’جابز آف فیوچر‘ کے بارے میں کافی کچھ سننے کو ملتا ہے لیکن کوئی بھی اس بات سے واقف نہیں کہ یہ جابز کیسی ہیں؟ کہاں ملیں گی؟ کس طرح کی کوالیفکیشن کی ضرورت ہوگی؟ لیکن عمومی تاثر یہ ہے کہ زمانہ بدل رہا ہے اور اسکے ساتھ نوکریوں کی نوعیت بھی بدل رہی ہے، دنیا بھر میں ہی انکلز (سینئرز) نئے آنے والوں کو نصیحتیں کر رہے ہیں کہ بیٹا کیرئیر کے حوالے سے نئی راہیں تلاش کرو۔ ایسے میں وہ internet، connectivity اور adaptability جیسے الفاظ بھی استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس تاثر کے باوجود کہ وقت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑی تعداد میں نوکریاں پیدا بھی ہو رہی ہیں اور شائد روزگار کے ایسے آپشنز پر غور کرنے کا یہی ٹھیک وقت ہے جو اب بھی دنیا کیلئے اہم ہیں اور مطابقت رکھتے ہیں۔
تمام سوالوں کا واضح جواب ’’ٹیکنالوجی‘‘ ہے، کیونکہ یہی تو ہے جو ہر چیز کو بدل رہی ہے، لیکن اس شخص کا کیا ہو گا جو دن بھر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا؟ سب سے اہم سوال یہ کہ جب اسے کمپیوٹر کے بارے میں معلوم ہی کچھ نہ ہو تو اسکا کیا ہو گا؟ تو ایسے لوگوں کیلئے ادویات کی مارکیٹنگ کا شعبہ بہترین ہے کیونکہ میڈیم (آن لائن جریدہ) سے لیکر فوربز (امریکی بزنس میگزین) تک کہہ چکے ہیں کہ کمائی کے حوالے سے ہیلتھ کئیر پروفیشنلز سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر رہے ہیں۔
یہ سوال بے حد سادہ ہے کہ ایسے لوگوں کیلئے مستقبل میں کونسی ملازمتیں موجود ہونگی جنہیں سائنس میں دلچسپی نہیں یا سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب جن کا رجحان ہی نہیں؟ اس سوال کا ایک ممکنہ جواب یہ ہے کہ ایسے لوگ پروجیکٹ مینجمنٹ کے شعبے میں جائیں۔ پروجیکٹ مینجمنٹ ویسے تو ایک ٹھوس کیرئیر سے زیادہ ایک عہدے کا نام ہے لیکن اس میں مختلف پیشہ ور افراد شامل ہو جاتے ہیں جو اپنی مہارت سے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں جن میں ٹیم کی قیادت کرنے اور لمحوں میں فیصلے لینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
آپکی تنخواہ اس بات پر منحصر ہوگی کہ آپ ملازمت (پروجیکٹ مینجمنٹ) کیلئے کس شعبے کا انتخاب کرتے ہیں، آپ کی سیلری 50 ہزار روپے سے شروع ہو کر ایک لاکھ 20 ہزار روپے بھی ہوسکتی ہے، اگر کچھ تجربہ رکھتے ہیں تو ساڑھے 4 لاکھ روپے سے 5 لاکھ روپے تک بھی ہو سکتی ہے، گلاس ڈور(دنیا میں نوکریوں کیلئے ریکروٹمنٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ) کے اعدادوشمار کے مطابق آپکے تجربے (سینئر پروجیکٹ میجمنٹ) کی بنیاد پر سیلری 20 لاکھ روپے تک بھی ہو سکتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آپ پروجیکٹ مینیجمنٹ کی دنیا میں داخل کیسے ہوسکتے ہیں اور اس دنیا میں کیا کچھ شامل ہے؟
کچھ مفت مشورے:
پاکستان میں پروجیکٹ مینجمنٹ کا شعبہ کیوں مقبولیت پا رہا ہے اور آپ اِس نوکری میں کیسے اچھے ثابت ہو سکتے ہیں، یہی ہماری بحث کا موضوع ہے، اور ہم اس موضوع کو ٹھیک اسی انداز میں شروع کریں گے جیسے ٹیلی نار پاکستان کے ہیڈ آف ڈیجیٹل پارٹنرشپ اینڈ انوویشن عبید اللہ خواجہ نے نیشنل انکیوبیشن سینٹر اسلام آباد میں ’’مستقبل کے کاروباری افراد‘‘ سے خطاب میں کیا۔
