ترسیلات زر کے حوالے سے 2021ء ایک بہترین سال رہا ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے گزشتہ مالی سال 2020-21ء کے دوران 29.4 ارب ڈالر کی ترسیلات زر ارسال کی گئیں جو 2003ء کے بعد بلند ترین ہیں، گزشتہ مالی سال کے دوران ترسیلات زر میں پیوستہ مالی سال 2019-20ء کے مقابلے میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
گو کہ یہ حیران کن امر ہے کہ کورونا وبا کے دوران پاکستان نہ صرف اپنی ترسیلات زر کی سطح کو گرنے سے بچانے میں کامیاب رہا بلکہ اس میں نمایاں اضافہ بھی ہوا۔ ترسیلات زر میں اضافے کی وجوہات پر کافی بات ہو چکی ہے اور پرافٹ اردو میں بھی اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
مختصراََ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانی کورونا وبا کے باعث روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے، اُنہوں نے جمع پونجی پاکستان منتقل کی تاکہ وطن واپس آ کر کوئی کام شروع کر سکیں۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ کئی تارکین وطن پاکستانیوں نے کورونا کی وجہ سے معاشی مشکلات کے شکار اپنے خاندانوں کی مدد کیلئے زیادہ رقوم بھیجیں۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ سفری پابندیوں، اور سخت نگرانی کے باعث حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوانا ممکن نہ رہا تو جائز ذرائع سے ترسیلات میں اضافہ ہوا۔ چوتھی وجہ سٹیٹ بینک کی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں کو قانونی ذرائع سے رقوم کی ترسیل کیلئے بروقت روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کا اجراء تھا۔
ترسیلات زر میں اضافہ کیوں ہوا؟
عالمی سطح پر بیرون ملک کام کرنے والے کارکنوں کی تعداد 27 کروڑ کے لگ بھگ ہے، بہت سے ترقی پذیر ممالک کے لیے تارکین وطن کی جانب سے بھجوائی جانے والی یہ رقوم اہم مالی وسائل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان ترسیلات زر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں بھیجی جانے والی ترسیلات زر کا حجم تمام ترقی پذیر ممالک میں بیرونی کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے زیادہ ہے۔ اگر اس امداد کی بات کی جائے جو ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے اُن ملکوں کو دی جاتی ہے، تو بھی ترسیلات زر کا حجم اس امداد سے تین گنا زیادہ ہے۔
دیکھنے میں تو ترسیلات زر کا نظام بہت سادہ لگتا ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ ایک چھوٹی سی معاشی سرگرمی ہے جس میں بیرون ملک کام کرنے والے کارکن اپنے آبائی دیس میں رقوم بھجواتے ہیں مگر 2019ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے 27 کروڑ تارکین وطن کارکنوں نے اُس برس 550 ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائیں جو تاریخ میں ترسیلات زر کی بلند ترین شرح ہے۔
یہ بھی پڑھیے: روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعہ ترسیلات زر 2 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں
اس کا یقینی طور پر مطلب یہ ہے کہ جن ممالک سے یہ رقوم بھیجی گئیں ان کی معاشی کارکردگی اُن ممالک سے بہت بہتر تھی جنہوں نے مذکورہ ترسیلات وصول کیں، پھر وبا کے دور میں اِن ترسیلات زر میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوا ہے۔
کورونا وبا کی معاشی تباہ کاریوں سے پیدا ہونے والی کساد بازاری کو 1929ء کی عظیم کساد بازاری کے بعد بد ترین کہا جا رہا ہے، محدود ترین معاشی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے روزگاری، صنعتی بندش اور غیریقینی کی صورت حال کے پیش نظر عالمی بینک نے دنیا کی ترسیلات زر میں 20 فیصد کمی کی پیشگوئی کی تھی، مگر ایسا ہوا نہیں۔
اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر ترسیلات زر مستحکم رہیں بلکہ بہت سے ممالک کیلئے ترسیلات زر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور انہی ملکوں میں سے ایک پاکستان بھی ہے۔
مالی سال 2018-19ء کی جولائی تا ستمبر تک کی سہ ماہی میں پاکستان کو 5.54 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں، اگلے مالی سال 2019-20ء کے اسی عرصے میں 5.45 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں، یوں ان میں معمولی کمی واقع ہوئی مگر مجموعی طور پر 2019-20ء کے دوران ترسیلات زر مالی سال 2018-19ء کے مقابلے میں 2 ارب ڈالر زیادہ رہیں تاہم مالی سال 2020-21ء کے جولائی تا ستمبر کے دوران ترسیلات زر کا حجم 7.15 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
