اساں تے جانا اے بلو دے گھر

کِنے کِنے جانا اے بلو دے گھر

ٹکٹ کٹاؤ، لائن بناؤ !!

آپ نے اس مشہور زمانہ گیت کو پڑھتے ہوئے گنگنانا بھی شروع کر دیا تھا، ہے ناں؟ اس گانے میں وہ سب کچھ ہے جس نے گلوکار ابرار الحق، جو ماضی میں مطالعہ پاکستان کے اُستاد تھے، کو لوگوں کے ذہنوں پر نقش کر دیا، اس گانے کی وجہ سے پنجابی پاپ میوزک کو الگ پہچان ملی، اس گانے کے پنجابی بول کچھ ایسے تھے جن میں بانکپن قدرے نمایاں تھا بلکہ اس گانے کے الفاظ دفعہ 144 کا مذاق اُڑانے کے مترادف تھے، شائد یہی وجہ تھی کہ نواز حکومت میں اس گانے کو غیراخلاقی قرار دے کر پابندی لگا دی گئی جو بہرحال عارضی تھی۔

بہت سے لوگوں کیلئے ‘بلو دے گھر’ گیت کافی معنی رکھتا ہو گا مگر اس گانے نے پیسہ نہیں بنایا، بالخصوص ابرار الحق کو اس سے خاص آمدنی نہیں ہوئی۔ انڈسڑی میں ہونے والی باتیں ایک طرف مگر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب ابرار الحق کے ساتھ اس گانے کے حوالے سے معاہدہ کیا گیا تھا وہ استحصال پر مبنی تھا جس کے نتیجے میں انہیں اس گانے سے رائلٹی کی صورت صرف ایک فیصد حصہ ملا۔

یہ بات عجیب لگتی ہے کہ پاکستان کے مقبول ترین گانوں میں سے ایک کے گلوکار کو بہ مشکل تھوڑی سی آمدنی ملی، کیا ایسا ممکن ہے؟ لیکن اس مضمون کیلئے ہم نے جتنے بھی گلوکاروں، فنکاروں اور میوزک مینیجرز کا انٹرویو کیا انہوں نے ابرار الحق کو ایک فیصد رائلٹی ملنے کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت ایسا ہی ہوتا تھا۔

پاکستان میں پاپ موسیقی کو ازحد پسند کیا جاتا ہے، آپ یوٹیوب پر جائیں تو وہاں ‘گولڈن اولڈیز’ اور ‘پیٹریاٹک اینتھمز’ کے نام سے کئی پلے لسٹس مل جائیں گی، لوگ تنقید کے نشتر چلاتے بھی دکھائی دیں گے اور دادوتحسین کے ڈونگڑے برساتے بھی، لیکن کوئی بھی گانے سے ہونے والی آمدن کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق گفتگو کرتا دکھائی نہیں دے گا۔ تو فنکار پیسہ کیسے بناتے ہیں؟ ان کی آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ اگر کوئی نوجوان گٹار لے کر گھر بیٹھے اپنی آواز کا جادو جگاتا ہے اور اپنا گانا ساؤنڈ کلاؤڈ پر اَپ لوڈ کرتا ہے تو عمر کی تیسری یا چوتھی دہائی میں پاکستان میں اس کا کئیریر اور آمدنی کتنی ہو سکتی ہے؟

کچھ موسیقی کی اصلاحات کے بارے میں

اس مضمون کے قارئین کی سہولت کیلئے بتاتے چلیں کہ اس میں انہیں پاپ اور انڈی ( Indie) موسیقی کا حوالہ ملے گا۔ تکنیکی طور پر ’پاپ‘ مقبول عام موسیقی کی مختصر شکل ہے تاہم پاکستان ایک کثیر اللسانی ملک ہےجہاں موسیقی کی ہزاروں روایات پائی جاتی ہیں لہٰذا یہ طے کرنا کہ کون سی موسیقی پاپ ہے، یہ ایک مشکل امر ہے۔

لیکن پھر بھی جب ہم پاپ میوزک کی بات کرتے ہیں تو ہمارا اشارہ گزشتہ تین دہائیوں میں سامنے آنے والے اردو زبان کے گانوں کی جانب ہوتا ہے، نوے کی دہائی کے راک بینڈ اور 2000ء کی دہائی والے ایمو (emo) بینڈ اور 2010ء کے عشرے کے الیکڑانک اور ریپ (rap) گانوں کو ذہن میں لایے۔

