‘روپے کو مصنوعی استحکام دے کر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 60 ارب ڈالر کا ٹیکہ لگایا’

جو امیر آدمی ٹیکس نہیں دے گا وہ جیل جائے گا۔ 2023ء تک محصولات کا ہدف 7 ہزار ارب روپے تک لے جائیں گے، وزیر خزانہ شوکت ترین

1928

اسلام آباد: وزیر خزانہ شوکت ترین نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ جو امیر آدمی ٹیکس نہیں دے گا وہ جیل جائے گا۔ 2023ء تک محصولات کا ہدف 7 ہزار ارب روپے تک لے جائیں گے۔

ہفتہ کو قومی اسمبلی میں وزارت خزانہ کے مطالبات زر پر اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریکوں پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ملک میں بجٹ سازی کا جو سسٹم چل رہا ہے وہ تین سال پرانا نہیں بلکہ 74 سال سے یہی نظام ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اپنے 30 سال میں اس نظام کو بھی دیکھ لے، وہ ٹیکسیشن کا نظام بھی دیکھ لے، ہم بھی اس نظام کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہے تاہم ہم اس کو ٹھیک کر رہے ہیں۔ ہم نے اصلاحات کی بات کی، عوام کو چھت دینے، شہری علاقوں کے رہنے والوں کو کاروبار کے لئے قرض دینے اور کسانوں کے لئے زرعی قرضوں پر کام کر رہے ہیں۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں کہا گیا کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے پاس گئی، کیا ان کے دور میں یہ لوگ آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئے۔ جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو بدترین تجارتی خسارے کا سامنا تھا، روپے کی قدر میں مصنوعی استحکام کی وجہ سے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 60 ارب ڈالر کا ٹیکہ لگایا۔

شوکت ترین نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالر تھیں جو 17-2026ء میں واپس 21 ارب ڈالر پر آ گئیں۔ روپے کی قدر میں مصنوعی استحکام سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ 20 ارب ڈالر رہا اس وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ ملک کو دراصل سابق حکومت آئی ایم ایف کے پاس لے کر گئی۔

انہوں نے کہا کہ شرح نمو میں کمی کی وجہ سے ٹیکس بڑھانا آسان نہیں ہوتا، ساری دنیا میں کوویڈ کی وجہ سے شرح نمو گری، بھارت سوا 11 فیصد منفی پر گیا تاہم مشکلات کے باوجود اس بار پاکستان کی شرح نمو 4 فیصد رہی جو آئندہ سال 5 فیصد تک لے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی اس وقت 5 روپے ہے جبکہ گزشتہ حکومت 30 روپے فی لٹر چھوڑ کر گئی تھی۔ پٹرول کی قیمتیں ابھی تک نہیں بڑھائیں، وزیراعظم عمران خان غریب آدمی پر کوئی بوجھ نہیں ڈالیں گے، وہ آئی ایم ایف کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ 1972ء کے بعد ہم نے منصوبہ بندی چھوڑ دی اور سالانہ ترقیاتی پروگرام پر آ گئے، اُس وقت پاکستان ایشیا میں معاشی اعتبار سے چوتھے نمبر پر تھا اب 50 سال بعد ایک بار پھر ہم نے اکنامک ایڈوائزری کونسل بنائی ہے جس میں 22 وزارتوں کے حوالے سے قلیل المدتی، وسط المدتی اور طویل المدتی منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ جی ڈی پی پر پرائمری خسارہ 3.8 فیصد چھوڑ کر گئے ہم اسے 1.1 فیصد پر لائے آئندہ 0.6 پر لے آئیں گے۔ کوویڈ کی وجہ سے ساری دنیا کی جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں میں اضافہ ہوا تاہم پاکستان کا اس وقت بھی یہ اضافہ 0.5 فیصد رہا اس میں اب کمی ہو گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس ہدف کو 2023ء تک 7 ہزار ارب روپے تک لے جائیں گے۔ ہم ایف بی آر میں اصلاحات لے کر آ رہے ہیں۔ تھرڈ پارٹی آڈٹ متعارف کرا رہے ہیں۔ 2009ء میں ہم نے یہ شروع کیا تاہم اسے ختم کر دیا گیا تھا۔ جو امیر آدمی ٹیکس نہیں دے گا اسے گرفتار کریں گے۔

اختتام پر وزارت خزانہ سے متعلق 15 مطالبات زر پر کٹوتی کی تحریکیں ایوان میں پیش کیں گئیں جنہیں کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا اور ایوان نے یہ مطالبات زر منظور کر لئے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here