روزانہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص کہے کہ فلاں کمپنی جس نے گزشتہ سال 11.9 ارب روپے منافع کمایا وہ اب مشکلات سے دوچار ہے، لیکن اس سے انکار بھی ممکن نہیں، حب پاور کمپنی (حبکو) جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسر (آئی پی پی) ہے وہ کافی مشکلات کا شکار ہے۔

حبکو کا بیس پلانٹ جو کہ 80 فیصد سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے وہ 2019 کی تیسری سہ ماہی کے دوران 1.3 فیصد کے لوڈ فیکٹر کیساتھ بند ہو چکا ہے، لوڈ فیکٹر کسی پلانٹ کی زیادہ سے زیادہ بجلی کی پیداوار کا تناسب ہوتا ہے جو کسی مخصوص مدت کے دوران استعمال کی گئی ہو۔ گزشتہ مالی سال کے دوران آمدنی میں بھی 41.9 فیصد کمی ہو چکی ہے، حالانکہ کمپنی کی نیٹ انکم

نسبتاََ مستحکم ہے پھر بھی سنہء 2000 کے بعد پہلی بار 2019ء میں حبکو اپنے شئیر ہولڈرز کو ادائیگیاں نہیں کر پائی۔

توانائی سیکٹر گو کہ 2018-19 کی کساد بازاری سے نکل رہا ہے لیکن حبکو میں معاملات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں، نیپرا کے مطابق رواں سال کی تیسری سہ ماہی کے دوران ملک میں بجلی کی پیداوار میں سال گزشتہ کے اسی عرصہ کی نسبت 3.9 فیصد اضافہ ہوا تاہم اسی عرصہ میں حبکو کے مین پلانٹ پیداوار میں 90 فیصد کمی ہوئی۔

یہ واضح طور پر حبکو کیلئے مشکل وقت ہے، کمپنی کی کارکردگی اُس سیکٹر میں اتنی خراب کیوں ہے جس میں کبھی وہ نمایاں تھی؟ اور انتظامیہ کے پاس مسائل کا حل کیا ہے؟

حبکو کے مسائل ہمیشہ کی طرح ایک جیسے ہیں، کمپنی نے مسلسل اس خراب ایندھن کا استعمال پاور جنریشن کیلئے کیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا، اچھے وقت میں ضرورت کے مطابق اوورہالنگ نہیں کی، اسکے علاوہ کمپنی بیوقوفانہ حد تک حکومتی وعدوں پر یقین کرنے کی عادت میں مبتلا ہے۔

آئی پی پیز میں اولین کمپنی:

حب پاور کمپنی پاکستان کی پہلی انڈی پینڈنٹ پاور کمپنی ہے جو 1991 میں لگائی گئی، اسکے کچھ ہی سالوں بعد 1994 میں ورلڈ بینک نے پاکستان میں آئی پی پیز قائم کرنے کیلیئے تعاون کرنا شروع کردیا، حالانکہ ورلڈ بینک 1985 سے حکومت سے اصرار کر رہا تھا کہ بجلی پیدا کرنے والے سرکاری کمپنیوں پر ہی انحصار کی بجائے حکومت نجی کمپنیوں کو آزادانہ طور پر بجلی بنانے کی اجازت دینے کیلئے آئی پی پیز پالیسی مرتب کرے تاکہ کمپنیاں اپنی بجلی قومی گرڈ کو فروخت کرسکیں۔

حب پاور کمپنی کیلئےمسئلہ تب کھڑا ہوا جب اس نے تیل سے بجلی بنانا شروع کی جس کی قیمت سب سے زیادہ غیر مستحکم رہتی ہے اور پاکستان اسکی زیادہ مقدار درآمد کرکے ہی ضرورت پوری کرتا ہے۔  نتیجتاََ سرکاری تقسیم کار اور ترسیلی کمپنیوں کو حبکو سے بجلی خریدنا پڑی جس کی قیمتوں میں اتار چڑھائو آتا رہتا تھا اور حکومت کو پہلے ایسا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا۔