Image result for amna zafar
آمنہ ظفر ، بانی سی ای او چیک باکس میڈیا

تو انڈی کیا ہے؟ ویسے تو اس کا مطلب ہے آزاد، یعنی مین سٹریم میوزک بینڈز سے ہٹ کر آزادانہ کام کرنے والے میوزک گروپ۔ پاکستان میں موسیقی کا یہ شعبہ کچھ زیادہ نمایاں نہیں، اس میں زیادہ تر نئے فنکار اور ان کے مخصوص قسم کے پرستار رکھنے والے میوزک گروپ شامل ہوتے ہیں جو اکثر کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، تکنیکی طور پر یہ ‘پاپ’ سٹائل میں ہی گاتے ہیں اور مقبول ہونے کا امکان رکھتے ہیں۔

مگر پاکستان میں انڈی کی اصطلاح کا استعمال گمراہ کن بھی ہو سکتا ہے۔  موسیقار، آڈیو انجینئر اور ‘بریانی برادرز’ کی رکن زہرہ پراچہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں دراصل ہر فنکار کو انڈی کہا جا سکتا ہے کیونکہ زیادہ تر فنکار میوزک پروڈکشن کے ہر شعبے میں کام کرتے ہیں۔

اس تبصرے کے بعد دونوں طرح کے فنکاروں  اور ان کے کام کو پاکستانی میوزک انڈسٹری کا نام دینا بہتر ہو گا، مگر نتاشہ حمیرا اعجاز موسیقی کے شعبے کیلئے انڈسٹری کی اصطلاح استعمال کرنا پسند نہیں کرتیں۔ نتاشہ گاتی ہیں، گانے لکھتی ہیں اور گانے بناتی ہیں۔ پرافٹ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انڈسٹری کے بجائے ‘برادری یا گروہ ‘ (Fraternity) کا لفظ زیادہ مناسب ہے، ان کے بقول انڈسٹری کا لفظ وہاں زیادہ مناسب لگتا ہے جہاں موسیقی کیلئے بہتر مارکیٹ ہو مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔

پاکستان میں موسیقی کا شعبہ کتنا بڑا ہے؟

عام اتفاق یہ ہے کہ ایک طرف عاطف اسلم، راحت فتح علی خان اور عابدہ پروین جیسے بڑے نام ہیں اور دوسری جانب باقی سب گلوکار ہیں، ایسا اس لیے ہے کیونکہ عاطف، راحت اور عابدہ پروین بالی ووڈ میں کام کر چکے ہیں، بھارت گانے کی ایک بڑی اور عمدہ مارکیٹ ہے جہاں معاہدوں سے لے کر رائلٹی تک کا منظم نظام ہے۔

مذکورہ تینوں فنکاروں کی آمدنی پاکستان میں گلوکاروں کی آمدنی کا فرق بتانے کیلئے کافی ہے، ایک اندازے کے مطابق عاطف اسلم جیسے گلوکار ایک کنسرٹ کیلئے 70 لاکھ روپے لیتے ہیں۔

مگر یہ مضمون عاطف اسلم سے متعلق نہیں ہے، پاکستانی گلوکاروں کی اکثریت 70 لاکھ روپے آمدن کا خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی۔

چیک باکس میڈیا (سٹرٹیجک کمیونی کیشن کنسلٹینسی) کی بانی اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر آمنہ ظفر سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں آرٹسٹ مینیجمنٹ  نا ہونے کے برابر ہے جس کے نتیجے میں نئے اور نوجوان فنکاروں کو انڈسٹری میں تحفظ میسر نہیں ہے۔

آمنہ ظفر نے پرافٹ سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ان کی ٹیم اس وقت ایک 20 سالہ گلوکار اور الیکٹرونک پاپ میوزک پروڈیوسر عبداللہ صدیقی کی نمائندگی کر رہی ہے۔ عبداللہ اب تک تین البم بنانے کے علاوہ میشا شفیع اور آئمہ بیگ جیسی فنکاروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

