ٹڈی دل کا حملہ نیا مگر گندم کا بحران تو نیا نہیں!

اگرچہ ٹڈی دل نے پاکستان میں فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، گندم کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے جس سے بحرانی کیفیت اور گندم کی قلت کا خدشہ ہے، اس بحران کی سب سے بڑی وجہ بنا سوچے سمجھے کرپشن کے لیے کی جانے والی برآمد ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے

2498

بالآخر ٹڈی دل نے پاکستان میں فصلوں پر حملہ کر ہی دیا، ایسا کیسے اور کیوں ہوا؟ اس کی کہانی بہت افسوس ناک ہے، دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے کہا جائے تو ایسا وفاقی حکومت کی غفلت اور یہ خیال کرنے پر پیدا ہوا کہ ٹڈی دل درد سر بنے بغیر ہی ختم ہو جائیں گے۔

رپورٹس کے مطابق ٹڈیوں کا پہلا لشکر 2019ء کے وسط میں متحدہ عرب امارات سے آیا جس کے چند ہی ہفتوں بعد ایران سے دوسرے لشکر کی آمد ہوئی اور حکومت کو اس بارے میں  بارہا خبردار کیا گیا کہ یہ مسئلہ ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔

مئی 2019ء میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر محمد اکرم دشتی پارلیمنٹ میں اپنی تقریروں کے ذریعے صوبے میں ٹڈی دل کے حملے کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرواتے رہے، مگر حکومت نے مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرنے میں سال بھر کا عرصہ لگا دیا  اور 2020 کے شروع میں انسداد ٹڈی دل کے حوالے سے ہنگامی صورت حال کا نفاذ کر دیا۔

عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کے حملے کا زور نومبر کے وسط میں کم ہو گا، حکومت نے پیشگی اقدامات کے طور پر اس کے انڈوں کو تلف کرنے کے بجائے مسئلے کی شدت کم ہونے کا انتظار کرنے کی پالیسی اپنائی۔

ادھر موسم کی صورت حال ٹڈی دل کی افزائش نسل کے لیے سازگار ہے اور ایسے میں حکومتی غفلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کا دوسرا حملہ 20 گنا بڑا ہو گا۔

یہ ٹڈیاں پانچ کروڑ کے لشکر کی صورت میں ایک دن میں 90 میل کا سفر طے کرسکتی ہیں اور ایک سکوائر میٹر کے علاقے میں ایک ہزار انڈے دے سکتی ہیں۔

سینیٹر اکرم دشتی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مسئلے پر قابو پایا جا سکتا تھا، ’میں نے اس کی نشاندہی اُس وقت کی تھی جب یہ بلوچستان کے ایک ضلع تک محدود تھا، یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس سے نمٹنے میں کسانوں کی مدد کرتی لیکن بد قسمتی سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے حکومت سے بارہا سپرے کرنے کا کہا مگر میری ایک نہیں سنی گئی، تاہم اب بہت دیر ہوچکی ہے اور اب بے شمار لوگ فاقہ کشی کا شکار ہوں گے۔‘

سینیٹر دشتی کی بات بالکل درست ہے، اب حکومتی حلقوں میں خوراک کی قلت کے خدشات پھیلنا شروع ہو گئے ہیں کیونکہ کم و بیش پورے ملک میں کسان اس آفت کی لپیٹ میں ہیں۔

عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف او) کے مطابق ٹدی دل کے حملے کے باعث پاکستان کو سردیوں کی فصلوں جیسا کہ گندم اور آلو کی مد میں 353 ارب  روپے جبکہ گرمیوں کی فصلوں کی مد میں 464 ارب روپے کا نقصان ہو گا۔

ڈبلیو ایف او کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس نے صحت، خوراک اور نظام زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے ایسے میں ٹڈی دل پر قابو پانا اور بھی اہم ہو جاتا ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں معاشرے کے کمزور طبقے کے حالات مزید دگرگوں ہوجائیں گے۔

ایک برطانوری جریدے نے پاکستان مں ٹڈی دل کے حملے کے بارے میں لکھا کہ ’ایک ملک جس کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 20 فیصد ہے اور اسکی 65 فیصد آبادی اس شعبے سے منسلک ہے، اس کے لیے یہ ایک تباہ کن آفت ہے۔‘

جریدے نے لکھا کہ ’پاکستان میں مہنگائی پہلے ہی 12 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور کورونا وبا کے باعث اس کی مالی مشکلات میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہو چکا ہے۔‘

ٹڈی دل کے حملے کے بعد پاکستان میں آٹے اور سبزیوں کی قیمت میں 15 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور اگر مسئلے پر بروقت قابو نہ پایا گیا توعوام کے لیے بنیادی اشیائے ضروریہ خریدنا مشکل ہو جائے گا۔

سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ کے وزیر زراعت کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کا یہ حملہ پچھلےسال کی نسبت 10 گنا زیادہ طاقتور ہے اور یہ معیشت کے لیے تباہ کن ہے۔

’ٹڈی دل تین اطراف سے حملہ آور ہیں، اس کے انڈے اَب 50 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیل چکے ہیں اور 50 لاکھ ایکڑ رقبہ پر فصلیں متاثر ہونے کا خطرہ ہے، ٹڈی دل اب سندھ اور بلوچستان کے بعد پنجاب میں بھی تباہی مچا رہے ہیں۔‘

پریشانی کی بات کیا ہے؟

پاکستان میں ٹڈی دل کے خطرناک حملے نے ہر کسی کو متوجہ کیا ہے، مقامی و بین الاقوامی میڈیا میں اس پر بات ہو رہی ہے مگر ایک چیز جس پر ابھی تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی وہ ٹڈی دل کے حملے کے نتیجے میں گندم کی  قلت اوراس کی قیمتوں میں اضافہ ہے، یہ ایسی چیز ہے کہ وباء کے دنوں میں اس کی طرف دھیان نہ جانا معاملے کی سنگینی کو ظاہر کرتا  ہے۔

خوراک کی کمی اور اس کے ساتھ گندم کی قیمت میں اضافہ اور اس سمیت دیگر غذائی اجناس کی درآمد ناگزیر نہیں ہے جس بات پر دھیان نہیں دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ درآمدات میں اضافے کے معیشت پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

خوراک کا بحران کوئی ایسی چیز نہیں جس کا سامنا ایک مرتبہ ہی ہو اور حکومت اس سے نمٹنے کے لیے کچھ اضافی ادھار لے کر وقت گزار لے، اس بحران کا قلیل مدتی حل کچھ بھی ہو مگر اس کے معیشت پر طویل عرصے تک مضر اثرات ہوتے ہیں خاص طور پر پاکستان جیسی معیشت پر۔

وزیر زراعت سندھ، محمد اسماعیل راہو

گندم کی قلت کے اثرات بہت سے افراد، صنعتوں اور ان کی پیداوار پر ہوتا ہے، اس سے صرف کسان ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ اس کا اثر تھریشر، فلور ملوں ، ٹرانسپورٹ اور گندم کی ذیلی مصنوعات بنانے والی کمپنیوں پر بھی پڑتا ہے۔

ممکن ہے کہ حکومت  گندم اور اس کی تمام ذیلی مصنوعات کھپت کے مطابق مارکیٹ میں مہیا کر دے مگر گندم کی کم فصل سے ٹرانسپورٹ اور اس سے جڑے دیگر سیکٹرز کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیسے ہو گا؟

ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ قلت کے خدشے کے باوجود گزشتہ برس پاکستان نے سات لاکھ ٹن گندم برآمد کی، کچھ حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ صرف افغانستان کو 40 ہزار ٹن گندم برآمد کی گئی اور یہ تجارت سے زیادہ سفارت کاری کا ایک حربہ تھا، یہاں یہ یاد دلانا بہتر ہوگا کہ 2018ء میں برآمد کے باوجود ملک میں گندم کی قلت نہیں ہوئی تھی۔

 گندم جیسی بنیادی غذائی جنس کی تجارت ملک میں فصلوں کے حوالے سے استحکام پیدا کرنے والی پالیسی کے مطابق کی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے نتائج کا ادراک کیے بغیر گندم کی برآمد کی اجازت دینا بلاشبہ کرپشن کا ایک حربہ ہے جس کے ملکی معیشت پر دورس اثرات ہو سکتے ہیں۔

گندم کی درآمد کے معیشت پر اثرات 

گندم کی موجوددہ قلت کے تناظر میں اس کی درآمد کے ملکی معیشت پر اثرات کا اندازہ  2007-08 میں اس اقدام کے نتیجے میں پیش آنے والی معاشی صورتحال سے لگایا جا سکتا ہے۔

موجودہ بحران ہوسکتا ہے کہ ماضی سے مختلف ہو مگر وجوہات کم و بیش ایک سی ہی ہیں، عالمی منڈی میں گندم کی قیمت مقامی سطح سے بڑھ گئی تھی لہٰذا احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر اسے ضرورت سے زیادہ  برآمد کر دیا گیا۔

