لاہور: ملک میں کپاس کے کاشتکاری رقبے میں تیزی سے کمی نے پیداوار میں مزید کمی کا خدشہ پیدا کر دیا ہے جس کے سبب کپاس کی ابتدائی تجارتی قیمت 14 ہزار روپے فی گانٹھ کی 11 سال کی بلند ترین سطح تک جا پہنچی ہے۔
انگریزی اخبار ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق کپاس اور جنرز کے تاجروں کو یقین ہے کہ ملک رواں سیزن میں 10.5 ملین گانٹھوں کا ہدف پورا نہیں کر پائے گا ملک میں کپاس کی کاشتکاری کا آغاز ہو چکا ہے۔
مارچ 2021ء میں اختتام پذیر ہونے والے سیزن کے لیے حکومت نے 11 ملین گانٹھوں کا ہدف مقرر کیا تھا جس کے مقابلے میں محض 5.6 ملین گانٹھیں ہی پیداوار ہو سکی تھی۔
اگر کسانوں کے ساتھ منسلک جنرز اور تاجروں کا اندازہ صحیح ثابت ہوا تو حکومت کو 2 ارب ڈالر سے 3 ارب ڈالر کپاس درآمد کرنا پڑے گی۔
میڈیا رپورٹ میں چئیرمین پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ پنجاب اور سندھ کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کپاس کی کاشتکاری کا رقبہ 20 فیصد سے بھی زائد کم ہو چکا ہے جس کا مطلب ملک اس سال 10.5 ملین گانٹھوں کا پیداواری ہدف تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
یہ یاد رہے کہ دونوں صوبوں کے کئی علاقوں میں کسانوں نے مکئی، گنے، چاول اور دیگر فصلیں زیادہ پیداوار کی وجہ سے بونا شروع کر دی ہیں جس سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ متوقع ہے۔