لڑکھڑاتی ہوئی فوجی سیمنٹ، توسیع میں پس و پیش کمپنی کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے

1776

اگر دیکھا جائے تو فوجی سیمنٹ ایک کامیاب کمپنی نظر آتی ہے۔ سیمنٹ انڈسٹری پر آنے والے مشکل دور میں فوجی سیمنٹ قرضوں سے پاک ہے اور اس کے مالیاتی اخراجات بھی ہم عصر کمپنیوں کے مقابلے میں کم ہے۔ یہ کمپنی مالی سال 2019ء میں 14 فیصد گراس مارجن (gross margins) حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے جو کہ دیگر حریف کمپنیوں کی اوسط 2 سے 4 فیصد سے کہیں زیادہ ہے اور لکی سیمنٹ کے 15 فیصد کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر ہے۔
آخر پھر مسئلہ کیا ہے؟ اگر انویسٹمنٹ بینک ای ایف جی ہرمز کی جانب سے اپنے کلائنٹس کو جاری کردہ 14 فروری کے تازہ ترین نوٹ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مسائل کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
ریسرچ اینالسٹ جواد شمیم کے دلائل کے مطابق اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں فوجی سیمنٹ کے بہتر نتائج کی وجہ دراصل اس کمپنی کا توسیع سے انکار ہے۔ قلیل مدت میں دیکھا جائے تو یہ انجان نعمت ہے لیکن طویل مدت کے حساب سے یہ کمپنی کیلئے مشکلات پیدا کرے گی۔
جیسے ہی کام کی رفتار میں تیزی آئے گی فوجی سیمنٹ کے حریف بڑھتی طلب کو آسانی سے پورا کر پائیں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کافی پہلے (زیادہ تر نے 2006ء اور 2009ء کے درمیان) اپنے حجم میں توسیع کر لی تھی۔ اگر فوجی سیمنٹ مقابلے کی دوڑ میں اپنی بقاء چاہتا ہے تو اسے سابقہ 115 روپے فی ڈالر کے مقابلے میں 155 روپے فی ڈالر کے شرح تبادلہ پر ایک پلانٹ خریدنا چاہیئے۔ پلانٹ کی تعمیر پر اندازاََ 30 سے 36 ماہ کا عرصہ درکار ہوگا جو کہ ریکوری کی مدت سے بڑھ جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس صنعت میں کسی بھی قسم کا ممکنہ فائدہ فوجی سیمنٹ کو کافی پیچھے چھوڑ دے گا۔
آپریشنز کا دائرہ کار وسیع کرنے میں ہچکچاہٹ اصل میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ فوجی نے ویسٹ ہیٹ (waste-heat) پاور پلانٹس جیسے بڑے منصوبوں پر کم اخراجات خرچ کئے ہیں۔ اس کمپنی کا اگلا 2.5 میگاواٹ کا سولر پلانٹ بھی کچھ خاص اضافہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمپنی اس گرڈ پر ضرورت سے زیادہ منحصر ہے (2019ء میں گرڈ سے 57 فیصد بجلی استعمال کی گئی)۔ بجلی کی قیمت میں کسی بھی قسم کا اضافہ سیمنٹ کمپنی کیلئے مشکل صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔
اس رپورٹ میں خاص طور پر بھارتی برآمدات پر پابندی کے بعد فوجی کے برآمدی کاروبار کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔
اسی اثناء میں باقی کی سیمنٹ انڈسٹری رسد میں اضافہ کی حد تک توسیع کرتی رہی جس کے نتیجے میں فوجی کے مارکیٹ میں حصص کم ہوتے گئے۔ شمیم کا ماننا ہے کہ مقامی مارکیٹ میں اس کے حصص 2017ء تا 2019ء اوسطاََ 7.5 فیصد سے کم ہو کر 2014ء میں 5.2 فیصد رہ جائیں گے۔
اس طرح فوجی سیمنٹ کے حجم میں کمی واقع ہونے کے امکانات ہیں۔ شمیم کا ماننا ہے کہ 2020ء اور 2021ء میں رسد کم ہو کر 6 فیصد اور استعمال کی شرح 80 فیصد رہ جائے گی۔ (2018ء اور 2019ء میں یہ اوسط شرح 91 فیصد تھی)
