو آگے چل کر بھارت کی سب سے بڑا صنعتی سلطنت بنتی ہے۔

یقیناََ آپ کو یہ کہانی کچھ فلمی لگی ہو گی۔ دراصل یہ 2007ء میں ریلیز ہونے والی بالی ووڈ فلم ’’گرو‘‘ کی کہانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فلم مشہور صنعت کار دھیرو بھائی امبانی کی زندگی پر مبنی ہے تاہم فلم کے پروڈیوسر منی رتنم کے مطابق یہ محض افسانوی کہانی ہے اور دھیرو بھائی کی زندگی سے مماثلت اتفاقیہ ہے۔

البتہ دھیرو بھائی امبانی کی زندگی کی کہانی بھی ’’گرو‘‘ سے مختلف نہیں۔ انہوں نے بھی 1932ء میں ایک سکول ماسٹر کے گھر جنم لیا۔ پچاس کی دہائی میں وہ اُس زمانے کی برٹش کالونی عدن، جو اَب یمن کا عارضی دارلخلافہ ہے، چلے گئے اور اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ ایک تجارتی کمپنی میں بطور کلرک کام کرنے لگے۔

اس تجارتی کمپنی میں انہوں نے کاروبار کے گر سیکھے اور 1958ء میں بھارت واپس لوٹ کر اپنے چچا زاد چمپک لعل دامانی کے ساتھ مل کر ذاتی تجارتی کمپنی کھول لی جو بھارتی مصالحے یمن کو برآمد کرتی اور وہاں سے  دھاگا منگوا کر بھارت میں ٹیکسٹائل ملوں کو فروخت کرتی تھی۔

ساڑھے تین سو مربع فٹ کا ایک کمرا، ایک میز، ایک ٹیلی فون سیٹ، تین کرسیاں اور دو ملازم۔ یہ تھا آغاز دھیروبھائی امبانی کی ریلائنس انڈسٹریز کا۔

دھیرو بھائی امبانی نے اپنے کاروبار کو مصالحہ جات اور دھاگے کی درآمدوبرآمد سے ہٹ کر ٹیکسٹائل سمیت دیگر شعبوں تک پھیلانا چاہا لیکن چمپک لعل خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ بالآخر 1965ء میں دونوں کی شراکت داری ختم ہو گئی۔

1966ء میں دھیرو بھائی امبانی نے مہاراشٹرا میں ریلائنس ٹیکسٹائل اینڈ انجنئیرز کارپوریشن کی بنیاد رکھی جو 1973ء میں ریلائنس ٹیکسٹائل انڈسٹریز بن گئی اور اپنا پہلا برانڈ وِمل (Vimal) متعارف کرایا جو جلد ہی گھر گھر کی ضرورت بن گیا۔

یہ بھی پڑھیے: 

آرامکو: ایک کمپنی جس نے سعودی عرب کی قسمت بدل دی

گوتم اڈانی: کالج ڈراپ آئوٹ سے دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص بننے تک

گوگل: یونیورسٹی ہوسٹل سے دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن اور ٹریلین ڈالر کمپنی بننے تک

1977ء میں جب سرکاری بینکوں نے ریلائنس انڈسٹریز کو قرضے دینے میں ہچکچاہٹ دکھائی تو دھیرو بھائی امبانی نے پہلی عوامی پیشکش کا فیصلہ کر لیا۔ یہ بھارتی تاریخ کی اپنی نوعیت کی یادگار عوامی پیشکش تھی جس میں ایک کمپنی کی جانب سے فروخت کیلئے پیش کیے جانے والے حصص کی تعداد سے سات گنا زیادہ حصص فروخت ہوئے۔

پیسے کا مسئلہ حل ہوا تو آئندہ چند سالوں میں ریلائنس نے کئی چھوٹی بڑی ٹیکسٹائل ملز خرید لیں۔ 1985ء میں کمپنی کا نام ایک بار پھر ریلائنس ٹیکسٹائلز سے بدل کر ریلائنس انڈسٹریز رکھ دیا گیا۔ دراصل دھیرو بھائی امبانی ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی قسمت آزمائی کا سوچ رہے تھے۔ 1985ء سے 1992ء تک پولی ایسٹر دھاگے کی سالانہ پیداوار تقریباََ ڈیڑھ لاکھ ٹن تک پہنچ گئی۔

لیکن یہاں امبانی خاندان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آ گیا۔ 1986ء میں دھیرو بھائی امبانی پر فالج گرا اور ان کا ایک بازو ناکارہ ہو گیا۔ انہوں نے زیادہ تر کاروباری ذمہ داریاں اپنے بیٹوں مکیش اور انیل کو سونپ دیں اور خود کاروبار کی نگرانی کرنے لگے۔

1992ء میں ریلائنس پٹرولیم کے نام سے ذیلی کمپنی بنا کر گجرات میں پہلا پیٹروکیمیکل پلانٹ لگایا۔ 1995۔96ء میں ایک امریکی فرم کے ساتھ اشتراک کرکے ریلائنس نے ٹیلی کام کے شعبے میں قدم رکھا اور ریلائنس ٹیلی کام پرائیویٹ لمیٹڈ قائم کی۔

سن 96ء میں ریلائنس بھارت کی پہلی کمپنی بنی جس کی آئوٹ لُک کو موڈیز اور سٹینڈرڈز اینڈ پوئرز جیسی عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے مستحکم قرار دیا۔

سن 98ء میں ریلائنس گیس قائم ہوئی جس نے 2002ء میں انڈیا میں گیس کے سب سے بڑے ذخائر دریافت کیے جن کا حجم سات کھرب کیوبک فٹ تھا۔ اُسی سال ریلائنس نے سرکاری کمپنی انڈین پیٹرو کیمیکلز کارپوریشن کے اکثریتی حصص خرید لیے۔ تب تک ریلائنس گروپ کی مالیت 15 ارب ڈالر ہو چکی تھی۔

