آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں مالی سال 2019 میں 166 ارب کی ‘ ٹیکس چوری ‘کا انکشاف

قابل اطلاق ٹیکسوں کے سینکڑوں کیسز میں ایف بی آر ٹیکسوں کا ادراک ہی نہیں کرسکا یا پھر درست اندازہ نہیں لگا پایا، کئی کیسز میں دانستہ اور متعدد میں غیر دانستہ طور پر ٹیکس چھوٹ دی گئی، درآمد شدہ اشیا کی مالیت اور کلاسیفیکیشن کے غلط اندراج کے باعث بھی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا

1123

اسلام آباد : آڈیٹر جنرل آف پاکستان ( اے جی پی ) نے اپنی ایک رپورٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اکاؤنٹس میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے جنھیں ‘ ٹیکس چوری’ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

اے جی پی نے یہ نشاندہی  ایف بی آر کے اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ برائے سال 2018-19ء میں کی ہے جسے آئندہ چند ہفتوں میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

رپورٹ میں سپلائی اینڈ سروسز کے  199 کیسز میں قابل اطلاق 16.64 ارب روپے کے ٹیکس کی عدم وصولی کا ذکر ہے، 77 کیسز میں انکم ٹیکس ریٹرنز کی نسبت سیلز ٹیکس کم پایا گیا جبکہ 144 کیسز میں اصل آمدن چھپانے کے باعث 24.27 ارب روپے کی کم ٹیکس آمدن کا انکشاف ہوا ہے۔

اس کے علاوہ اے جی پی رپورٹ میں ایف بی آر اکاؤنٹس میں آٹھ کیسز میں غلط طریقے سے ایڈجسٹمنٹ کیے جانے کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو 188 کیسز میں 5.28 ارب روپے کا ریونیو اکٹھا کرنے میں ناکام رہا اور اس نے 255 کیسزمیں ان پٹ ٹیکسز میں قانونی ضروریات پوری کیے بغیر ایڈجسٹمنٹس کی اجازت دی جس سے قومی خزانے کو 5.65 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

یہ بھی پڑھیے: 

فرضی ناموں پر خریداری، اربوں روپے کی ٹیکس چوری کا انکشاف

ایف بی آر کے حیدرآباد، ملتان میں چھاپے، کروڑوں کی ٹیکس چوری پکڑی گئی

ایف بی آر اور بڑے ریٹیلرز کے درمیان ٹیکس چھوٹ کا معاہدہ طے پا گیا

مزید برآں ایف بی آر نے 134 کیسز میں آمدن کا اندازہ نہیں لگایا جس کی وجہ سے 11.1 ارب روپے کے ریونیو کا نقصان ہوا جبکہ 123 کیسز میں مجموعی طور پر سپر ٹیکس کی مد میں 16.03 ارب روپے کم وصول کیے اور12 کیسز میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 1.089 ارب روپے اکٹھے نہیں کیے۔

اے جی پی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 536 کیسز میں ٹیکس کریڈٖٹ کی مد میں 8.96 ارب روپے کی غلط ایڈجسٹمنٹ کی گئی، 477 کیسز میں 7.16 ارب روپے کا ٹیکس وصول ہی نہیں کیا گیا، 991 کیسز میں 11.34 ارب روپے کے وِد ہولڈنگ ٹیکس کو حتمی محصول تصور نہیں کیا گیا جبکہ 11  سپلائرز اور کنٹریکٹرز سے وِد ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں 568.34 ارب روپے وصول نہیں کیے گئے۔

قبضے میں لی گئیں اشیاء کے 1080 کیسز میں ڈسپوزل نہ ہونے کی وجہ سے 3.29 ارب روپے کا ریونیو حاصل نہیں کیا جا سکا جبکہ 6 ہزار 874 کیسز میں 2.56 ارب روپے کا ویلیو ایڈڈ ٹیکس اکٹھا نہیں کیا گیا۔

اس کے علاوہ 3 ہزار 54 کیسز میں درآمد شدہ اشیا کی غلط کلاسیفیکیشن کی وجہ سے 89 کروڑ 60 لاکھ روپے کا ریونیو وصول نہیں کیا جا سکا۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایف بی آر نے 2 ہزار 63 کیسز میں ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں  1.47 ارب روپے کی غیر قانونی چھوٹ دی۔

مزید برآں 2 ہزار 332 کیسز میں درآمد شدہ اشیا کی مالیت کم ظاہر کرکے 75 کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کی گئی جبکہ ایف بی آر نے ایک ہزار 668 کیسز میں  14 کروڑ  58 لاکھ کے کیش ایوارڈ، 223 کیسز میں 12 کروڑ 72 لاکھ روپے کے سپیشل الاؤنسزغیر قانونی طور پر دیے گئے۔

ایف بی آر کی جانب سے ان بے ضابطگیوں کی بنا پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں ایسا نظام بنانے کی تجویز دی ہے جو سیلز ٹیکس ریٹرن کے ڈیٹا میں غلطی یا فرق کی نشاندہی کر سکے۔

علاوہ ازیں معاف کیے گئے ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی ریکوری کے لیے قوانین کا اطلاق اور ان پٹ ٹیکسوں کی مد میں دعویٰ جات کی آن لائن تصدیق کے نظام کی تشکیل کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here