حبیب اللہ خان ۔۔۔ چیئرمین حب پاور کمپنی

کمپنی کے 1292 میگاواٹ کے پہلے فرنس آئل پاور پلانٹ نے حب بلوچستان میں مارچ 1997ء میں کام شروع کیا لیکن جلد ہی واپڈا کیساتھ مسائل کا شکار ہو گیا۔ اس مسئلے کا ایک حصہ وقت کا انتخاب تھا، مارچ 1997 میں نواز شریف کو دوسری بار وزیر اعظم بنے محض ایک ماہ ہوا تھا، آئی پی پی پالیسی بھی ورلڈ بینک کی بنائی ہوئی تھی اوراس پرغورو خوض ضیاء دور سے جاری تھا۔ تو نواز شریف انتظامیہ کیلئے یہ آسان تھا کہ وہ اس پالیسی کو سرکاری خرچے اور بجلی صارفین کے پیسے سے پاور کمپنیوں کی حمایت میں پیش کرے۔

واپڈا حبکو سے جو بجلی خرید رہا تھا اسکی ادائیگیاں تاخیر کا شکار ہونے لگیں اور یوں جھگڑا پیدا ہو گیا، یہاں تک حکومت کو اس مسئلے سے بچنے کیلئے ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) کیساتھ معاہدے کرنے پڑے۔ درحقیقت ورلڈ بینک نے دنیا میں پہلی بار کسی انڈی پینڈنٹ پاور پلانٹ کیلئے قرضہ سرمایہ کاری کی شکل میں دیا۔

اس کا مقصد دیگر مقامی اور عالمی سرمایہ کاروں کو مالیاتی تحفظ کا احساس دلانا تھا، ایسے میں سرکاری کمپنیوں کی جانب سے ادائیگیوں سے انکار حکومت پاکستان کے ورلڈ بینک سے لیے گئے قرضوں میں اضافہ کرسکتا تھا۔ اور پھر ریٹرن ریٹس کا مسئلہ بھی تھا جو حبکو کے کنٹریکٹ میں درج تھے۔

آئی پی پی کنٹریکٹ کا ڈھانچہ:

تاریخی طور پر تو ایسا ہوتا آ رہا تھا کہ جو کمپنی آپکے گھر میں بجلی سپلائی کرتی ہے اسی کمپنی نے شہر کے کسی صنعتی علاقے میں یہی بجلی پیدا کی ہوگی، وہی ترسیلی لائنوں کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہو گی۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک خاص طور پر امریکا میں 70ء کی دہائی میں توانائی کے وسائل میں تنوع کا رجحان شروع ہوا، 1973 میں امریکا میں توانائی کا بحران پیدا ہوا اور آئندہ ایسے کسی بحران سے نمٹنے کیلئے1978ء میں کانگرس نے پبلک یوٹیلیٹی ریگولیٹری پالیسیز ایکٹ (PURPA)  پاس کیا، اس طرح آئی پی پیز کو توانائی کے شعبے میں شامل کرنے کا طریقہ کار بنایا گیا۔ اس کا مقصد جن مسائل کو حل کرنا تھا ان میں شمال تھا کہ : استعمال کنندگان اپنے پاور پلانٹس لگائیں اور جتنی ممکن ہو بجلی خرچ کرنے کریں، گھریلو اور کمرشل صارفین کو فراہم کریں، اور بیس لوڈ کو درست رکھیں۔ تاہم ایسے پاور پلانٹ لگانے کیلئے متعلقہ لوگوں کے پاس پیسہ تھا اور نہ ہی ایسی قابلیت کہ وہ بیس لوڈ کنٹرول کر سکتے، خاص طور پر گرمیوں میں جب اے سی وغیرہ کی وجہ سے بجلی کا استعمال بڑھ جاتا۔ تاہم 1973 کے بحران کی وجہ سے امریکی حکومت اس مسئلے کا مستقل حل ڈھونڈنے پر مجبور ہوئی اور یوں اس نے آئی پی پیز متعارف کرائیں تاکہ لوگوں کو بجلی میسر آ سکے۔

