1999ء ڈاکٹر عشرت حسین کے ورلڈ بینک میں دو دہائیوں پر محیط کیریئر کا آخری دور شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے سنجیدہ اور اعتدال پسند معاشی تجزیہ کار کے حوالے سے اپنا نام بناتے ہوئے اپنی توجہ کا مرکز بڑے مسائل کو رکھا۔ انہوں نے پاکستان کی معاشی تاریخ میں بڑے خلا کی نشاندہی کی اور اس کی تشخیص کیلئے کام کیا۔
مجموعی قومی پیداوار اور ترقی کی شرح پر ہر قسم کا مواد مفصل موجود ہے اور نو آبادیاتی نظام سے چھٹکارے کے بعد پاکستانی معیشت کی کارکردگی پر ہر قسم کے اعداد و شمار اور تفصیلات موجود ہیں۔ اور نہ صرف یہ مواد پہلے سے موجود ہے بلکہ ایشیاء اور افریقہ کی کئی ریاستوں کی تاریخ موجود ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آئیں اور ان اثرات سے چھٹکارا کیسے پا رہی ہیں یا پا چکی ہیں۔
ان اعداد و شمار پر بے شمار تجزیے موجود ہیں جن میں سے کچھ غور طلب، کچھ سخت اور کچھ بورنگ قسم کے ہیں۔ اور ان سے جو کچھ ہمیں پتا چلتا ہے ہو سکتا ہے وہ حقائق سے بالکل مختلف ہو کیونکہ پاکستان کے معاشی سفر میں غیر ممکنہ طور پر اچھی اور غیر معمولی طور پر بری دونوں طرح کی صورتحال رہی ہے۔
آپ ان متضاد اعداد و شمار کو کیسے بیان کریں گے؟ ڈاکٹر عشرت حسین کیلئے اس کا جواب ہمارے سماجی و سیاسی عناصر میں پوشیدہ ہے۔ جس کی وجہ سے اچھے ترقیاتی دور میں بھی کچھ ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس کے فوائد سے فیض یاب ہوئے ہوں گے۔
سب سے پہلا خیال جو ذہن میں آتا ہے وہ آمدن کی غیر منصفانہ تقسیم کی جانب جاتا ہے اور اس کا حل شاید بذات خود ایک بوجھ ہے۔ زیادہ تر ماہر معاشیات غیر سائنسی بنیادوں پر اپنا تجزیہ پیش کر دیتے ہیں۔
امریکہ سائنس، ٹیکنالوجی، اقتصادیات اور ریاضی (STEM) کے اصول کو اپناتے ہوئے معاشی میدان میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ وہاں ماہر معاشیات سیاسی، سماجی اور تخیلاتی رحجانات سے دور بڑے پیمانے پر علمی نظریات متعارف کروانے اور ان پر کام کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور معلومات کے اس تیز ترین دور میں اس قسم کی ریسرچ اب ضرورت بھی بنتی جا رہی ہے۔ لیکن ان ریسرچ اور تجزیوں کا انفرادیت سے کیا لینا دینا جہاں عملی طور پر ان کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔
سیاق و سباق سے آگاہی کے بغیر پاکستان جیسی ریاست کی معاشیات کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ نوآبادیاتی دور کے بعد پیدا ہونے والے اثرات، مذہب، رسم و رواج اور اس نئے میڈیا کے بارے میں لا علم ہوتے ہوئے ان حالات کا جائزہ لینا انتہائی مشکل یا شاید ناممکن ہو جو ہمیں اس نہج تک لے آئے؟ یہاں معاملات صرف سیاہ اور سفید نہیں بلکہ ان میں رنگوں کی بہتات رہی ہے۔
ڈاکٹر عشرت ایک سنجیدہ ماہر معاشیات ہیں جنہوں نے بوسٹن یونیورسٹی سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ پولیٹیکل سائنس اور پبلک پالیسی کی اس دنیا میں انہیں ان پوشیدہ حقائق سے پردہ ہٹانے کیلئے اپنے ہاتھ بھی گندے کرنے پڑیں گے تاکہ وہ ان سوالات کا جواب حاصل کر سکیں جنہوں نے انہیں اور پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
ان تجربات اور تجزیات کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عشرت حسین نے ایک ہونہار سکالر حمزہ علوی کے تیار کردہ فریم ورکس سے رہنمائی لیتے ہوئے 1999ء میں ایک کتاب مرتب کی جس کا عنوان تھا ’’Pakistan The Economy of an Elitist State (پاکستان: اشرافیہ کی ریاست، اشرافیہ کی معیشت)‘‘کتاب کا عنوان ہی سب کچھ کہہ دیتا ہے لیکن سماجی و سیاسی عناصر کو جس طرح سے اس کتاب میں بیان کیا گیا وہ قابل تعریف ہے۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد سے پاکستانی معیشت میں ڈاکٹر عشرت حسین اہم عہدوں پر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ وہ اکیسویں صدی میں داخل ہونے والی پاکستانی معیشت پر گزشتہ 20 سالوں سے نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں اور حکومت کی انتظامی ٹیم برائے معاشیات کا حصہ بھی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں بطور ڈین اپنے فرائض سرانجام دینے کے دوران انڈیپینڈنٹ ریسرچر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ وہ امریکی تھنک ٹینک میں کام کرتے تھے اور وہاں ان کا زیادہ تر وقت پاکستانی معیشت کے رحجانات اور اس کے اثرات پر ریسرچ کرتے ہوئے گزرا۔ ان کی آخری تعیناتی گزشتہ سال وفاقی کابینہ میں تھی جہاں وہ اب تک وزیراعظم کے مشیر برائے اداراتی اصلاحات اور کفایت شعاری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
20 سالوں پر محیط اپنے تجربات کو یکجا کرتے ہوئے ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنی 1999ء کی تصنیف ’’پاکستان: اشرافیہ کی ریاست، اشرافیہ کی معیشت‘‘ کا دوسرا ایڈیشن مرتب کیا ہے۔ آکسفورڈ کی اشاعت کردہ یہ کتاب سابقہ کتاب کا دوسرا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ اگر کسی نے 1999ء کی اس مشہور کتاب کا مطالعہ نہیں کیا تو ان کیلئے عرض ہے کہ یہ کوئی ٹیکسٹ بک نہیں ہے۔ درحقیقت یہ کتاب اکیسویں صدی میں داخل ہوتی ہوئی اشرافیہ کی اقتصادیات پر ایک گہری نظر ہے۔ اس کتاب کے ایک باب میں 2000ء سے 2018ء تک کے دور کو مسئلہ کی اصل جڑ کہا گیا ہے۔
اصل ایڈیشن میں اشرافیہ کی سیاست کے پیچھے سیاسی ہلچل، فوجی آمریت اور بین الاقوامی عدم استحکام جیسے عناصر کی جانب اشارہ کیا گیا تھا۔ 20 سال کے تفصیلی مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر متوقع حالات اور ضرورت کے علاوہ بھی بہت کچھ ایسا ہے جس کی جانب ہماری توجہ تاحال مبذول نہیں ہو سکی۔
ایسا نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں سیاسی عدم استحکام میں فوجی آمریت کا عمل دخل نہیں رہا لیکن پاکستان میں اقتدار کے جمہوری انتقال سمیت کئی ایسے تجربات ہوئے جو پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ ایک فوجی آمر اور تین مختلف سیاسی جماعتوں کو باری باری اشرافیہ کی اس معیشت میں اصلاحات کی ذمہ داری ملی اور اس امر کے شواہد بھی ملے کہ پاکستان کو ان مسائل سے نکلنے کیلئے انتہائی مشکلات اور نامساعد حالات کا سامنا رہے گا۔
ڈاکٹر عشرت حسین کا حالیہ عہدہ بھی اس کتاب کے دلچسپ پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ گو کہ وہ موجودہ حکومت کی کابینہ کے ایک رکن ہونے کی حیثیت سے حکومتی اقدامات کو مثبت قرار دیتے ہیں لیکن کتاب میں نئے اضافے کو ہرگز اس سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ اور کسی بھی موقع پر جانبداری کا مظاہرہ ایک منجھے ہوئے، ایماندار اور بہترین قابلیت کے حامل ماہر معاشیات کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان ہوگا۔
سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب میں نہ صرف موجودہ حکومت بلکہ تمام پچھلی حکومتوں کی کوتاہیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ تمام وہ لوگ جو کسی نہ کسی طرح طاقت اور اقتدار کا حصہ رہے ہیں وہ زیادہ تر ایک مخصوص طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اسی لئے اس ریاست کو اشرافیہ کی ریاست اور اس کی معیشت کو اشرافیہ کی معیشت کہا گیا ہے۔
ملک کو اس نہج پر پہنچانے والی مسائل کی اصل جڑ اہم کاموں میں دیری ہے۔ آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک عظیم ڈرامہ نگار اور شاعر آسکر وائلڈ (Oscar Wilde) اپنی زندگی کے آخری ایام میں قرضوں میں دھنسے تھے اور دیوالیہ ہو چکے تھے۔ اپنے دوست کے گھر میں جام کے گھونٹ بھرتے ہوئے انہوں نے آخری الفاظ ادا کرتے ہوئے کہا ’’آہ، میری موت میرے مطابق نہیں ہوئی۔‘‘ ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق پاکستان بھی پچھلی دو دہائیوں سے اپنی منشاء کے مطابق نہیں چل رہا اور ہم دعا ہی کر سکتے اس کا انجام بھی ایسا ہی نہ ہو۔
پاکستان: اشرافیہ کی ریاست، اشرافیہ کی معیشت
960