اسلام آباد: ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم کنسیشن (ڈی جی پی سی) عمران احمد کے خلاف قومی احتساب بیورو(نیب) کی جانب سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے عمران احمد کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ڈی جی پی سی عمران احمد کے خلاف مبینہ طور پر قومی خزانے کو 50 ملین ڈالر کا نقصان پہنچانے اور خرد برد کا الزام ہے، ڈی جی پی سی کو بدین 4 ساؤتھ گیس فیلڈز کے ذریعے یومیہ 30 ملین کیوبک فیٹ گیس ملک کے گیس ترسیل سسٹم میں داخل کرنا تھی، تاخیر کی وجہ سے نیب کی جانب سے تفتیش کے لیے گرفتار کیا ہے۔
پیٹرولیم ڈویژن کے افسر کی جانب سے مذکورہ گیس ملکی ترسیل سسٹم میں داخل کرنے پر آٹھ مہینے کی تاخیر کی گئی جس کے باعث ملک میں گیس کی طلب پوری کرنے کے لیے ایل این جی 10 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی قیمت پر درآمد کی گئی۔ مقامی گیس کی لاگت اس عرصے کے دوران چار ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھی۔
نمائندہ پرافٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ترجمان پیٹرولیم ڈویژن ساجد محمود قاضی نے عمران احمد کو عہدے سے ہٹائے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ڈی جی پی سی کا عہدہ فی الحال جوائنٹ سیکرٹری سائرہ نجیب کو دیا گیا ہے۔
19 مارچ 2020 کو نیب کی طرف سے ڈی جی پی سی کو معاملے میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا 6 اپریل تک تحریری خط کے ذریعے جواب دینے کا کہا گیا تھا۔
مزید یہ کہ نیب نے پیٹرولیم سیکرٹری میاں اسد حیاالدین، ڈی جی پی سی عمران احمد، سابق کنسلٹنٹ اسحاق ساقی اور دیگر افسران سے بدین 4 ساؤتھ گیس فیلڈز سے گیس پیداوار کے حوالے سےتصدیق شدہ کاپیاں فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ذرائع نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران احمد ایل این جی کی درآمد پر قومی خزانے کی قیمت پر سہولت دینے میں ملوث ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام ٹیکسوں کی کٹوتی کے بعد مقامی گیس کی قیمت عام طور پر 4 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پڑتی ہے جبکہ حکومت نے ملک میں گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 50 ملین ڈالر کی ایل این جی غیر ملکی ذخائر سے درآمد کی۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بدین 4 ساؤتھ گیس فیلڈز پیداوار کے لیے تیار تھی جون 2019 میں سوئی ناردرن گیس کمپنی گروپ کے سسٹم میں یومیہ 30 ملین کیوبک فیٹ داخل کرنے کے قابل تھی جبکہ آئی پی آر انٹرنیشنل انرجی گروپ نے گیس کے مقام کا دورہ کرنے پر آگاہ کیا تھا کہ چونکہ گیس قدرتی ہے اسی لیے اسکی قیمت گیس کی قیمتوں کے تعین کے معیار اور رہنما اصول کے تحت اس کی قیمت 6.3 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو رکھنے کی تجویز کی تھی۔ تاہم ڈی جی پی سی نے کمپنی کی رپورٹ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے دوبارہ گیس کے مقام کا دورہ کرنے کا کہا تھا۔
کمپنی کی جانب سے دوسری بار دورہ کرنے پر بھی نتائج وہی نکلے تھے۔ تاہم فروری 2020 کو گیس کی کی قیمت کا تعین کیے بغیر قومی مفاد کے تحت 30 ملین کیوبک فٹ گیس سوئی سدرن گیس کمپنی کے سسٹم میں داخل کر دی گئی تھی۔