یہ امریکی ماڈل دنیا بھر کیلئے مثال بن گیا اور بعد ازاں حبکو ایسا ہی پاور پلانٹ تھا جو کسی ترقی پذیر ملک میں اس ماڈل پر لگایا گیا، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حبکو کو ادائیگیاں کیسے کی جاتی تھیں اس طرح یہ سمجھ آ جائیگا کہ امریکی ایکٹ PURPA سے امریکا میں کیا تبدیلی آئی،  1994 میں پاکستان میں آئی پی پیز کے حوالے سے بننے والی پالیسیاں بھی اسی ایکٹ کا چربہ تھیں۔

الیکٹرک کمپنیوں کا سب سے بڑا یہ  ہے کہ وہ شروع ہی اجارہ داری سے ہوتی ہیں، کسی ایک بڑے شہر میں ایک سے زیادہ بجلی کی کمپنیوں کا کام کرنا بے حد مشکل ہے، آپ ایک سے زیادہ کمپنیوں کمپنیوں کی سپلائی لائن اپنے گھر کیلئے حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ اول تو ایسا ہو گا نہیں اور اگر ہو بھی گیا تو بے حد مہنگا پڑے گا۔

 اس کا مطلب ہے کہ حکومتیں بجلی کی قیمتوں کو خود اس لیے ریگولیٹ کرتی ہیں تاکہ کمپنیاں اپنی اجارہ داری کا غلط استعمال نہ کرسکیں، تاہم آئی پی پیز کی شکل میں ایک نیا گروپ تشکیل دیا گیا ہے جو بجلی کی کمپنیوں کی اجارہ داری کے تابع ہو گا۔

اس کے علاوہ آئی پی پیز میں سرمایہ کاری کرنے والے انویسٹر کیلئے مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں زیادہ تر جگہوں پر ان سے بجلی خریدنی والی ایک ہی کمپنی ہوتی ہے اور وہ بھی حکومت کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ تو اس حوالے سے خدشات رہتے ہیں کہ شائد وہ کمپنی آپ کی پیدا کردہ بجلی خریدے یا انکار کردے، ایسے میں آئی پی پیز  کو گارنٹی چاہیے ہوتی ہے کہ انکی بنائی گئی بجلی ضرور خریدی جائیگی۔ یہی وجہ سے کہ آئی پی پیز کے کنٹریکٹ ’’take or pay‘‘ کی بنیاد پر طے پاتے ہیں، پاکستان میں واپڈا یا سینٹرل پاور پرچیزنگ اتھارٹی (CPPA) آئی پی پیز سے بجلی خریدتی ہے۔ آئی پی پیز کو بجلی کے جو نرخ ادا کیے جاتے ہیں وہ اس سے مختلف ہوتے ہیں جو کمپنیوں کو صارفین ادا کرتے ہیں، اس لیے یہ نرخ دو حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں: پاور چارجز اور کپیسٹی چارجز۔ یوں آئی پی پیز کا پرافٹ مارجن فکس ہو جاتا ہے، جو ریٹرن آن ایکویٹی (ROE) یا پھر انٹرنل ریٹ آف ریٹرن (IRR) پر مقرر کیا جا سکتا ہے، پاکستانی آئی پی پیز پالیسی میں فکسڈ پرافٹ مارجن امریکی ڈالرز کے حساب سے مقرر کیا گیا ہے اور ہر سال ڈالر کی قدر میں اتار چڑھائو کے مطابق مقرر کیا جاتا ہے۔