مگر اس کے باوجود آمنہ ظفر نہ صرف عبداللہ صدیقی بلکہ دیگر نوجوان فنکاروں کے بارے میں فکرمند دکھائی دیتی ہیں۔ آمنہ ظفر کے بقول وہ جب بھی کسی فنکار کے ساتھ بات کرتی ہیں تو یہی زور دیتی ہیں کہ میں آمدن یا پیسے کا وعدہ نہیں کرتی لیکن کیرئیر اور نام بنانے اور آمدنی کے ذرائع تک رسائی میں تمہاری مدد ضرور کر سکتی ہوں۔

آمدن کے ذرائع دو طرح کے ہیں۔ ایک طریقہ تو اہمیت اور شہرت کا ہے۔ اس سلسلے میں برانڈ پلیسمنٹ، لوگوں سے ملنے والی حمایت ​​اور حاصل ہونے والی آمدنی انتہائی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ ان کی بدولت ایک فنکار نظروں میں آتا ہے۔

اس کے بعد چھوٹے ایونٹس اور کنسرٹس ایونٹس آتے ہیں اور ان کے بعد انفرادی گانوں کے لائسنس اور پلیسمنٹ  کی باری آتی ہے جو آمدن کا ایک مستحکم ذریعہ ہیں اور سب سے آخر میں فنکار کے البمز کی فروخت آتی ہے۔

زیادہ تر گلوکار انفرادی البمز سے زیادہ نہیں کماتے اور نہ ہی یہ کامیابی کی کلید ہے، یہ چیز ناصرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک حقیقت ہے کیونکہ سامعین کے میوزک سننے کا طریقہ پوری دنیا میں تبدیل ہو چکا ہے، اب لوگ پورے پورے البمز خریدنے کے بجائے سنگل ٹریک ڈاؤن لوڈ کرنا پسند کرتے ہیں۔

آمدنی کے بارے میں سوچنے کا دوسرا طریقہ فیصد (پرسنٹیج) کا نظام ہے، آواز اور مقبولیت کے درجے کے فرق کے باوجود زیادہ تر انڈی فنکاروں کیلئے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ کنسرٹ ہی ہیں۔ اس ذریعے کا ان فنکاروں کی آمدن میں 50 سے 60 فیصد حصہ ہوتا ہے۔ آمدن کا ایک اور ذریعہ سٹریمنگ جیسا کہ یوٹیوب، سپاٹیفائی اور ایپل میوزک ہے جن کا فنکاروں کی آمدن میں 15 سے  20 فیصد حصہ ہے۔

کنسرٹس کے مسائل

فرض کیجیے کہ آپ ایک ایسے نئے فنکار ہیں جسے لگتا ہے کہ کسنرٹ کی مدد سے کچھ پیسے کمائے جا سکتے ہیں  مگر ایسے میں آپ کو سب سے پہلے اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ آپ پرفارم کہاں کریں گے؟ نئے فنکاروں کیلئے مسئلہ یہی ہے کہ ان کے پاس اس ضمن میں آپشنز بہت محدود ہوتے ہیں۔

یہی معاملہ ٹرو بریو(True Brew)  ریکارڈز، لاہور میں لائیو انٹرٹینمنٹ فراہم کرنے والا ادارہ، کے ساتھ درپیش ہے۔ اس کے سربراہ اور پروڈیوسر جمال رحمان ہیں، یہ جگہ سکندرعلی کیلئے جانی پہچانی ہے کیونکہ ریپر مانوں (جن کے وہ مینیجر ہیں) یہاں  کئی بار پرفارم کر چکے ہیں، علی پروڈیوسر اور ڈی جے طلال قریشی کے مینیجر بھی ہیں اور وہ آرٹسٹ مینجمنٹ کے شعبے کا حصہ حادثاتی طور پر بنے۔ دراصل وہ  ریپر مانوں، جن کا اصل نام رحمان افشر، کے دوست تھے۔

Image result for zahra paracha
زہرہ پراچہ (موسیقار، بریانی برادرز)

آرٹسٹ مینجنٹ اگرچہ پاکستان میں ایک نئی چیز ہے مگر پھر بھی یہ کام کافی عام ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر آمنہ ظفر، عبداللہ صدیقی کے دوست کی دوست ہیں اور اسی طریقے سے وہ انڈستڑی میں متعارف ہوئیں۔

