اسلام آباد: پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی سفارشات پر عمل درآمد کے حوالے سے نمایاں پیش رفت کی ہے جس کے بعد ملک کی مجموعی ریٹنگ میں بہتری آئی ہے۔
یہ بات انسداد منی لانڈرنگ کیلئے ایشیا و بحرالکاہل گروپ نے اپنی تیسری باہمی تجزیاتی فالو اَپ رپورٹ (ایم ای آر) میں کہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان نے مزید چار سفارشات میں تائیدی (C) و زیادہ تر تائیدی (LC) کی ریٹنگ حاصل کر لی ہے جس کے باعث فیٹف کی 40 میں سے 35 سفارشات میں پاکستان کی مجموعی ریٹنگ ’سی‘ اور ’ایل سی‘ ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان کا بھارت کیخلاف ایف اے ٹی ایف کے صدر سے رجوع کرنے پر غور
گرے لسٹ میں رکھے جانے کے بعد پاکستان نے ایف اے ٹی ایف پر سوالات اٹھا دیے
علاوہ ازیں پاکستان نے فیٹف کی 6 بڑی سفارشات میں بھی ’سی‘ اور ’سی ایل‘ کی ریٹنگ حاصل کی ہے ان میں منی لانڈرنگ، دہشت گردی کیلئے مالی معاونت کے انسداد کیلئے ہدفی پابندیاں، دہشت گردی کی مالی معاونت کے جرم، کسٹمر ڈیو ڈیلیجینس، ریکارڈ کیپنگ اور مشکوک لین دین کی رپورٹنگ کی سفارشات شامل ہیں۔
وزارت خزانہ کے مطابق فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے باہمی تجزیاتی فالو اَپ رپورٹ کے پورے عمل میں پاکستان کی نمائندگی کی اور پاکستان کی ریٹنگ کا دفاع کیا۔
اس بہتری کے بعد پاکستان فیٹف کی سفارشات کی تکنیکی پیروی میں کئی ممالک سے آگے ہے، مثال کے طور پر اگر پاکستان کی پوزیشن کا گروپ 20 سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان اٹلی، سعودی عرب اور برطانیہ کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کی وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان باہمی تجزیاتی رپورٹ 2019ء میں پائی جانے والی باقی ماندہ خلیج کو کم کرنے کیلئے اسی رفتار سے کام جاری رکھے گا اور چوتھی تجزیاتی رپورٹ میں باقی ماندہ 5 سفارشات میں بہتری لانے کی کوشش کی جائیگی۔
ترجمان کے مطابق پاکستان کیلئے تجزیاتی رپورٹ کا اجراء 2019ء میں ہوا تھا اور اُس وقت فیٹف کی 40 سفارشات میں سے 10 میں سے پاکستان کی ریٹنگ ’سی‘ اور ’ایل سی‘ تھی، پاکستان نے اس کے بعد بڑے پیمانہ پر قانونی اصلاحات کیں اور 17 قوانین و ضوابط کی منظوری دی گئی، ان قوانین سے نہ صرف نظام مضبوط ہوا بلکہ پائیداریت کو بھی فروغ حاصل ہوا۔
اس سے قبل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے 21 جون سے 25 جون تک پیرس میں ہونے والے ورچوئل اجلاس میں پاکستان کے بارے میں ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی رپورٹ پر غور کیا گیا تھا جو 5 جون 2021ء کو جاری ہوئی تھی۔
5 جون کی رپورٹ میں اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ پاکستان نے تکنیکی پیروی کی خامیوں کو دور کرنے میں نمایاں پیشرفت کی اور نتایج سے اس امر کی عکاسی بھی ہوتی ہے کہ پاکستان انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے سدباب کیلئے وضع کردہ عالمگیر معیار پر عمل درآمد پائیدار بنیادوں پر مکمل کر رہا ہے۔
تاہم 25 جون کو ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے اختتام پر تنظیم کے صدر مارکوس پلئیر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’مجموعی پیشرفت پر اطمینان ہے لیکن پاکستان کو سزائوں کا نظام بہتر بنانا ہو گا اور اقوام متحدہ کے نامزد کردہ 1373 دہشت گردوں کو سزائیں دینا ہوں گی، اس کے علاوہ ایکشن پلان کی آخری شرط سے منسلک 6 نکات پر عمل کرنا ہو گا۔‘
فیٹف کے صدر نے کہا تھا کہ ’پاکستان تاحال کئی شعبوں میں ایف اے ٹی ایف کے عالمی سطح کے معیارات پر مؤثر عمل درآمد میں ناکام رہا، اس کا مطلب ہے کہ منی لانڈرنگ کے خدشات اب بھی موجود ہیں، اسی لیے ایف اے ٹی ایف پاکستانی حکومت کے ساتھ ان شعبوں میں کام کر رہا ہے جہاں بہتری کی ضرورت ہے۔‘
جون 2021ء کے اجلاس میں بدستور گرے لسٹ میں رکھے جانے پر حکومت پاکستان کی جانب سے بھی ردعمل ظاہر کیا گیا، اس حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’اس بات کا تعین کرنا ہو گا کہ ایف اے ٹی ایف تکنیکی فورم ہے یا سیاسی؟ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس فورم کو سیاسی مقاصد کیلئے تو استعمال نہیں کیا جا رہا؟‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے 27 میں سے 26 نکات پر مکمل عمل درآمد کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ 27ویں نکتے پر بھی کافی حد تک پیش رفت ہو چکی ہے اور مزید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ’میری نظر میں ایسی صورت حال میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رہنے اور رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی، بعض قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کے سر پر تلوار لٹکتی رہے، ہم نے جو بھی اقدامات اٹھائے وہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اٹھائے۔‘