اس بار بھی ایسا ہی ہوا جیسا کہ ان دِنوں عموماً ہوتا ہے چند ہی گھنٹوں میں پاکستان میں ٹوئٹر پر #LUMSFeeHike ٹرینڈ کرنے لگا اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ راتوں رات یہ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ اسکی وجہ ملک کی معروف لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کی جانب سے فیسوں میں اچانک 41 فیصد کا اضافہ تھا۔
معاملے کی وضاحت میں یونیورسٹی نے فیسوں میں اضافے کی پالیسی کے نفاذ کا اقرار کرکے دراصل پبلک ریلیشز کی ناکامی کو قابو کرنے کی کوشش کی جس کا اسے اپنے ہی طالب علموں کی وجہ سے سامنا کرنا پڑا، تاہم معاملے پر زیادہ شور اس وقت اٹھا جب طلبہ کے ساتھ یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبران نے بھی فیسوں میں اضافے کی مؤجب بننے والی پالیسی کے خلاف آواز بلند کی اور اس پر نظرثانی کا مطالبہ کر دیا۔
ایک ایسے وقت میں جب جامعات کو کورونا وائرس کے باعث آن لان کلاسز کے باوجود طلباء سے ریگولر فیس لینے پر تنقید کا سامنا ہے اس میں لمز کی جانب سے فیسوں میں ہوشربا اضافے نے کئی لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ کیمپس کی بندش کی وجہ سے طلباء اور فیکلٹی ممبران کے پاس اس پالیسی کے خلاف آواز بلند کرنے کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہی تھا۔
دیگر چیزوں کی طرح اعلیٰ تعلیم کے نظام میں بھی کورونا وائرس کے عالمگیر وباء کے باعث بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں اور ان کا تبدیل ہونا اچھا بھی ہے لیکن ابھی اس بارے میں جامعات بھی اتنا ہی جانتی ہیں جتنا آپ اور میں۔
اگرچہ ویڈیو کانفرنس ایپس جیسا کہ زوم وغیرہ نے یونیورسٹیوں کے لیے کچھ سہولت تو پیدا کی ہے مگر ان کے ذریعے دیے جانے والے لیکچرز کا معیار اور کلاس روم کا ماحول حقیقت کی نسبت بہت زیادہ خراب ہے۔
فیس میں اضافے کے معاملے پر شور بڑھا تو لمز کے وائس چانسلر کو ای میل کی صورت میں مزید وضاحت کرنا پڑی، ڈاکٹر ارشد احمد نے اپنی ای میل میں کہا کہ فیسوں کو ری سٹرکچر کرنے کا مقصد طلبہ پر بوجھ ختم کرنا تھا اوران میں 41 فیصد اضافے کا اندازہ غلط ہے۔ لیکن طلبہ اور اساتذہ سمجھتے ہیں کہ نئی پالیسی غیر منصفانہ ہے جس کی بدولت طلباء اپنے گریڈز اور ٹرانسکرپٹس کو مصنوعی طور پر بہتر بنا سکتے ہیں۔
ادھر یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ فیسوں میں اِس اضافے کا فیصلہ کورونا وبا کے پھوٹنے سے پہلے ہی کرلیا گیا تھا۔ اگرچہ لمزیہ بات اپنے دفاع میں کر رہی ہے مگر یہ قابل مذمت ہے۔ تعلیمی ادارے کی انتظامیہ سے جڑے افراد مقدم اور قابل تکریم ہیں مگر طلباء کا خیال رکھنے کی باتیں بیوروکریٹک بن گئی ہیں اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب پروفیسرز اور تعلیمی ماہرین انتظامی عہدوں پر براجمان ہو جاتے ہیں۔

دیگر شعبوں کی طرح جامعات اس طرح کا رویہ نہیں اپنا سکتیں کہ وبا کبھی پھوٹی ہی نہیں تھی، انھیں اپنے اور طلباء سے متعلق منصوبہ بندی بعد از وباء پیش آمدہ حالات اور حقائق کو مدنظر رکھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ صرف لمز کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کو بعد از کورونا اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے معاملات میں غیر معمولی تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔
سوشل میڈیا پر لمز کے اقدام پر اُٹھنے والا طوفان اس قدر شدید تھا کہ وفاقی حکومت کو بھی اس کی طرف دھیان دینا پڑا اور وزیر تعلیم شفقت محمود کو ٹویٹ کرکے فیسوں میں 41 فیصد اضافے کی مذمت کرنا پڑی۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طلباء یا فیکلٹی ممبران کے احتجاج کی بناء پر نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے توجہ دینے پر لمز کو معاملے پر تفصیلی وضاحت جاری کرنا پڑی جس میں لگ بھگ وہی باتیں کی گئیں جو کہ پہلے کی جا چکی تھیں لیکن اس وضاحت میں ایک چیز کا اضافہ تھا، وہ یہ کہ تیسرے اور چوتھے سمسٹر کے طلباء کے لیے فیسوں کا سٹرکچر پرانا ہی ہوگا۔
اگرچہ وزیر تعلیم شفقت محمود کے ردعمل نے یونیورسٹی کونئی وضاحت جاری کرنے پر مجبور تو کیا مگر ابھی تک کئی اہم سوالوں کے جوابات آنا باقی ہیں۔ جیسا کہ اس نئی پالیسی کے اثرات کیا ہونگے اور وبا کے دنوں میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو کس طرح کا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے؟ اور ایک ایسے وقت میں جب طلبہ اپنی آدھی ڈگری پوری کرچکے ہوں اور انکے والدین وبا کے باعث مالی پریشانی کا شکار ہوں تو فیسوں میں کس حد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے ؟
اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
لمز ایک مہنگی یونیوسٹی ہے جس میں چار سالہ ڈگری پروگرام کی فیس 30 لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے، یہ ایسی چیز ہے کہ جس کی بناء پر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ امیروں اور ایلیٹ کلاس کے لوگوں کی درسگاہ ہے، یہاں کوئی مالی معاونت یا سکالر شپ پر نہیں پڑھتا اور اضافے کے باوجود طلباء کے والدین بھاری بھر کم فیسیں ادا کردیں گے، تعلیم سماجی رتبے میں بلندی کا زینہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ لمز جیسے ادارے کی بھاری فیسوں کی ادائیگی کے علاوہ اس میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: لمز اور آئی بی اے کی ڈگریاں آپکو ملازمت کیوں نہیں دلوا سکتیں؟
دیگر یونیورسٹیوں کی طرح لمز میں بھی کریڈٹ سسٹم رائج ہے جہاں طلباء ایک سمسٹر میں 12 سے 20 کریڈٹ آورز لے سکتے ہیں اور چار سالہ ڈگری وقت پر پوری کرنے کے لیے انہیں 130 کریڈٹ آورز مکمل کرنا ہوتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ طلباء زیادہ تر سمسٹرز میں 16 جبکہ کسی ایک سمسٹر میں 18 کریڈٹ آورز لے سکتے ہیں لیکن 12 سے 20 کریڈٹ آورز کی فیس ایک ہی ہوتی ہے اور اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ ایک سمسٹر میں کتنے کریڈٹ آورز لیتے ہیں۔
لیکن نئی فیس پالیسی کے تحت لمز ہر کریڈیٹ آور پر فیس چارج کرے گی جس کا مطلب ہے کہ 20 کریڈٹ آورز کی فیس 12 کریڈیٹ آورز سے کہیں زیادہ ہوگی۔
اس پالیسی کے تحت ایک سمسٹر میں 12 کریڈٹ آورز لینے والے طالب علم کا کورس 20 کریڈٹ آور لینے والے طالب علم سے مہنگا ہوگا۔
لمز کا کہنا ہے کہ پرانی پالیسی کے تحت ملنے والی سہولت کے باعث طلباء ایک سمسٹر میں ضرورت سے زیادہ بوجھ اپنے سر پر لاد لیتے تھے حالانکہ زیادہ تر طلباء یہ بوجھ اُٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔
تاہم اب جامعہ نے طلباء کو اطلاع کیے بغیر ہی نئی پالیسی کا نفاذ کردیا ہے جس سے وہ طلباء جوایک سمسٹر میں 20 کریڈٹ آورز لینا چاہ رہے تھے انہیں کافی دھچکا لگا ہے مگر یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ فی کریڈٹ آور فیس کا اطلاق 16 اور اس سے زائد کریڈٹ آور پر ہو گا اور 12 کریڈٹ آورز کی فیس پر نئی پالیسی اثر انداز نہیں ہوگی۔
یونیورسٹی کے مطابق اِس پالیسی کے تحت 16 کریڈٹ آورز لینے والے طالب علم کی فیس میں معمولی اضافہ ہوگا اور اگر وہ 12 کریڈٹ آورز لیتا ہے تو اس کی فیس میں کمی ہوگی جبکہ 20 کریڈیٹ آورز لینے کی صورت میں اس میں اضافہ ہوگا۔
لمز کا کہنا ہے کہ فیسوں میں صرف 13 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اگر کوئی طالب علم زیادہ کریڈٹ آورز لے گا تو اسکی فیس میں بھی زیادہ اضافہ ہوگا اور یہ 40 فیصد تک ہوسکتا ہے جو کہ 20 کریڈٹ آورز لینے کی صورت میں ہو گا۔
لمزسٹوڈنٹس کونسل کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کی مدد سے تیار کیے گئے ٹیبل کے مطابق نئی پالیسی سے طلبہ کی فیسوں پر کچھ یوں اثر پڑے گا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ لمز فیسوں میں 41 فیصد اضافے کو مسترد کر رہی ہے جو کہ قانونی لحاظ سے درست بھی ہے کیونکہ 41 فیصد اضافہ غیرمشروط نہیں بلکہ مشروط طور پر کیا گیا ہے۔ تاہم اس صورتحال میں کچھ طلباء زیادہ نقصان میں رہیں گے خاص کر وہ جو جنھوں نے اپنا ڈسپلن تبدیل کیا ہے یا وہ جو کوئی کورس دوبارہ پڑھنا چاہتے ہیں۔
ایک مشکل صورت حال
پرافٹ اردو نے معاملے پر مؤقف کے لیے لمز سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش مگر ہربار لمز کے وائس چانسلر ڈاکٹر ارشد احمد کی خالی ای میلز اور ان کے جارحانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ لمز کی جانب سے اس معاملے پر متعدد بیانات اور پریس ریلیزز جاری کی گئیں جن میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ ’’بد قسمتی سے معاملے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بہت غلط معلومات پھیلائی جارہی ہیں اور اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ لمز کے طلباء کو اس سے زیادہ فیس ادا نہیں کرنا پڑے گی جس پر انہوں نے داخلہ لیا تھا بلکہ درحقیقت کچھ کو تو اس سے کم ادائیگی کرنا پڑے گی۔‘‘
یہاں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ موجودہ طالب علموں کو نئی پالیسی سے استثنیٰ دیا گیا ہے اور انھیں صرف اتنی ہی فیس ادا کرنا پڑے گی جتنی ان سے یونیورسٹی میں داخلے کے وقت مانگی گئی تھی مگر یہ اعتراف پرافٹ اردو کی جانب سے معاملے پر وزیر تعلیم شفقت محمود سے رابطے اور انکی جانب سے رد عمل سامنے آنے کے بعد کیا گیا۔ مزید برآں نئی پالیسی سے استثنیٰ صرف ایک بیچ کو دیا گیا ہے جبکہ باقی بیچز غیر منصفانہ طور پر اس سے متاثر ہونگے۔
یہ بھی پڑھیے: ملیے لمز کی 2019ء کی بہترین ایم بی اے کلاس سے
تاہم لمز کے وائس چانسلر پرافٹ اردو کے دو سوالات کا جواب دینے کے بجائے ان سے مسلسل پیچھا چھڑاتے رہے، پہلا سوال یہ تھا کہ کیا فیسوں میں پہلے سے سوچے گئے اضافے کا وباء کے دنوں میں اطلاق درست اقدام ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا نئی پالیسی صرف وسائل رکھنے والے طلباء کو کورسز دہرانے کی سہولت فراہم نہیں کرتی؟ کیا ایسا کرنے سے یونیورسٹی طلباء کے درمیان عدم مساوات کی مرتکب نہیں ہو رہی؟