24 جون 2002ء کو دوسرا حادثہ ہوا۔ دھیروبھائی امبانی کو دوسری بار سٹروک ہوا اور وہ کچھ ہفتے کوما میں رہنے کے بعد 6 جولائی 2002ء کو چل بسے۔

نومبر 2004ء میں مکیش امبانی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ ان کے والد کی موت کے بعد امبانی فیملی میں ریلائنس گروپ کی ملکیت کے حوالے سے تنازع پیدا ہو گیا تھا۔

دسمبر 2005ء میں گروپ کا بٹوارہ ہوا تو ٹیلی کام، توانائی، سرمایہ کاری، تعمیرات، صحت، دفاع اور ہوابازی سے متعلق کاروبار انیل امبانی کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے اسے ریلائنس انیل دھیرو بھائی امبانی گروپ یا ریلائنس اے ڈی اے گروپ کا نام دے دیا۔

یہ بھی پڑھیے: 

نوڈلز بیچنے سے 300 ارب ڈالر کی کمپنی تک سام سنگ کا سفر

صرف ایک بھارتی کمپنی کی آمدن پاکستان کی مجموعی برآمدات کے آدھے سے بھی زیادہ

اسی طرح ٹیکسٹائل، پیٹروکیمیکل، تیل و گیس اور کچھ دیگر کاروبار مکیش امبانی کے حصے میں آئے اور ریلائنس انڈسٹریز بھی ان کے پاس ہی رہی۔

2006ء میں ریلائنس انڈسٹریز بھارت کی ریٹیل مارکیٹ میں داخل ہوئی اور ملک کے 57 شہروں میں 600 سٹور کھولے۔ یوں اس نے ایمازون اور ای بے جیسی امریکی ریٹیل کمپنیوں کو بھارت میں قدم جمانے روکا اور زرمبادلہ ملک سے باہر جانے سے بچا لیا۔

2010ء میں انفوٹیل براڈ بینڈ لمیٹد کو خرید کر ریلائنس نے براڈ بینڈ سروسز کے شعبے میں قدم رکھا، اس وقت انفوٹیل بھارت میں فور جی کی نیلامی جیت چکی تھی۔

2012ء میں ریلائنس انڈسٹریز کو تقریباََ 70 فیصد آمدن تیل کی صفائی، 19 فیصد پیٹروکیمیکلز، 2 فیصد تیل و گیس کی فروخت اور 3 فیصد باقی شعبوں سے آ رہی تھی۔

اسی سال ریلائنس نے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے اپنی ہوابازی ڈویژن قائم کی اور طیاروں کے انجن، ریڈار، ہیلی کاپٹر، بکتر بند گاڑیاں، فوجی اور عوامی استعمال کیلئے ڈرون بنانا شروع کر دیے۔

2022ء میں ریلائنس انڈسٹریز کو فوربز میگزین نے دنیا میں روزگار کے حوالے سے بہترین کمپنیوں کی فہرست میں بیسویں اور دنیا کی دو ہزار بہترین کمپنیوں کی فہرست میں 54 نمبر پر رکھا جبکہ فارچون میگزین نے اپنے مشہورِ زمانہ گلوبل 500 فہرست میں 100ویں نمبر پر رکھا۔

دنیا کی تقریباَ ایک سو سے زائد منڈیوں تک رسائی رکھنے کی وجہ سے مجموعی بھارتی برآمدات میں ریلائنس انڈسٹریز کا حصہ سات فیصد سے زائد ہے جبکہ بھارت کی سب سے بڑی نجی کمپنی ہونے کی وجہ سے حکومت کو کسٹمز اور ایکسائز ڈیوٹی کی کل آمدن میں سے پانچ فیصد صرف ریلائنس انڈسٹریز سے آتا ہے۔ تین لاکھ ملازمین کے ساتھ یہ بھارت کی سب سے زیادہ انکم ٹیکس دینے والی نجی کمپنی بھی ہے۔

ریلائنس انڈسٹریز کی ذیلی کمپنیوں کی کل تعداد 234 ہے جن میں سے 100 ارب ڈالر مالیت والی ملٹی نیشنل ٹیکنالوجی کمپنی جیو (Jio) بھی شامل ہے جبکہ اس کا 11 بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ کاروبار ہے۔

ریلائنس کے حصص کی کل تعداد 6.44 ارب ہے جن میں سے 49.11 فیصد پروموٹرز گروپ یعنی مُکیش امبانی فیملی کے پاس ہیں جبکہ 50.89 فیصد پبلک شئیر ہولڈرز کے پاس ہیں۔

کمپنی نے بھارت میں کئی خصوصی اقتصادی زون قائم کر کے ٹیکسٹائل، ریٹیل، مواصلات، پیٹروکیمیکل، گیس، ربڑ سازی، شمسی توانائی، لوجسٹکس، انشورنس، میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس کی کئی کمپنیوں کی مالیت 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

فوربز میگزین کے مطابق 2022ء میں ریلائنس انڈسٹریز کی سالانہ آمدن 87 ارب ڈالر، اثاثوں کی کل مالیت 192 ارب ڈالر، سالانہ منافع 8 ارب ڈالر اور مجموعی سرمایہ تقریباََ 228 ارب ڈالر رہا جو بھارتی روپوں میں 14 کھرب 81 ارب روپے بنتا ہے۔

پس ثابت ہوا کہ کچھ خواب حقیقت میں ضرور بدلتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here