ٹرو بریو اور ڈسٹرکٹ 19 جیسے چھوٹے پلیٹ فارم ریونیو شئیرنگ ماڈل کے تحت کام کرتے ہیں، ان میں ایک وقت میں 150 لوگ جمع ہو سکتے ہیں اور آمدن  کا انحصار فنکار پر ہوتا ہے جو 70 ہزار سے ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک کما سکتا ہے۔ ایسے میں فنکار کی کمائی کا انحصار ان پلیٹ فارمز کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر ہوتا ہے، بعض دفعہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے آمدنی ہونے پر فنکار کو 50 ہزار روپے تک مل جاتے ہیں، اس حوالے سے سکندرعلی نے بتایا کہ پلیٹ فارم کی انتظامیہ اور فنکار چھوٹے موٹے اخراجات مشترکہ طور پر اُٹھاتے ہیں جیسا کہ سیکیورٹی اور ساؤنڈ وغیرہ کیلئے 20 ہزار سے 40 ہزار روپے۔

مذکورہ بالا دونوں پلیٹ فارمز پر پرفارم کرنے والے فنکار زیادہ تر نوجوان ہی ہوتے ہیں اور اگر ریپر مانوں کی بات کی جائے تو ان کی تو ابھی کالج کی پڑھائی بھی مکمل نہیں ہوئی۔ بعض فنکار یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جگہیں ان کی تمام ضروریات پوری نہیں کرتیں۔ پاپ بینڈ ٹاورز کے مرکزی گلوکار بلال بلوچ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ٹرو بریو ریکارڈنگ کی سہولت والا پاکستان کا واحد انڈی وینیو ہے۔

مگر جب بڑے کنسرٹس منعقد کروانے کی بات ہوتی ہے تو ہر ایک کا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے، پاکستان میں بڑا کنسرٹ منعقد کروانا ایک ڈراؤنا خواب سمجھا جاتا ہے، سب سے بڑی مشکل تو اس ضمن میں یہ پیش آتی ہے کہ اس کی قیمت وہ رکھی جائےکہ جس پر پاکستانی آنے پر تیار ہوں۔ پاکستانیوں کا عام رویہ یہ ہے کہ ان کی جیب سے میوزک کیلئے پیسے نکلوانا بہت مشکل ہے۔ ایسا عاطف اسلم کی صورت میں اگرچہ ہو سکتا ہے مگر جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ وہ ایک بالکل ہی الگ صورت حال ہے۔

زہرہ پراچہ اور نتاشا نورانی پچھلے پانچ سال سے ’لاہور میوزک میٹ‘ کے انعقاد میں مدد کر رہی ہیں۔ اگرچہ زہرہ اسے ایک غیرمنافع بخش منصوبہ قرار دیتی ہیں مگر ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے اس سے منافع کمانے کی کوشش نہیں کی۔ اس حوالے سے زہرہ پراچہ کا کہنا تھا کہ ”جب بھی میں نے فائنل پرفارمنس کیلئے ٹکٹ رکھنے کی کوشش کی یہ بند ہو گیا۔‘‘

ٹکٹ رکھنے کا مطلب ایف بی آر کو دعوت دینے کے مترادف ہے جبکہ ہمارے ذرائع کے مطابق دیگر کھلاڑی بھی ڈھکے چھپے طور پر کمائی میں سے حصہ طلب کرتے ہیں۔

پنجاب میں یہ چیز بہت زیادہ ہے جہاں انٹرٹینمنٹ کی آمدنی پر سرکاری ٹیکس کی شرح 40 فیصد سے  60 فیصد تک ہے، اس کے علاوہ منتظمین کو دو این او سی، ایک مقامی انتظامیہ اور دوسرا ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ سے، حاصل کرنا پڑتے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی کو کنسرٹ کروانے کیلئے کسی بیوروکریٹ سے ملاقات کرنا پڑ جائے تو اسے پھر سمجھانا پڑتا ہے کہ ایسا کرنے میں کیا اچھائی ہے۔

