تھر کول پاور پلانٹ کی بدولت اینگرو کے منافع میں اضافہ

اینگرو کی مجموعی آمدن 2019 میں 30 فیصد سے زائد رہی جس کے بعد کمپنی نے ٹیلی کام انفراسٹرکچر اور پیٹروکیمیکلز کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی ہے

3126

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سن 2019 اینگرو کے لیے ایک بڑا سال ثابت ہوا۔ پاکستان کے ایک بڑے ادارے کے لیے 32 فیصد سے زائد آمدن اور 30 فیصد سے زائد منافع کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں ہے چونکہ کمپنی آٹھ طرح کے کاروبار میں متحرک ہے اس لیے یہ بالکل واضح تھا کہ 2019 کا ہیرو توانائی کا ادارہ ہی ہو گا، تھر میں کوئلے سے چلنے والے توانائی کے پلانٹس کے آن لائن ہونے سے اینگرو کی آمدن اور منافع میں دگنا اضافہ ہوا۔

سال 2019 میں کمپنی کی مستحکم آمدن میں 32 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 171.6 ارب روپے سے 225.9 ارب روپے جا پہنچی، یہ اینگرو کا توانائی کا واحد شعبہ تھا جہاں سے صرف 2019 میں کمپنی کو 12 ارب روپے سے 50 ارب روپے تک آمدن ہوئی جو چار گنا زیادہ تھی۔ کمپنی کو دوسرا بڑا منافع خوراک کے شعبے سے چاول کی برآمدات کے کاروبار سے ہوا جو 22 فیصد تھا۔

توانائی کے شعبے میں اینگرو سندھ میں سرمایہ کاری کی،  ایک کوئلہ کی کان کنی کا پروجیکٹ اور دوسرا کوئلے سے چلنے والی پاور پلانٹس۔

سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (ایس ای سی ایم سی) سندھ حکومت کے ساتھ ملکر کام کر رہی ہے،  کمپنی پہلے سال کے دوران 3.8 ملین ٹن کوئلہ پیدا کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، اینگرو پاورجَن تھر لمیٹڈ تھر میں 660 میگا واٹ کا کول پاور پلانٹ چلا رہی ہے، دونوں منصوبے 10 جولائی 2019 کو کمرشل طور پر فعال ہوئے۔ 2019 میں کمپنی نے 2.3 ملین ٹن کوئلہ نکالا۔

کمپنی نے ایس ای سی ایم سی کے دوسرے مرحلے پر بھی کام شروع کر دیا ہے جہاں دوسرا کول مائننگ آپریشن کرکے سالانہ 7.5 ملین ٹن کوئلہ نکالا جائے گا، پاکستان میں توانائی کی سکیورٹی کے گمراہ کن خیالات کے برعکس کمپنی کو یقین ہے کہ کول پاور پلانٹ لگا کر وہ اپنا تشخص عوام کی نظر میں بہتر کر سکتی ہے۔

تاہم آمدن اور منافع کے اعداد وشمار توانائی کے کاروبار کے لیے اچھے نظر آ رہے ہیں تو توانائی کے کاروبار میں قدم رکھنے سے اینگرو کو ایسے مسائل معلوم ہوئے جن کا کبھی کمپنی نے براہِ راست تجربہ نہیں کیا تھا اور نتیجتاََ کمپنی کو توانائی کی سپلائی چین میں اِن کارپوریٹ گردشی قرضوں، بجلی، گیس اور غیر ادا بلوں کا سامنا کرنا پڑا۔

جس کا مطلب یہ ہوا اینگرو کمپنی مزید آمدن اور منافع کمانے کے قابل ہوئی تو حقیقت میں اِس کی پیسے کے بہاؤ کی صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہو گئی۔ کیونکہ، کان کُن اور پاور جنریشن پلانٹس کمپنی کی ملکیت ہے اب بھی اِس کو حکومتی یوٹیلیٹی کمپنیوں کو بجلی فروخت کرنی پڑتی ہے، جن کے پاس اینگرو کو رقم ادا کرنے کے لیے مناسب پیسہ نہیں ہے، گرڈ اسٹیشنز میں مناسب اقدامات کی کمی اور بجلی چوری کے باعث کمپنی مکمل لاگت کی بجلی پیداوار کی قیمت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوئی ہے۔