مختصر یہ کہ ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ منافع کی شرح میں کمی واقع ہوگی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ’’ہم نے مالی سال 2022ء-2020ء میں کمزور مارجن اور کم مارکیٹ حصص کی بنا پر اپنی آمدن میں اوسطاََ 41 فیصد کمی کی۔ ہم نے اپنے اسٹاک کی قیمت کو کم کر کے 13 روپے تک لے آئے ہیں۔‘‘
ای ایف جی ہرمز کی توجہ اس جانب ہے کہ فوجی سیمنٹ کے علاوہ کس کمپنی پر انحصار کرنا چاہیئے۔ ’’اس لئے ہم ان سیمنٹ کمپنیوں مثلاََ لکی سیمنٹ اور میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کو ترجیح دیتے ہیں جن کے پاس بہتر آلات و مشینری ہے تاکہ طلب و رسد کا پہیہ مناسب انداز میں چلتا رہے۔‘‘
انڈسٹری میں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں فوجی سیمنٹ کے اس مسئلے کی ایک وجہ اس کے مرکزی ادارے فوجی فاؤنڈیشن کے بڑے کاروبار فوجی سیمنٹ اور فوجی فرٹیلائزر کے غیر منصفانہ منافع جات ہیں۔
ایک کمپنی کے بعد از ٹیکس منافع کیلئے 5 اقدامات کئے جا سکتے ہیں جن میں سے ہر ایک کی کمپنی کے رسک پروفائل اور ترقی کے حساب سے مختلف نتائج ہو سکتے ہیں۔
1- اخراجاتی آمدن (Capital expenditures)
2- مشکل وقت میں نقد ذخائر (Cash reserves for a rainy day)
3- گروی اور روپے کا حصول (Mergers and acquisitions)
4- منافع کی ادائیگی (Dividend payouts)
5- شیئر اور بانڈز کی بعد از فروخت خریداری (Share buybacks)
فوجی فاؤنڈیشن کو فوج کے شہید سپاہیوں کی بیواؤں اور یتیموں میں نقد رقم تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جس کیلئے اس فاؤنڈیشن کو اکثر ان پورٹ فولیو کمپنیوں سے دیگر سرمایہ کاروں کی نسبت اختتام پر منافع کا ایک بڑا حصہ درکار ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اپنے حریفوں کی نسبت توسیع کیلئے بہت کم منافع باقی رہ جاتا ہے اور یہ حریف اپنے منافع کو تقسیم کرنے کی بجائے اپنے توسیعی منصوبوں میں استعمال کرنے میں آزاد ہیں۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فوجی فاؤنڈیشن کو اپنے ان دو مقاصد (شہداء کے ورثاء میں تقسیم اور توسیعی منصوبے) کیلئے بہتر توازن کی ضرورت ہے۔ فوجی سیمنٹ میں نمایاں سرمایہ کاری جاری رکھنے کیلئے مارکیٹ حصص میں نقصان ناقابل تلافی ہو سکتا ہے اور اس طرح مستقبل میں منافع کمانے کی صلاحیت بتدریج کمزور ہو جائے گی۔
پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری میں مقابلہ کا رحجان کافی سخت ہے جہاں مارکیٹ میں سبقت لینے کی جنگ خطرات سے بھرپور ہے۔ گو کہ اس کیلئے شوگر انڈسٹری کی طرز پر چند شخصی اجارہ داری نافذ کرنے کی متعدد بار کوشش کی جا چکی ہے اور یہ کوششیں اس صنعت کو طویل مدت پر ایک ایجنڈے پر متحد رکھنے میں ہر بار ناکام رہی ہیں۔
اگلے چند سالوں میں حکومت پاکستان ملک میں بہتر انفراسٹرکچر کے قیام کیلئے کافی پرامید ہے جس کیلئے سیمنٹ کی صنعت میں توسیع ناگزیر ہے۔ مزید یہ کہ ملک بھر میں گھروں کی تعمیر اپنے عروج پر ہے اور رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر ڈویلپمنٹ کر رہے ہیں۔
یہ تمام اقدامات و توجیحات سیمنٹ مینوفیکچررز کیلئے زیادہ منافع بخش ہیں اور خاص طور پر ان اداروں کیلئے جنہوں نے اپنے موجودہ صارفین کی طلب کو پورا کرنے کیلئے توسیعی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اور فوجی سیمنٹ جیسے وہ ادارے جنہوں نے توسیع پر غور طلب توجہ نہیں دی شاید مارکیٹ میں اپنا موجودہ حصہ بھی کھو دیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here