مالی سال 2020-21ء میں ترسیلات زر میں اضافے نے ابتداء میں تو معاشی تجزیہ کاروں کو قدرے شش و پنج میں مبتلا کر دیا اور زیادہ تر عیدالاضحیٰ کی آمد کو ترسیلات زر میں اضافے کا سبب قرار دیا، مگر عید گزرنے کے بعد بھی اضافے کا سلسلہ جاری رہا۔ تارکین وطن نے زیادہ تر ترسیلات زر اس وقت ارسال کیں جب کورونا کے باعث ان کے آبائی ممالک بشمول پاکستان میں معاشی حالات خراب تھے۔
کیا ترسیلات زر میں اضافہ جاری رہے گا؟
بہت سے تجزیہ کار یہ رائے رکھتے ہیں کہ ترسیلات زر میں اضافے کا یہ رجحان زیادہ دیر جاری نہیں رہے گا تاہم حکومت اور سٹیٹ بینک آف پاکستان اپنے طور پر یہ کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں کہ قیمتی زرمبادلہ کی آمد کی اس رفتار کو مزید تیز کیا جائے۔
حال ہی میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ترسیلات زر میں اضافے کی ترغیب دینے کے لیے نیشنل ریمیٹینس لائیلٹی پروگرام کی منظوری دی ہے، یہ سکیم بہت سادہ ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی کارکنوں کو رقم بھجوانے پر مراعات دی جائیں گی جس کا دارومدار بھیجی جانے والی رقم پر ہو گا، یہ بالکل کریڈٹ کارڈ کی طرح ہے جس کے ذریعے خریداری پر آپ کو پوائنٹس ملتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی اس سکیم کا مقصد قانونی ذرائع سے ترسیلات زر بھیجنے کی ترغیب دینا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: مسلسل چودھویں ماہ ترسیلات زر 2 ارب ڈالر سے زائد رہنے کا ریکارڈ برقرار
اس سکیم کے تحت سالانہ 10 ہزار ڈالر پاکستان بھجوانے والے کو مجموعی رقم کا ایک فیصد انعام ملے گا، اگلے سالانہ 30 ہزار ڈالر پر 1.25 فیصد اور اس سے اگلے سال 30 ہزار ڈالر پر 1.5 فیصد کے حساب سے انعام دیا جائے گا، ایک پوائنٹ کی مالیت ایک روپیہ رکھی گئی ہے۔ اس حوالے سے بینکوں نے بھی، ون لنک کے ذریعے چلائی جانے والی، موبائل ایپلی کیشن متعارف کرا دی ہے جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں اینڈرائیڈ اور آئی او ایس پلیٹ فارمز پر دستیاب ہو گی۔
رقم بھیجنے کی بنیاد پر اوورسیز پاکستانیوں کو گرین، گولڈ اور پلاٹینم کیٹگریز میں تقسیم کیا جائے گا، مذکورہ ایپ میں ایک ورچوئل لائیلٹی کارڈ بھی دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ آپ اضافی کارڈ بھی رکھ سکتے ہیں۔ قانونی ذرائع سے بھیجی جانے والی کوئی بھی رقم لائیلٹی پروگرام کا حصہ ہو گی، اس میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے ارسال کردہ رقوم بھی شامل ہیں، اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے روشن اپنی کار سکیم کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو آپ کو مقامی پاکستانیوں کی نسبت ناصرف سستی گاڑی ملے گی بلکہ اس کی خریداری پر لائیلٹی پوائنٹس بھی ملیں گے۔
اس سکیم کے حوالے سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ رواں سال 2021ء میں موصول ہونے والی ترسیلات کے 25 فیصد کے برابر تارکین وطن پاکستانی اس سکیم کے لیے رجسٹر ہوں گے جن سے مالی سال 2022ء میں 13.107 ارب روپے حاصل ہوں گے۔
پوائنٹس کا استعمال کس طرح کیا جا سکتا ہے؟
اگرچہ لائیلٹی پوائنٹس بھی بالکل ویسے ہیں جیسے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے خریداری پر ملتے ہیں مگر ان کا استعمال آپ کریڈٹ کارڈ کے پوائنٹس سے مختلف اور بہتر انداز مں کر سکتے ہیں۔ ان پوائنٹس کے ذریعے آپ پی آئی اے کی ٹکٹس خرید سکتے ہیں، اضافی سامان کیلئے ادائیگی کر سکتے ہیں، بیرون ملک سے موبائل فون لانے پر ٹیکس ادائیگی کر سکتے ہیں اور گاڑی کی خریداری یا درآمد پر ٹیکس ادا کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ترسیلات زر 27 فیصد اضافے سے 29.4 ارب ڈالر کی تاریخی سطح تک پہنچ گئیں
اس کے علاوہ آپ ان پوائنٹس کو اپنے شناختی کارڈ کی تجدید ، بچوں کی سکول فیس، یوٹیلٹی سٹورز سے خریداری اور انشورنس پریمیم کی ادائیگی کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
تو اس سب کی اہمیت کیا ہے؟
رواں برس جولائی کے مہینے میں ترسیلات زر میں جون کے مقابلے میں 0.7 فیصد اضافہ ہوا تاہم گزشتہ برس کی نسبت ان میں 2.1 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس سب کے باوجود ایک چیز بہت واضح ہے اور وہ یہ کہ سٹیٹ بینک کے ڈیڑھ سال پہلے اُٹھائے گئے اقدام سے حکومت زرمبادلہ ذخائر اور روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے آس لگائے بیٹھی ہے۔ اسی لیے حکومت اور سٹیٹ بینک پاکستانی تارکین وطن کو زیادہ سے زیادہ رقوم ملک بھجوانے کی جانب راغب کرنے کے لیے سکیمیں متعارف کروا رہے ہیں، یہ لائیلٹی پروگرام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ترسیلات زر میں اضافے کے لیے بنائی جانے والی ترغیبی سکیمیں ملک کے اندر رہنے والوں کے ساتھ مناسب رویے کی عکاس ہیں جن کے ٹیکس کے پیسے سے ان سکیموں کی جانب راغب کیا جا رہا ہے۔