دوسرے کاروباری شعبوں کے مابین اینگرو نے ٹیلی کام انفراسٹرکچر کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے 1500 سیلولر ٹاورز خریدنے کے لیے 7.5 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے، کمپنی یہ ٹاورز چار موبائل ٹیلی کام آپریٹرز قسطوں پر فروخت کرے گی جس سے بقیہ ٹاورز چلانے کا خرچ نکل آئے گا، اینگرو کا آئندہ دو سال میں کم از کم دس ہزار ٹاورز حاصل کرنے کا ہدف ہے جو کمپنی کو 25 فیصد مارکیٹ شئیرز کا ملک بنا دیں گے۔

اس کے علاوہ کمپنی نے پیڑوکیمیکلز کے میدان میں اینگرو پولیمر اینڈ کیمیکلز کے نام سے بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، کمپنی نے پولی پروپلین (polypropylene) مینوفیکچرنگ یونٹ کے قیام کے لیے فیزیبلیٹی سٹڈی شروع کی ہے، یہ یونٹ پروپین ڈی ہائڈروجی نیشن (propane dehydrogenation) پلانٹ کی بنیاد پر ہو گا۔ پولی پروپلین جو پولی پروپین کے نام بھی سے جانا جاتا ہے، بہت سارے کاموں میں استعمال ہو گا۔

سال کے دوران کمپنی کو اہم کامیابی یہ ملی اور وہ حکومت میں کمپنیوں کے ان کارپوریٹ ڈیویڈنڈز پر ٹیکسس کی ادائیگی پر استثنیٰ دینے کی لابنگ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ کئی ذیلی شعبوں کی مالک کمپنی نے حکومت کو دلیل دی کہ حکومت کو اینگرو کی ذیلی شاخوں سے ٹیکس نہیں لینے چاہییں، کیونکہ کمپنی نے پہلے ہی اُن ڈیویڈنڈز کو کارپوریٹ انکم ٹیکس ادا کر دیے تھے جو انکے ذیلی شعبوں کے ٹیکس ریٹرن کا حصہ تھے۔ ڈیویڈنڈز پر ٹیکس لگانے سے جوانہوں نے انکم کے طور پر وصول کیے تھے کچھ آمدنی پر دگنا ہو جائیں گے۔

بہت سی ترقی پذیر معیشتوں بشمول امریکہ میں اِن کارپوریٹ ڈیویڈنڈ پر آمدنی ٹیکس پر استثنا عام ہے اور یہ وسیع تر معیاری عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اینگرو منافع کو یقینی بنانے کے لیے کھاد کی قیمتیں فی بوری 1840 روپے برقرار رکھنا چاہتی ہے لیکن ایک بریفنگ میں کہا گیا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ پریمیم ‘مسابقتی قیمتوں کے ماحول’ میں قابلِ برداشت نہ ہو، جیسا کہ پرافٹ اردو نے اس سے پہلے بھی رپورٹ کیا تھا کہ کھاد کی صنعت کو طویل عرصے سے سبسڈی اور گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کی سیٹلمنٹ کی صورتحال جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک سال کے دوران کمپنی کو کئی بار اپنی لاگت میں اضافے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن میں کچھ مستقبل میں پیداوار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کے مسائل تھے۔ کمپنی کی تنظیمی جیسے انسانی وسائل کی تربیت اور ترقیاتی لاگت، نظام (سسٹم) پر عملدرآمد، ایپلیکیشن اور پروڈکٹس (ایس اے پی) کی لاگت میں اضافہ ہوا اور کمپنی انٹرنیشنل فنانشل رپورٹنگ سٹینڈرڈ 16 کی پیروی کر رہی ہے۔

کمپنی کو فرائز لینڈ کمپینا اینگرو پاکستان لمیٹڈ (جولائی 2019 تک کمپنی کا نام تبدیل ہونے کے بعد اینگرو فوڈز کے نام سے بہتر جانا جاتا تھا، فرائز لینڈ کمپینا دنیا کی بڑی ڈیری کارپورٹیوز میں سے ایک ہے) میں ناقابلِ تلافی نقصان ہواتھا۔ بین الاقوامی اکاؤنٹنگ معیار 36 (nternational Accounting Standard 36) اثاثوں میں خرابی (Impairment of Assets)کی شرائط کے تحت کمپنی کو 1.224 ارب روپے فراہمی الگ رکھنا تھی۔

پھر اینگرو ووپاک (Engro Vopak) جو پورٹ قاسم پر لیکویڈ بڑی مقدار میں ذخیرہ کرنے کی سہولت دینے کے ایک ٹرمینل میں ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کی گئی، اینگرو ووپاک 1997 سے اینگرو کارپوریشن لمیٹڈ اور رائیل ووپاک آف دی نیدرلینڈ (Royal Vopak of The Netherlands)  مشترکہ طور پر چلایا جا رہا ہے۔ ٹرمینل کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 82400 کیوبک میٹرز ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here