اسلام آباد (غلام عباس): اپنے تمام تر دعووں کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نیشنل فنانس کمیشن (NFC) ایوارڈ کے بروقت انعقاد کا آئینی فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہی اور امکان غالب ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کیلئے جاری کیا جانے والا یہ ایوارڈ اس بار غیر فیصلہ کن رہنے کا امکان ہے۔
این ایف سی ایوارڈ وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے جو وہ ٹیکسوں کی جمع کردہ رقم سے صوبوں کو انکی کارکردگی، آبادی کے تناسب اور ضروریات کے پیش نظر مالی معاونت کے طور پر جاری کرتی ہے۔
این ایف سی ایوارڈ کی مدت اپریل 2020ء میں ختم ہو رہی ہے، باوثوق ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ این ایف سی کے حوالے سے مذاکرات کے لیے دوبارہ سے کمیٹی تشکیل دے گی۔
وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مذکورہ کمیٹی اگلے پانچ سالہ این ایف سی ایوارڈ کی نئے سرے سے تشکیل کی تجویز دے۔
یاد رہے کہ آخری بار پاکستان پیپلز پارٹی نے 2010 میں ساتواں این ایف سی ایوارڈ منعقد کرایا تھا جس کے بعد صوبوں میں این ایف سی ایوارڈ کے مالی معاملات پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ حکومت کا نویں NFC کو بے نتیجہ چھوڑنے کا مقصد اس معاملے پر دوبارہ سے مشاورت کرنا ہے۔
حکومت صوبوں کو ان کے حقوق دینے کے متعلق یقین دہانی کرانے کی کوشش کرے گی۔
آئین کے آرٹیکل 160 (3A) کے مطابق گزشتہ این ایف سی ایوارڈ کی نسبت حکومت صوبوں کو انکے پچھلی بار کے حصے سے زیادہ وسائل فراہم کرنے کی پابند ہو گی۔
فنانس ڈویژن کے ایک عہدیدار نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو کمیٹی کا رکن بنائے جانے کا امکان ہے۔
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اسد عمر نے وزیر خزانہ بننے کے بعد فنانس سیکریٹری کو نئے این ایف سی ایوارڈ کے انعقاد پر عمل درآمد کی ہدایت کی تھی۔
بعد ازیں صدر عارف علوی نے جنوری 2019 میں 9th NFC دوبارہ سے تشکیل کی تھی اور اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے صوبوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔
تاہم اسد عمر کے استعفے کے بعد مشاورت کا عمل رک گیا تھا کیونکہ نئے مشیر خزانہ قانونی وجوہات کی بنا پر این ایف سی سے متعلق اجلاس کی صدارات نہ کر سکے تھے۔