اس حوالے سے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے زہرہ پراچہ کا کہنا تھا کہ ”اکثر ہمیں کسی چائے پیتے ادھیڑ عمر انکل کے ساتھ اس بارے میں بات کرنا پڑتی ہے جو جواباََ  یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگ تعلیم کے بارے میں بات کریں۔ آپ کسی ایسے شخص کو کنسرٹ کی اہمیت کیسے سمجھا سکتے ہیں جو یہی نہ جانتا ہو کہ میوزک کی اہمیت کیا ہے؟ یہاں پر موسیقی کو ریاستی سرپرستی میسر نہیں ہے، ریاست کو اس میں دلچسپی ہی نہیں۔”

پنجاب میں مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اکثر سندھ میں کنسرت کروانا پڑتے ہیں کیونکہ وہاں یہ کام نسبتاً آسان ہے لیکن اس کے ساتھ بھی ایک اور مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ ہر فنکار کراچی آنے کیلئے 20 ہزار روپے کا ہوائی ٹکٹ اور یہاں رہائش افورڈ نہیں کر سکتا۔

ایسے میں سالٹ آرٹ نامی ایک تنظیم، جو سندھ میں کنسرٹ منعقد کرواتی ہے، گلوکاروں کیلئے ریونیو شئیرنگ ماڈل پر ہی ایک متبادل پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کر رہی ہے مگر یہ جس لگژری علاقے میں قائم ہے اور جو اس کے ٹکٹ کی قیمت ہے یعنی پانچ ہزار، اس کا تو مطلب یہی ہے کہ یہاں ایک مخصوص طبقہ ہی گانا سننے کیلئے آئے گا۔

اس حوالے سے ہمارے ذرائع نے بتایا کہ بہت سے ریپرز سالٹ آرٹ کے ساتھ کام کرنا نہیں چاہتے کیونکہ یہ ان کے اس خیال سے مطابقت نہیں رکھتا کہ موسیقی تک کن لوگوں کو رسائی ہونی چاہیے۔

برانڈز کے مسائل

ریاستی سرپرستی کی عدم موجودگی میں سرمایہ دارانہ نظام حرکت میں آ جاتا ہے اور پاکستان میں یہی ہو رہا ہے جہاں برانڈز موسیقی کا مستقبل طے کر رہے ہیں۔ کوک سٹوڈیو، پیپسی بیٹل آف بینڈز، نیس کیفے بیسمنٹ،  ویلو ساؤنڈ سٹیشن حتیٰ کہ  بسکونی، یعنی کہ خدا کی پناہ، ایک بسکٹ برانڈ بھی میوزک شو بنا رہا ہے۔

ان برانڈز کے بارے میں پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن اس مضمون میں ہم ان کے دو پہلوؤں یعنی قانونی معاہدوں اور آمدنی پر بات کریں گے۔

2018ء میں پیپسی بیٹل آف بینڈز کے فاتح ‘بیان’ بینڈ نے اس مقابلے میں شامل ہونے سے لے کر ٹاپ ٹونٹی، ٹاپ ٹین اور فائنل تک پہنچنے کیلئے کئی معاہدے کیے، بیان کو کامیابی پر ایک البم بنانے کیلئے ایک سالہ معاہدہ الگ سے کرنا پڑا، ایک میوزک ویڈیو بنانے کیلئے کچھ رقم ملی اور مقالہ جیتنے پر 50 لاکھ روپے ملے جو بینڈ کے تمام ارکان میں تقسیم ہوئے۔

پرافٹ کے ساتھ اس حوالے سے بات  کرتے ہوئے ‘بیان’ کے سانگ رائٹر اور گٹارسٹ مقیط شہزاد کا کہنا تھا ”یہ ایک تجربہ تھا جس سے ایک طرف تو ہمارے بینڈ کو کافی شہرت ملی، دوسرا یہ کہ انعامی رقم سے ہم چند میوزک ویڈیوز بنانے میں کامیاب ہو گئے جو دوسری صورت میں اپنی جیب سے بنانا تقریباََ ناممکن تھا۔”

پرافٹ نے اس موقع پر استفسار کیا کہ آیا کہ مذکورہ میوزک ویڈیوز کیلئے برانڈ (پیپسی) کی جانب سے کوئی شرط رکھی گئی تھی؟

May be an image of 1 person
مقیط شہزاد، گٹارسٹ، نغمہ نگار (بیان بینڈ)