بلاشبہ یہ مشکل سوالات تھے اور ڈاکٹر ارشد ایک قابل احترام تعلیمی ماہر ہیں مگر اس صورتحال میں ان کے طرز عمل پر طلباء اور فیکلٹی ممبران کی جانب سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کے میدان میں لمز کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اس کے گریجویٹس پورے ملک میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں مگر فیسوں میں بنا سوچے سمجھے اور غیر منصفانہ اضافہ لمز کی شناخت کے لیے اچھا شگون نہیں۔
جامعات کو کیا کرنا چاہیے؟
معروف انگریزی روزنامہ ڈان کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں ڈیویلپمنٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے احمد احسن کا کہنا ہے کہ کورونا وباء ملک کی جامعات کے لیے اعلیٰ تعلیم کے ںظام کو تبدیل کرنے اور اسے مضبوط بنانے کا ایک موقع ہے۔ یہ وقت جامعات کے لیے طلباء کے استحصال کی بجائے ان کا خیال کرنے اور ان سے شفقت سے پیش آنے کا ہے۔
بد قسمتی سے معاملے سے متعلق بات چیت کے لیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے کیے جانے والے تمام رابطے بے سود رہے کیونکہ ڈائریکٹر لیول سے لے کر چئیرمین تک کسی کے پاس بھی لمز کی جانب سے فیسوں میں اضافے سے متعلق مناسب معلومات نہیں تھیں۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا ایسے شعبے میں چلنے والے معاملات سے لا علم ہونا، جسے یہ ریگولیٹ کرتا ہے، انتہا درجے کی حیرانی اور پریشانی والی بات ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق کورونا وبا نے جہاں دنیا کی معیشت کو متاثر کیا ہے وہیں اس نے تعلیمی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے جس سے دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب طلباء کی تعلیم متاثر ہوئی ہے اور پوری دنیا میں پرائمری، سیکنڈری اور اس سے اگلے درجے کے 90 فیصد طلباء تعلیمی اداروں میں نہیں جا سکتے۔
یہ غیر معمولی اور بدلے ہوئے حالات ہیں جن میں دنیا تیزی سے آن لائن تعلیم کی طرف منتقل ہورہی ہے مگر پاکستانی جامعات ابھی تک اس بات سے انجان ہیں کہ انھیں ان حالات میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ حالات سب کے لیے ہی نئے ہیں اور جامعات کو چاہیے کہ وہ طلباء اور فیکلٹی ممبران کو ان حالات مں ایڈجسٹ کرنے میں مدد فراہم کرے۔
لیکن لمز کے معاملے میں ہم نے دیکھا ہے کہ انتظامیہ طلباء کو مشکل میں دھکیل کر اپنے برتر ہونے کا اظہار کر رہی ہے۔ فیس میں تبدیلی اپنی جگہ مگر زیادہ حیران کن امر اس معاملے پر طلباء کی نمائندہ تنظیم کو اعتماد میں لینے کا انداز ہے اور ایسا بھی اس وقت ہوا جب سوشل میڈیا پر یونیورسٹی کے اقدام کے خلاف آواز اُٹھائی گئی۔
اگر آنے والے دنوں میں بھی تعلیمی سلسلہ باقاعدہ شروع نہ ہو سکا تو یونیورسٹیوں کو طلباء اور فیکلٹی سے رابطے کا بہترین انتظام کرنا ہو گا وگرنہ نتیجہ بد نظمی اور بحران کی صورت نکلے گا۔
غیر معمولی تبدیلیوں کے اس وقت میں ضرورت تھی کہ لمز کی انتظامیہ یونیورسٹی کو دوسروں کے لیے مثالی انداز میں چلاتی مگر ایسا نہیں ہوا لہٰذا دیگر جامعات ان حالات سے مقابلے کے لیے جو مرضی کریں لیکن وہ کچھ نہ کریں جو لمز نے کیا۔