یہ ایک تدریسی (instructive) تقریر تھی اور ایسا تب ہوتا ہے جب مینیجر اور ان کی ٹیم کے مابین کمیونیکیشن لائن واضح نہیں ہوتی ہے حالانکہ کسی کو ذمہ داری تفویض کرنا کافی آسان معلوم ہوتا ہے لیکن مختلف محکموں کے ساتھ کمیونیکیشن لائن برقرار رکھنے،عملے کو متحرک رکھنے، خطرات مول لینے اور پروجیکٹ یا کمپنی کیلئے ٹائم بم کی حیثیت رکھنے والے فیصلوں سے پرہیز کرنے میں زیادہ محنت لگتی ہے۔
عبیداللہ خواجہ نے پروجیکٹ مینجر کیلئے تین چیزوں کا خاکہ پیش کیا، ہم آہنگی پیدا کرنے اور اثرو رسوخ کو بروئےکار لانے کی صلاحیت، اور ایک بہترین پروڈکٹ ہاتھ میں آنے کا انتظار کرنا۔
ایک بار پھرہمیں مدنظر رکھنا ہو گا کہ ڈگریوں اور ملازمتوں کے درمیان باہمی ربط ایک سپیکٹرم پر ہوتا ہے۔ ایک ایسا سپیکٹرم جس پر میڈیکل پروفیشنل ، لٹریچر گریجوایٹ یا مینیجمنٹ سائنسز میں ڈگری ہولڈر سبھی ایک ہی انتظامی عہدے کیلئے ممکنہ امیدوار ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ آپ پروجیکٹ مینمجنٹ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرکے اسکے علمی اور تعلیمی پہلو کے حوالے سے کافی کچھ سیکھ سکتے ہیں، لمز کے فارغ التحصیل کراچی کے کچھ طلباء نے نیشنل انکیوبیشن سینٹر کے سیشن کے دوران حاضرین سے اپنی کہانیاں شئیر کیں جن سے یقیناََ آپکو اس کیرئیر سے متعلق جاننے میں مدد ملے گی۔
عبیداللہ خواجہ نے ایک چیز پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں سافٹ وئیر ڈویلپرز، ڈاکٹرز اور وکلاء کی مانند پروجیکٹ مینجرز کی کوئی کمیونٹی موجود نہیں ہے، شائد دیگر بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پاکستان میں زیادہ طلباء پروجیکٹ مینجمنٹ کی جانب نہیں آتے۔ یہ بات اس حقیقت سے مزید واضح ہوسکتی ہے کہ 174 میں سے صرف 37 یونیورسٹیاں یہ کورس پڑھا رہی ہیں۔

تاہم اس کا ایک مخلتف زاویہ یہ بھی ہو سکتا کہ بہت سارے طلباء سپلائی چین مینجمنٹ اور آپریشنز مینجمنٹ میں چلے جاتے ہیں گوکہ پروجیکٹ مینجمنٹ کی یہ چھوٹی کیٹیگریز ہیں لیکن تعلیمی اداروں میں جب ڈگریاں بانٹ کر پیسہ کمانے کی بات آتی ہے تو یہی دونوں ڈگریاں سب سے زیادہ مقبول بھی ہیں۔
تمباکو سے لیکر سٹیل مینوفیکچرنگ، بینکنگ، تیل اور گیس کی تلاش تک پروجیکٹ مینجرز کی ضرورت ہر انڈسٹری کو ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اس شعبہ تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی اور کمپنیوں کو ناتجربہ کار اور ایسے لوگوں کو بطور مینجرز ذمہ داریاں سونپنا پڑتی ہیں جن کی اس شعبے کی مہارت ہی نہیں ہوتی۔
عبیداللہ خواجہ نے اپنی تقریر میں جن چیزوں کا ذکر کیا ان میں سے ایک چیز تھی کسی کمپنی کے نکتہ نظر کی اہمیت اور اسکے اندر کا کلچر۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ میں مائکروسافٹ میں کام کر رہا تھا اور پاس ہی ایمازون کا دفتر تھا لیکن اس وقت کوئی بھی ایمازون کو سنجیدہ نہیں لیتا تھا۔ جب مائیکروسافٹ نے Vista کو ری سیٹ کیا تھا اسی دوران میں نے کمپنی میں شمولیت اختیار کی تھی اور تب کمپنی میں مکمل ابتری کی صورتحال تھی، لیکن ان کا تصور انہیں دوبارہ عروج میں لے آیا۔‘‘