جواب میں مقیط شہزاد نے جواب دیا کہ انہوں نے چار میوزک ویڈیوز بنائیں، ایک ویڈیو بناتے ہوئے ہمیں لال رنگ پہننے سے منع کر دیا گیا کیونکہ یہ کوک کا رنگ ہے مگر ہم یہ بھول گئے تھے کہ ہمارے لیڈ سنگر نے لال رنگ کا مفلر پہنا ہوا تھا، بعد میں احساس ہونے پر ہم نے مفلر کا رنگ تبدیل کرنے کی کوشش کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘برانڈز کے ساتھ کام کرتے ہوئے جو چیز بہت اہمیت رکھتی ہے وہ یہ کہ وہ (برانڈ) میوزک کے بارے میں کیا سوچتا ہے  اور تخلیقی عمل میں کتنی مداخلت کرتا ہے۔ پیپسی کا معاملہ کچھ اس طرح مختلف تھا کہ انہوں نے کنٹریکٹ دیا تھا۔ زیادہ تر فنکار جو اس طرح کے شوز کا حصہ بنتے ہیں انہیں ایک مخصوص رقم دی جاتی ہے۔ اپنے قد کاٹھ کی بناء پر فنکار ڈیڑھ لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تک معاوضے کی توقع کرتے ہیں۔ ان  شوز کی وجہ سے فنکار کو شہرت تو مل جاتی ہے اس کے کام کے حقوق اور رائلٹی برانڈ کے پاس ہی رہتی ہے۔

آمنہ ظفر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ کسی بھی کمپنی کی اولین ترجیح اپنا تشخص اجاگر کرنا ہوتی ہے، اس کی کاوشیں اپنی مصنوعات اور منافع کیلئے ہوتی ہیں اور ایک کمپنی کو زندہ رہنے کیلئے پیسہ بناتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس کے اچھے کام بھی اس چیز کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔

رائلٹی کا جھنجھٹ

مقیط شہزاد کہتے ہیں کہ پیپسی تخلیقی عمل کے حوالے سے کافی فیاض اور برانڈ کی ترقی میں انتہائی مددگار تھا۔ مگر جب آپ رائیلٹی کے بارے میں پوچھتے ہیں تو مقیط خاموش ہو جاتے ہیں۔ پتہ یہ چلا کہ ’بیان‘ کی جانب سے بنائے گئے گانے پیسپی کے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کیے گئے لیکن ان کی مونیٹائزیشن نہیں کروائی گئی اور ‘بیان’ کو ان سے کوئی آمدنی نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ پیپسی بیٹل آف بینڈز نے ان کا کوئی گانا سپاٹی فائی یا ایپل میوزک پر بھی اپ لوڈ نہیں کیا جہاں سے سٹریمنگ کی مد میں آمدن ہو سکتی تھی۔

نتاشا ہمیرا اعجاز کا کہنا ہے کہ ”رائلٹی اور لائسنس یا اس کی غیرموجودگی ایک فنکار کیلئے پیسہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ یا بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ فنکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ درست لائسنسنگ کے حصول کو یقینی بنائیں کیونکہ برانڈز اس کی پرواہ نہیں کریں گے۔ بطور فنکار اپنے فن کے ذریعے اپنے لیے پیسہ بنانا آپ کا حق ہے، فنکاروں کو اپنے معاہدوں کے بارے میں ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے، انہوں نے بتایا کہ ماضی میں وہ کبھی کبھار اپنی خدمات کے عوض بہت زیادہ فیس لیتی تھیں جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ رائلٹی نہیں لیں گی۔

اگرچہ فنکاروں کو اپنے معاہدوں کے ذریعے پیسہ بنانے کیلئے کافی جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے مگر ایک پلیٹ فارم ایسا بھی ہے جس نے ان کی قانونی پوزیشن کو مضبوط بنا دیا ہے اور وہ ہے ای ایم آئی پاکستان۔ یہ کمپنی اس بات کو غیرمعمولی حد تک یقینی بناتی ہے کہ اسے اس کے ہر گانے کے پیسے ملیں۔  یہ پاکستان میں گانوں کا ذخیرہ رکھنے والا بہت بڑا پلیٹ فارم ہے  اور ایک ایسے وقت میں، جب تقریباً ہر برانڈ اپنے شوز میں پرانے گانوں کی ری مکسنگ کر رہا ہے، ایسے میں اس پلیٹ فارم کا کاروبار بے انتہا پرکشش اور منافع بخش بن گیا ہے۔