2007-08ء میں جب ملک میں ضرورت سے زیادہ گندم موجود تھی تو وزیراعظم شوکت عزیز کی حکومت نے 43 لاکھ ٹن گندم برآمد کردی، عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھتی رہیں اور ہمارے مقامی برآمدکنندگان کو ملک کے لیے زرمبادلہ کمانے کا لالچ دے کر گندم کی برآمد جاری رکھی یہاں تک کہ پاکستان میں گندم کی قلت ہو گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ باہر سے مہنگے داموں گندم منگوا کر ملکی ضروریات پوری کرنا پڑیں۔

2008ء کی دوسری ششماہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے گندم کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ کردیا، اس دوران عالمی منڈی میں قیمتوں میں کمی آنا شروع ہو گئی، نتیجتاََ مقامی سطح پر قیمتوں سے کم رہیں البتہ 2011 میں ان میں ہلکا سا اضافہ ہوا۔

اُس وقت نہ صرف گندم کے پیداواری شعبے کی آمدنی میں خوب اضافہ ہوا بلکہ اس سے منسلک مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھیں جس کے نتیجے میں دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔

اب ایک بار پھر حکومت نے گندم کی لامحدود درآمد کی اجازت دے دی ہے جس کے تحت تین لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے گی جس میں کچھ اضافہ ہوسکتا ہے اور یہ مالی سال کی پہلی ششماہی کیلئے ہے۔

ابھی گندم پر بے موسمی بارشوں اور ٹڈی دل کے حملے کے اثرات کا جائزہ لیا جانا باقی ہے، ماضی کے تجربے اور عالمی منڈی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر گندم درآمد کرے کا فیصلہ خطرناک ہے کیونکہ قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

2020ء میں عالمی منڈی میں گندم کے نرخ ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہیں لہٰذا رواں برس باہر سے بھی گندم مہنگی ہی ملے گی۔

تو پھر کیا کیا جائے ؟

حکومت اس وقت محدود پیمانے پر ہی سہی مگر 2007-08ء والی غلطیاں دہرا رہی ہے، 2020 میں مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ اس کی جڑ اور وجوہات تک پہنچا جائے، درست اندازہ نہیں کہ گزشتہ برس اپریل اور مئی میں فصلوں کو کتنا نقصان پہنچا، اس کے باوجود حکومت ملک میں گندم کی وافر مقدار کی موجودگی کے اندازے لگا رہی ہے جس کی جھلک جولائی 2019ء میں سٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں دیکھی جاسکتی ہے۔

اس میں منافع خوری کا عنصر بھی شامل ہے، 2019ء میں جب گندم کی فصل کو نقصان پہنچا تو اسے کے ساتھ ہی منافع خور سرگرم ہو گئے تھے، حکومت نے ذخیرہ اندوزی روکنے کیلئے پالیسیاں بنانے اور گندم برآمد کرنے پر پابندی لگانے میں ناکام رہی اورنتیجہ آٹے کی قیمت میں اضافے کی صورت میں نکلا۔

مسئلے کا حل حکومت کی ملک میں غذائی اجناس کی کمی نہ ہونے دینے کی صلاحیت اور خواہش میں پنہاں ہے، حکومت کو بحران سے متعلق بارہا خبردار کیا گیا مگر اس نے کان نہیں دھرنے کے بجائے اس اُمید پر ’سر ریت میں چھپا لیا‘ کہ مصیبت ٹل جائے گی۔

بحران کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت گندم سے متعلق واضح پالیسی تیار کرنے والے افراد کی تعیناتی کسی کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے میرٹ پر کرے۔ ایک دوسرا حل گندم کی درآمد کا ذرا طویل مگر قابل عمل اور فائدہ مند ماڈل بھی ہے، کمرشل درآمد کے ذریعے باہر سے سستی گندم منگوائی جا سکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکار کے بجائے وہ لوگ گندم درآمد کریں جو اس شعبے سے منسلک ہوں کیونکہ سرکاری طور پر یہ کام بغیر تیاری کے صرف کرپشن کے لیے کیا جاتا ہے۔

اگر گندم کے پیداواری شعبے سے منسلک افراد کے ذریعے گندم کی درآمد کا نظریہ درست ہے تو یہ نا صرف قیمتوں میں استحکام کا باعث بنے گا بلکہ اس سے بحران کی صورت میں اس شعبے کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ بھی ہوسکے گا جس سے معیشت کو بھی فائدہ ہوگا اور اسکا نقصان صرف موقع پرست منافع خوروں کو ہوگا۔

مگر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ گندم کی بنا سوچے سمجھے اور وقت سے پہلے درآمد اور قیمتوں کو فکس کرنے کی پالیسی سے چھٹکارا مل جائے گا۔ مزید یہ کہ مقامی قیمتوں کو عالمی منڈی کیساتھ جوڑ کر موقع پرست منافع خوروں کے لیے فائدہ اُٹھانے کا آسان راستہ بند کیا جاسکتا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here