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب پروجیکٹ مینجمنٹ کی بات آتی ہے تو تمام معاملات کے نگران شخص کو کوآرڈینیٹر بھی بننا چاہیے اور وہ کام ایسےہی آنا چاہئے جیسے کہ یہ اسکی ہی ذمہ داری ہے۔ ’’یہاں تک کہ آپ کے ملازمین بھی آپ کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، لیکن اگر آپ کو معلوم نہیں ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں اور یہ کس حد تک قابل حصول ہے تو پھر ملازمین کو تنہا چھوڑ دیں۔‘‘
ان کا خیال ہے کہ ایکسٹرنل کمپنیوں کے ذریعے اپنے برانڈ کی مارکیٹنگ اور انتظام کرانے کا آئیڈیا بھی اب اپنی اہمیت کھو رہا ہے، اب کمپنیاں اپنی مارکیٹنگ کمپین خود چلانے کی طرف آ رہی ہیں۔
پروجیکٹ مینجمنٹ میں ویسے تو کافی کچھ شامل ہے لیکن اسکا آغاز کسٹمرز کے قریب تر ہونے سے ہوتا ہے، ’’جب تک آپکی پروڈکٹ کچھ کما نہ رہی ہو اور کوئی اس کیلئے ادائیگی نہ کر رہا ہو تب تک آپ اس پروڈکٹ کو مارکیٹ میں نہیں چلا سکتے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ پروجیکٹ مینجر کو عام لوگوں کے قریب ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔
عبیداللہ خواجہ نے کہا کہ پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہی ٹھیک لگتا ہے کہ عام لوگوں کے قریب تر ہوا جائےاور مارکیٹ کے حقائق اور ٹرینڈز کو مد نظر رکھ کر کام کیا جائے۔
رائڈ شئرنگ سروسز اوبر اور ہیلو (Hailo) کا حوالہ دیتے ہوئے خواجہ نے کہا کہ اوبر نے براہ راست کسٹمرز سے رابطہ کرکے انکی ڈیمانڈ کو پورا کیا جبکہ ہیلو نے صرف ڈرائیورز سے رابطہ رکھا، حالانکہ دونوں کے کرائے کا موازنہ کیا جائے تو اوبر پچاس فیصد مہنگی ہے۔ اس کے نتیجے میں اوبر آجکل سرفہرست ہے جبکہ ہیلو کا وجود ہی نظر نہیں آتا، 2016 میں ہیلو مائی ٹیکسی میں ضم ہو گئی تھی۔ جو اب Free Now کے نام سے کام کر رہی ہے۔
کسٹمرز کیساتھ رابطہ بڑھانے اور اپنی ٹیم کو اس پر فوکس رکھنے کیلئے عبیداللہ خواجہ نے Power of soft influence کا بار بار ذکر کرتے ہوئے کہ ایسا تب تک ممکن نہیں جب تک پروجیکٹ مینجر خود اپنے مقاصد میں واضح نہ ہو جو وہ اپنی ٹیم اور پروڈکٹ سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے ائیرلفٹ کے پروجیکٹ مینجر عثمان گل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب وہ اپنی ائیرلفٹ میں نوکری کیلئے کسی کا انٹرویو کرتے ہیں تو اسے یہ ٹاسک بھی دیتے ہیں کہ کم از کم 100 افراد ائیرلفٹ میں لیکر آئیں، اس طریقہ سے آپکو اپنے ملازمین کی صلاحیتوں کا تجزیہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘‘
’’عملدرآمد‘‘ کے بارے میں عبیداللہ خواجہ نے کہا کہ بہت سے انٹرپرنیورز کے پاس بے شمار آئیڈیاز موجود ہوتے ہیں لیکن وہ اسے تب تک ملتوی کیے رکھتے ہیں جب تک انہیں یقین نہیں ہوتا کہ ان کی پروڈکٹ کامیاب ہو گی، یہ ایک پروجیکٹ مینجر کیلئے بالکل غلط چیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ پروڈکٹ بروقت لانچ کر دیتے ہیں تو آپ اس کے بارے میں کسٹمرز کی رائے بروقت جان سکیں گے اور آپ مارکیٹ کی ضرورت کے بارے بھی معلوم ہو سکے گا کہ جس چیز کو آپ اور آپکی ٹیم بہترین سمجھ رہے ہیں وہ مارکیٹ میں چل بھی سکتی ہے یا نہیں۔