تاہم ہمارے ذرائع نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ای ایم آئی پاکستان سے گانے کے حصول کیلئے بے حد تھکا دینے والا اور ناپسندیدہ فارم فل کرنا پڑتا ہے جس کو پُر کرتے ہوئے غلطی ہونے پر سارا کام دوبارہ سے کرنا پڑتا ہے اور اس کی منظوری میں ہفتوں لگ سکتے ہیں۔ کئی لوگ یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ ای ایم آئی کے پاس وہ کرنے کیلئے، جو دیگر ریکارڈز کرتے ہیں، کافی پیسہ ہے۔ یعنی نئے فنکاروں اور آوازوں کو پروموٹ کرنا۔ مگر ای ایم آئی نئے گانے بنانے کے بجائے  مبینہ طور پر دہائیوں پرانے گانوں سے پیسہ بنانے میں اطمینان محسوس کرتا ہے۔

اگر آپ مرد نہیں ہیں تو کیا ہوتا ہے؟

پاکستانی میوزک انڈسٹری کی دیگر خرابیوں کے علاوہ جنس بھی اس شعبے میں آمدنی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس حوالے سے زہرہ پراچہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی خاتون پروڈیوسر ہے تو اسے مرد پروڈیسر کی نسبت دو گنا قابلیت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، وہ پاکستانی میوزک انڈسٹری میں بطور آڈیو انجینئیر بھی کام کر تی ہیں اور ان کے بقول ان کے علاوہ انڈسٹری میں یہ کام بس تین دیگر خواتین کرتی ہیں لہٰذا قابلیت دکھانے کا زیادہ بوجھ انہیں پر ہے۔

معاوضے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے زیادہ پراعتماد ہوتے ہیں اور بعض دفعہ وہ اتنے پیسے بھی مانگ لیتے ہیں جتنے کے وہ مستحق بھی نہیں ہوتے مگر خواتین ایسی نہیں ہیں جس کا اثر ان کی آمدنی پر پڑ رہا ہے ۔

Image result for natasha humera ejaz
نتاشہ حمیرا اعجاز (گلوکارہ، نغمہ نگار اور شاعرہ)

یہی معاملہ گلوکاری کے شعبے میں بھی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ  آئمہ بیگ جیسی گلوکاراؤں کو مرد گلوکاروں کی نسبت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔

نتاشا ہمیرا اعجاز تو انڈسٹری میں پائے جانے والے صنفی امتیاز سے بہت عاجز آ چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ  وہ اب صنفی امتیاز برتنے والے کلائنٹس کے ساتھ بات تک نہہں کرتیں۔

زہرہ پراچہ نے مزید بتایا کہ صنفی مساوات کی فضا بنانے کی کوشش میں کچھ برانڈز اور ان کے کرتا دھرتا خواتین کا نمائشی استعمال کرتے ہیں جو کہ اپنے آپ میں ایک بے حد معیوب فعل ہے، کوئی بھی سنجیدہ فنکارہ اس طرح کا کام کرنا پسند نہیں کرتی۔

سٹریمنگ ہی آخری سہارا

سپاٹی فائی فنکاروں کو اچھی آمدنی نہیں دیتا یہ ایک حقیقت ہے۔ اعدادوشمار مختلف ہو سکتے ہیں البتہ یہ پلیٹ فارم ہر سٹریم پر اوسطاََ صرف 0.0032 ڈالر دیتا ہے۔ سکندرعلی کے مطابق ریپر مانوں نے اس پلیٹ فارم سے ایک سال میں دو سو سے پانچ سو ڈالر تک کمائے جبکہ مقیط شہزاد کے مطابق ‘بیان’ نے تقریباً 1800 ڈالر سات ماہ کے اندر کمائے مگر اس میں ایپل میوزک سے حاصل ہونے والی کمائی بھی شامل ہے۔