آئی پی پی پالیسی 1994ء کے مطابق حبکو کو امریکی ڈالرز میں 17 فیصد انٹرنل ریٹ آف ریٹرن کا حقدار قرار دیا گیا ہے، یہ کچھ زیادہ لگتا ہے خاص طور پر جب کسی کی توجہ اس طرف جاتی ہے کہ امریکا میں آئی پی پیز کو 10 فیصد انٹرنل ریٹ آف ریٹرن ملتا ہے جو وہاں مہنگائی کے حساب سے مقرر نہیں کیا جاتا، چونکہ امریکا کی نسبت پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا زیادہ پر خطر ہے تو بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری پر اکسانے کیلئے ضروری تھا کہ حکومت اس قدر زیادہ انٹرنل ریٹ آف ریٹرن مقرر کرتی۔

اور پھر یہ 17 فیصد کا نمبر بھی گمراہ کن ہے، اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ حکومت نے بجلی کے ہر یونٹ پر 17 فیصد پرافٹ مارجن کی اجازت دے رکھی ہے، جب کوئی پلانٹ اپنی 60 فیصد کپیسٹی میں چل رہا ہو تو عام طور پر کمپنی کیلئے پرافٹ مارجن چار سے چھ فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا۔

باالفاظ دیگر 17 فیصد انٹرنل ریٹ آف ریٹرن کا یہ بھی مطلب نہیں کہ حکومت 10 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے تو آئی پی پی فی یونٹ 1.7 روپے منافع کما رہا ہے۔ جب سسٹم بالکل ٹھیک کام کر رہا ہو تو آئی پی پیز 0.40 روپے سے 0.60 روپے کے درمیان منافع لے رہی ہوتی ہے۔

لیکن واقعی ، جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں ، عام صارفین کے پیسے سے آئی پی پیز کو ضرورت سے زیادہ گرانٹ دی جاتی ہے اور ایسا ظاہرکرنا بھی آسان رہتا ہے، یہی بات نواز انتظامیہ نے اپنے عہدے کے دوسرے دور حکومت میں کی تھی۔

جھگڑا اور واپڈا کے ساتھ ڈیل:

نواز شریف کی دوسری حکومت نے واپڈا اور حبکو کے مابین 30 سالہ بجلی خریداری کے معاہدے (پی پی اے) کے تحت حبکو کو وہ نرخ ادا کرنے سے انکار کردیا جس پر 1997 کے اوائل میں دستخط ہوئے تھے۔ نتیجتاََ حکومت کمپنی کے ساتھ طے شدہ معاملات پر کوتاہی برتنے لگی جس پر ورلڈ بینک اور حبکو بار بار حکومت سے بات چیت کرتے رہے۔ جھگڑا پانچ سال چلا، اس دوران حبکو کو حکومت کی جانب سے ادائیگیاں بھی نہیں کی گئیں، مشرف مسند اقتدار پر بیٹھے تو سابق حکومت کی کارگزاریوں پر نظر ڈالنا شروع کی تو ان کے علم میں یہ معاملہ آیا، جس کے بعد بالآخر تنازعہ حل ہو گیا تاہم اس کاروبار دوست انتظامیہ کے تحت بھی تین سال تو لگ گئے۔

2002 میں حکومت نے حبکو کے ساتھ ایک نظر ثانی شدہ معاہدے پر دستخط کیے، جس میں انٹرنل ریٹ آف ریٹرن کو حبکو کیلئے 17 فیصد سے کم کرکے 12 فیصد کردیا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ صدر مشرف اور وزیر اعظم شوکت عزیز بھی اس بات کے قائل ہو چکے تھے کہ منافع کا مارجن بہت زیادہ ہے۔

زرداری حکومت اورپھر نواز شریف کا تیسرا دور:

مشرف دور میں حبکو زیادہ تر بطور peaker  استعمال کیا جاتا تھا، یہ ایسے پاور پلانٹ ہوتے ہیں جو قومی گرڈ کے لئے بجلی کے بہت زیادہ لوڈ (peak load)  کو سنبھالنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور بیس لوڈ کا حصہ نہیں ہوتے،یہ ہر وقت چلنے والے پلانٹس ہوتے ہیں کیونکہ انکی بجلی ہر وقت استعمال ہورہی ہوتی ہے۔

