اسلام آباد: ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کو ملک میں پانی کا ضیاع روکنے اورصاف پانی کی فراہمی کے لیے سالانہ 6 ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
ایک اندازے کے مطابق صاف پانی کی فراہمی اورپانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے 2.3 فیصد کے قریب (ملکی ترقی کی شرح) کے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
‘ایشین واٹر ڈویلپمنٹ آؤٹ لک 2020’ نامی ایک رپورٹ میں ایشیا اور پیسیفک میں پانی کو محفوظ کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے، ایشیا اور پیسیفک میں 2015 سے 2030 تک پانی کی محفوظ سپلائی تک رسائی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے سالانہ 198 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
یہ تخمینہ عالمی بینک کی رپورٹ کے اعدادوشمار پر مبنی ہے جس میں سرمائے، بحالی اور آپریشن کے اخراجات شامل ہیں، یہ اعدادوشمار 2015 تک کی نکاسی آب اور پانی کی سپلائی تک رسائی کے خلاء اور رسائی کے بغیر منسلک کرنے کی لاگت سے اخذ کیے گئے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ بنیادی ضرورتوں تک رسائی کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کی سطح کو بہتر اور برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کا پاکستانی کرنسی میں پہلے بانڈ کا اجراء
بلوچستان میں صاف پانی کے 12 منصوبوں کیلئے 350.20 ملین روپے مختص
کیا چاند پر پانی موجود ہے؟ ناسا کی نئی تحقیق
’جنوبی ایشیا میں 134 ملین انسان پینے کے صاف پانی سے محروم‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کی سپلائی اور نکاسی آب کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے کے لیے چین کو (60 ارب ڈالر سالانہ) اور بھارت کو (22 ارب ڈالر سالانہ) صَرف کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماسوائے چند آؤٹ لائرز کے اے ڈی بی کے زیادہ تر (تمور لیستے، افغانستان، نیپال، پاکستان) نمائندوں کو 2015-2030 کے درمیان پانی کی سپلائی اور نکاسی آب کے انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لیے ملکی جی ڈی پی کے ایک سے دو فیصد (ان ممالک کی شرح نموکے تخمینے کی بنیاد پر) تک مختص کرنا ہو گا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 2021 سے 2030 تک ایشیا اور پیسیفک میں پانی کی محفوظ فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
سیاسی ایجنڈے کی وجہ سے ان ممالک کو سرمایہ کاری کے لیے فنڈز فراہم کرنے میں مسائل ہیں۔ پانی کی حفاظت کو بہتر بنانے کی سماجی اور ماحولیاتی وجوہات کے علاوہ پانی کی سرمایہ کاری کے لیے ایک معاشی کیس بھی ہے۔
معاشی اثرات کو کم کرنے اور اس پر قابو پانے کے لیے کے لیے واٹر رسک کا اندازہ لگانا بہت ضروری ہے۔ خطے میں 2003 سے 2013 تک موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والی تباہیوں کے ذریعے 750 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے، ان تباہ کاریوں کے باعث میانمار، فلپائن، بنگلہ دیشن، ویت نام اور تھائی لینڈ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پانی کی حفاظت، ماحول کو بہتر کرنے اور معاشی ترقی کے لیے واٹر مینجمنٹ ضروری ہے۔