مسئلہ پیسے کمانے کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ سپاٹی فائی پاکستان میں موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فنکار کو اپنے پیسے حاصل کرنے کیلئے امریکا یا کینیڈا میں رہنے والے کسی دوست سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ یہ پیسے پہلے اپنے اکاؤنٹ اور پھر پاکستان ٹرانسفر کر دیں۔ بعض دفعہ ہوتا یہ ہے کہ کمائی کا حجم ٹرانسفر فیس سے چھوٹا ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ پاکستان میں سپاٹی فائی ہے کس کے پاس؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی دوسرے ملک میں اس پلیٹ فارم تک رسائی حاصل کی، یا وہ لوگ ہیں جن کے پاس اس کا ہیک شدہ ورژن ہے۔

مگر اب یہ منظر نامہ تبدیل ہونے جا رہا ہے کیونکہ جلد ہی سپاٹی فائی پاکستان کام شروع کر دے گا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سپاٹی فائی خود پاکستان آ جائے گا بلکہ اس کے بجائے Httpool  نامی ایک کمپنی ملک میں داخل ہو گی جو دنیا بھر میں میڈیا پلیٹ فارمز کی ایک بڑی پارٹنر ہے۔ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان میں اس کمپنی کی سب سے پہلی پراڈکٹ سپاٹی فائی ہو گی۔

فراز احمد Httpool کے کلائنٹ پارٹنر اور موسیقار ہیں، وہ نیس کیفے سیزن فائیو کے پراجیکٹ مینیجر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں، انہوں نے پرافٹ کو بتایا کہ ”وہ چانس پر بہت زیادہ یقین رکھتے ہیں، بعض چیزیں آپ کے کنٹرول میں نہیں ہوتیں جیسا کہ آپ مشہور ہوں گے یا نہیں اور لوگوں کو آپ کا گانا پسند آئے گا یا نہیں۔ مگر کچھ چیزیں آپ کے کنٹرول میں ہوتی ہیں جیسا کہ اپنے مفاد کا تحفظ۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ فنکاروں کو اپنے حقوق کا علم ہونا ضروری ہے اور انہیں میوزک کمپنیوں کے ساتھ پیسے کے حوالے سے مسلسل سخت رویہ ہی رکھنا چاہیے تاہم وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نئی نسل کے کچھ فنکار اپنے حقوق اور کاروبار کے حوالے سے  آرٹسٹوں کی پچھلی نسل کی نسبت زیادہ شعور رکھتے ہیں۔

علی عظمت کی مثال دیتے ہوئے فراز احمد کا کہنا تھا کہ چاہے کسی کو ان کی موسیقی پسند آئے یا نہ آئے، وہ انڈسٹری کو اپنے مطابق چلانے میں کامیاب ہیں۔ پاپ سنگر شمعون اسماعیل اور عاصم اظہر کی حکمت عملی بھی بہترین ہے، لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو ہر طرف چھائے ہوئے ہیں، انہیں برانڈ ڈیلز بھی مل رہی ہیں مگر لوگ یہ نہیں جانتے کہ دنوں گلوکاروں نے کتنی محنت کی ہے۔ شمعون کا پہلا گانا جٹ بلیوز سات سال پہلے آیا تھا، سات سال کوئی مذاق کی بات نہیں۔”

فراز احمد یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سپاٹی فائی پاکستان میں فنکاروں کیلئے ڈیجیٹل اکانومی کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہت سے فنکار بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ مقیط شہزاد کا کہنا ہے کہ ان کے زیادہ تر سامعین کا تعلق سپاٹی فائی انڈیا یا پھر بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں سے ہے۔ سپاٹی فائی کی پاکستان میں دستیابی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں سے پیسے کمانا ایک اچھی تبدیلی ہو گی۔

سکندرعلی کہتے نے کہا کہ سپاٹی فائی پاکستان میں میوزک بینڈز کی زندگی بدل سکتا ہے، ان کا اشارہ سپاٹی فائی انٹرنیشنل کا حصہ بننے پر میٹل بینڈ ٹکا ٹک کی ترقی کی طرف تھا۔

اُدھر زہرہ پراچہ تو سپاٹی فائی کی پاکستان میں دستیابی سے بہت پُرامید ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ یہاں ہر کوئی اس کا انتظار کر رہا ہے مگر گلوکار بلال بلوچ سمجھتے ہیں کہ سپاٹی فائی پاکستان میں فنکاروں کو درپیش اہم مسائل اور رکاوٹوں کو دور نہیں کر سکے گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here