2008ء میں مشرف گئے تو زرداری دور کے آغاز میں حبکو کی صورتحال ایک بار پھر بدل گئی، ستمبر 2007 میں تیل کی عالمی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں اور 1980 کی دہائی کے بعد پہلی بارہو رہا تھا۔ تیل کی قیمتیں 2007 میں اور 2008 کے پہلے نصف تک میں بڑھتی رہیں، یوں تیل سے چلنے والی بجلی گھر انتہائی مہنگے ثابت ہونے لگے، اور ہر کوئی سوچ سکتا تھا کہ ملک کے سب سے بڑے تیل سے چلنے والے بجلی گھر کے لئے بھی برا ہوگا۔ خوش قسمتی سے اس وقت دو چیزیں ایسی رونما ہوئیں جو حبکو کے حق میں جا رہی تھیں۔

پہلی چیز یہ ہوئی کہ مشرف نے اعلان کیا کہ ہر حلقے میں گیس پہنچائی جائے لیکن انہی دنوں گیس کی قلت پیدا ہونا شروع ہو گئی، جس سے گیس پر چلنے والے بجلی گھر بھی بند ہونا شروع ہو گئے، حالانکہ ملک بھر میں سی این جی اسٹیشن کھل چکے تھے، مشرف نے ٹیکسٹائل اور فرٹیلائزر سیکٹرز کو ہمہ وقت گیس فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ سرکاری بجلی گھر یا تو فرنس آئل سے چلتے تھے یا پھر قدرتی گیس پر تو گیس کی قلت کی صورت میں جب بجلی گھر بند ہونے لگے تو انہیں فرنس آئل پر منتقل کرنا پڑا، اس سے پیدا ہونے والی بجلی قدرے مہنگی پڑی، تاہم یہ ضرور ہوا کہ حکومت نے ان پلانٹس کو مکمل بند نہیں کیا۔ تاہم اس کے لیے بھاری سبسڈیز دینا پڑیں تاکہ صارفین کو بجلی سستی مل سکے۔

یوں بات پھر آئی پی پیز پر آ گئی، 2007 سے 2018ء تک تربیلا اور منگلا ڈیمز پر موجود ہیڈروپاور پلانٹس حسب طاقت ملکی ضرورت پوری کرتے رہے لیکن ان کیساتھ تیل پر چلنے والے آئی پی پیز بھی اپنا حصہ ڈالتے رہے۔

پھر غلطی کہاں ہوئی؟

اس کی کوئی وجہ نہیں کہ آئی پی پیز کو بطور بیس لوڈ استعمال نہیں کیا جاسکتا ، لیکن ٹیکسٹائل ملوں کی ملکیت کم موثر بجلی گھروں کو سستی گیس فراہم کرنا اور تیل سے چلنے والے بجلی گھروں کو بیس بوجھ کے طور پر استعمال کرنا سراسر وسائل کا غلط استعمال تھا۔

لیکن یہی کام دس سال تک چلتا رہا کیونکہ حکومت سبسڈیز کی صورت میں ایک خطیر رقم ان بجلی گھروں کو دیتی رہی، جس کا نتیجہ ایک بڑے گردشی قرضے کی صورت میں نکلا اور چھوٹے بڑے شہروں میں 12، 12 لوڈشیڈنگ ہوتی رہی تو کہیں تو کچھ غلط ضرور تھا۔