نیشنل انکیوبیشن سینٹر کے سیشن کے دوران ٹیکسٹائیل انڈسٹری کے معروف برانڈ ’’Limelight‘‘ اور اس میں آنے والی تبدیلیوں پر بھی بات ہوئی، کسی زمانے میں مکمل مغربی ملبوسات کا یہ برانڈ اور مکمل طور پر مشرقیت کو اپنا چکا ہے۔
ایڈورٹائزنگ انڈسٹری میں کام کرنے والے ایک پروجیکٹ مینجر یونس خان نے بتایا کہ پروجیکٹ مینجر کو ’’تبدیلی کو قبول‘‘ کرنا سیکھنا پڑتا ہے۔ یہ تبدیلی کبھی کبھار کسی خطرے کی صورت بھی سامنے آتی ہے لیکن یہ پروجیکٹ مینجر پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کیسے کنٹرول کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’جب سوشل میڈیا سائٹس اور یوٹیوب پر اشتہارات دئیے جانے لگے تو بہت سی ایڈ ایجنسیوں نے جو اشتہار ٹی وی کیلئے تیار کیے تھے وہی تھوڑی بہت تبدیلی کیساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کیلئے بھی جاری کردئیے، لیکن انہوں نے کام یہ کیا کہ صارف کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو کھولنے کے پہلے پانچ سیکنڈ کے دوران اشتہار چلایا تاکہ اس دوران ہٹایا نہ جا سکے۔ یا پھر اشتہارات کو مزید جازب نظر بنا دیا تاکہ صارف اسے دیکھے بنا رہ نہ سکے۔ یہ سب کچھ پروجیکٹ مینجر کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے یا خطرے سے نمٹنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے اور کیسے موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
عبیداللہ خواجہ نے بھی ایسا ہی ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہر ٹارگٹ لازمی نہیں کہ حاصل ہو سکے۔
’’Flickable پر ہمارے پاس OFFICEShoes نام کی ایک ایپ موجود تھی، مختصر دورانیے میں یہ چھ لاکھ سے زائد مرتبہ ڈائون لوڈ ہوچکی اور اس سے ہمیں 4 ملین ڈالر کمائی ہوئی، ہم نے اس سے حاصل شدہ ڈیٹا سے فائدہ اٹھا کر ایپ کو مزید بہتر بنانے کا سوچا لیکن اس سے پہلے ہی ایپ میں مسئلہ پیدا ہو گیا اور ہمارا کام ملتوی ہو گیا، جب تک ہم موبائل ایپ سے وہ مسئلہ حل نہ کرتے تب تک ہم اس ایپ کے نئے ورژن پر کام نہیں کرسکتے تھے۔‘‘
بات کو سمیٹتے ہوئے خواجہ نے کہا کہ آپ کا پروجیکٹ ایک خالی کینوس کی طرح ہوتا ہے، انجنئیرز، کیو اے ٹیم، ڈیزائنرز اور مارکیٹنگ سٹاف کی صورت میں آپکے پاس مختلف رنگ موجود ہوتے ہیں اور صرف آپ ایسے شخص ہوتے ہیں جس نے دستیاب وسائل کو کام میں لاکر ایک تصویر بنانا ہوتی ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مختلف ٹیمیں بیٹھیں گی اور مسئلے کا حل نکالیں گی بلکہ بطور پروجیکٹ مینجر وہ حل آپ نے ہی دینا ہوتا ہے۔
ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ کسی پروجیکٹ کی منصوبہ بندی سے لیکر اس پر عملدرآمد تک ہر چیز کا ذمہ دار صرف اور صرف پروجیکٹ مینجر ہوتا ہے، اس لئے اگر آپ کارپوریٹ سیکٹر میں اپنا کیرئیر بنانا چاہتے ہیں لیکن روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ’پرانے‘ بھی نہیں ہونا چاہتے تو پروجیکٹ مینجمنٹ میں آ جائیں۔
رپورٹ: سیدہ معصومہ