نواز شریف 2013ء میں تیسری بار ایوان اقتدار میں پہنچے تو بجلی کا مسئلہ حل کرنا بھی ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا۔ ان کا پلان بالکل سادہ تھا کہ اگر ملک میں ناکافی بجلی پیدا ہو رہی ہے اور جو ہو رہی ہے وہ بے حد مہنگی ہے تو بیک وقت اضافی اور سستی بجلی پیدا کرکے دونوں مسائل کو حل کیا جائے، اور اپنے پانچ دور میں بے شمار رکاوٹوں کے باوجود وہ چاہتے تھے کہ یہ سب تیزی سے مکمل ہو۔ حکومت کی حکمت عملی یہ تھی کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے، کیونکہ یہ سستا ترین ذریعہ ہے اور اگر تیزی سے کول پاور پلانٹس لگائے جائیں تو بجلی کی اوسط لاگت بھی کم ہو جاتی ہے۔ اس منصوبے نے کام کر دکھایا اور مسلم لیگ ن کے پانچ سالوں کے دوران پاکستان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں 50 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 24 ہزار میگاواٹ سے 36 ہزار میگا واٹ پر چلی گئی، کم و بیش ساری اضافی بجلی کول پاور پلانٹس سے پیدا ہوئی۔

لیکن کول پاور پلانٹس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ پنجاب کے اکثر علاقوں میں سردیوں کے دو مہینے سموگ چھا جاتی ہے۔

حکومت کی ترجیح جب کول پاور پلانٹ بننے لگے اور چونکہ کوئلے سے بجلی سستی پڑ رہی تھی تو حکومت نے اسی حکمت عملی پر کام کیا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ حبکو جیسے تیل پر چلنے پر والے بجلی گھر اب حکومت کی ترجیح نہیں رہے تھے، نتیجتاََ 2013ء تک جو تیل سے چلنے والے بجلی گھر 36 فیصد بجلی تیار کر رہے تھے 2019ء میں وہ محض 7.4 فیصد بجلی پیدا کر رہے ہیں۔

اس سب کے نتیجے میں حبکو کو کپیسٹی چارجز کی مد میں سالانہ آدھی آمدنی سے محروم ہونا پڑا کیونکہ اس کے مرکزی پلانٹ سال کے زیادہ تر دنوں میں بند پڑا رہتا، حالانکہ کہ حبکو انتظامیہ اس بات سے آگاہ ہے کہ اگرچہ کپیسٹی چارجز کے وہ قانونی حقدار ہیں لیکن صرف کپیسٹی چارجز کی ادائیگیوں پر اکتفا کرکے ایک پائیدار بزنس ماڈل کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔

پرافٹ اردو کو ایک بیان میں حبکو کے چیئرمین حبیب اللہ خان نے بتایا کہ ’’ہمارا حکومت کیساتھ معاہدہ (پاور پرچیز ایگریمنٹ) 2027ء میں ختم ہو گا اور اسکے کسی مناسب حل کی ہم کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

تاہم یہ بات واضح ہے کہ کمپنی کے مالکان کم از کم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ صرف اس وجہ سے کہ کمپنی کسی چیز کی حقدار ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے ممکنہ حد تک حکومت کا بوجھ ہلکا نہیں کرنا چاہیے۔

حبیب اللہ خان نے بتایا ’’گردشی قرضے کی مد میں ہم نے حکومت کو دو آپشن دئیے تھے۔ پہلا یہ کہ 300 میگا واٹ کے دو یونٹس کو کول پاور پلانٹس پر منتقل کر دیا جائے، اس کے متبادل کے طور پر ہم حب میں اپنے چار یونٹ کوئلے پر منتقل کرکے کے الیکٹرک کو بجلی دینے پر تیار ہیں۔‘‘

جب چار یونٹس کو کوئلے پر منتقل کرنے کی آپشن موجود ہے اور سستی بجلی بھی ملنے کی توقع ہے تو پھر دو یونٹس ہی کیوں کوئلے پر منتقل کیے جائیں؟ کیونکہ پہلے آپشن کی صورت میں حبکو کیلئے دیگر امکانات روشن ہو جائیں گے، وہ صرف بجلی کمپنی سے بجلی اور پانی دونوں کاروباروں میں آ سکتی ہے۔

حبیب اللہ خان نے مزید کہا ، “ہم کراچی میں پانی کی قلت دور کرنے کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر پانی صاف کرنے والے واٹر پلانٹ میں تبدیل کرنے کے لئے دیگر دو یونٹوں پر بھی غور کریں گے، کمپنی ابھی اس بات کا تعین کر رہی ہے کہ اس طرح کے کام مالی اور کاروباری طو پر موثر ہوگا یا نہیں۔‘‘

اگر یہ پروجیکٹ کامیاب رہا تو کمپنی روزانہ پچاس ملین گیلن پانی کی کمی پوری کرسکے گی، اسکے علاوہ حبکو ڈی ایچ کو روزانہ پانچ ملین گیلن پانی فراہمی کے ایک منصوبے پر علیحدہ سے معاہدہ کرنے کی کوشسش کر رہی ہے۔

اسکے حبکو نے یہ پیشکش بھی کی ہے کہ اگر اسے کے الیکٹرک کو براہ راست بجلی فروخت کرنے کی اجازت ملے تو وہ ترسیلی نظام کو بھی اپ گریڈ کرسکتی ہے۔

تاہم کمپنی کی مرکزی حکمت عملی یہی کہ کوئلے کے پاور پلانٹس پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔

ریسرچ اینالسٹ محمد دانیال کنانی نے ایک تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’حبکو نے 2015ء کی پاپور پالیسی، سی پیک اور کول ٹیرف سے فائدہ اٹھایا ہے اور یکدم کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے، چائنا پاور حب جنریشن کمپنی میں 46  فیصد شئیرز، سندھ اینگرو کول مائننگ میں 8 فیصد ایکویٹی، تھر انرجی لمیٹڈ میں 60 فیصد شئیرز، تھل نووا انرجی میں 38.3 فیصد شئیر رکھتی ہے۔

محمد دانیال کنانی ۔۔۔ ریسرچ اینالسٹ

حبیب اللہ خان نے کہا کہ ’’3700 میگا واٹ کے ساتھ حبکو ملک کا سب سے بڑی انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسر بن گئی ہے اور اس کا مارکیٹ شئیر 20 فیصد سے زیادہ ہے، پانی کے پراجیکٹس کے بعد ہم کمپنی کو آئی پی پی سے آئی ڈبلیو پی پی (انڈی پینڈنٹ واٹر اینڈ پاور پروڈیوسر) بنا دیں گے۔ ہم واحد آئی پی پی ہیں جو اپنی صلاحیت میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں اور پاکستان میں بجلی کے شعبے میں مشترکہ طور پر 4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔‘‘

کوئلے کے پاور پلانٹس نے پاکستان کا دس سال پرانا مسئلہ تو حل کردیا ہے لیکن ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے اپنے طور پر ایک مسئلہ بن گیا ہے، اس کے علاوہ ریٹرن ریٹس کے معاملے پر کافی زیادہ سیاسی نگرانی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے کمپنی پر دبائو بڑھتا ہے۔ حبکو انتظامیہ واضح ادراک رکھتی ہے کہ انکا بزنس کلی طور پر حکومت پر انحصار کرتا ہے اور سیاسی صورتحال کا اس پر گہرا اثر پڑتا ہے، اب کوئلے کی جانب سے آکر شائد کمپنی ایک مسئلے سے جان چھڑا کر دوسرے میں گرفتار ہو جائے۔  شائد اسی لیے حبیب اللہ خان حکومت کیساتھ معاہدے کی بجائے کے الیکٹرک کے ساتھ کوئی ڈیل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کے الیکٹرک کو براہ راست بجلی فروخت کرنے سے حبکو کا حکومت پر کپیسٹی چارجز وغیرہ کی مد میں انحصار کم ہو جائے گا، لیکن کیا یہ کافی ہوگاَ؟ شائد ہم دس سال بعد اس طرح کی کوئی پیشرفت دیکھیں گے۔

 رپورٹ: فاروق ترمذی

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here