دو منظرناموں کے بارے میں سوچیں، پہلے میں آپ بے حد امیر ہیں، آپکا بچہ ایچی سن، ایل جی ایس، American Lyceum  یا Lycetuff میں پڑھتا ہے، یعنی بڑے بڑے کیمپسز پر مشتمل وہ سکول جو اے لیول کے پر کشش پروگرام دکھا کر آپ سے ایک بڑی رقم بٹورتے ہیں اور اس کے بدلے آپ سے پوری دنیا دے دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔

        آپ کا بچہ امریکا یا یوکے یا پاکستان سے باہر کہیں بھی جانا چاہتا ہے، کیونکہ اس کی کالج کی تعلیم اہم ہے اور آپ بھی وہی چاہتے ہیں جو آپکا بیٹا یا بیٹی چاہتی ہے۔ کم نمبروں کی وجہ سے آپکے بیٹے یا بیٹی کا داخلہ ہاورورڈ یا آکسبریج میں نہیں ہو سکا لیکن پھر بھی آپ اسے کسی چھوٹی یونیورسٹی میں ضرور بھیج دیتے ہیں، جو زیادہ مشہور اور اعلیٰ درجے کی بھی نہیں، لیکن پھر بھی پاکستان کے کسی بھی ادارے سے زیادہ معتبر سمجھی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ فارن ایجوکیشن کا لیبل پاکستان میں زیادہ مانا جاتا ہے۔

        ڈالر 160  روپے سے اوپر بھی ہے تو پھر بھی آپ آسانی سے اپنے بچے کی ٹیوشن فیس دینے کی سکت رکھتے ہیں، لیکن بے شمار دولت ہوتے ہوئے بھی آپ جو کچھ نہیں کرسکتے وہ داخلہ کا مشکل عمل ہے۔ کیونکہ آپ کی تمام تفصیلات خود سے پوری نہیں کرسکتے، ایڈمیشن فارم کو ایسا نہیں بنا سکتے جسے دیکھتے ہی ایڈمیشن اتھارٹی یہ کہے کہ یہی ہمارا مطلوبہ امیدوار ہے۔ تو پھر آپ کیا کرتے ہیں؟

دوسرے منظر میں آپ زیادہ امیر نہیں ہیں، بلکہ بمشکل سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھے ہوئے ہیں، آپ کے بچے چھوٹے سکولوں میں او لیول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور آپ بمشکل ان کی فیسیں اور دیگر اخراجات اٹھا رہے ہیں۔

        لیکن آپ کو ایک امید تب نظر آتی ہے جب آپ کا کوئی بیٹا یا بیٹی ذہین ہو، جو او لیول میں اعلیٰ نمبر لیکر کسی بڑے سکول یا لالج میں داخلے کیلئے سکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، آپکا بچہ ہچکچاتے ہوئے آپکے پاس آتا ہے، وہ بیرون ملک کسی یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتا ہے، اور فنانشل ایڈ یا سکالرشپ کی تلاش میں ہے لیکن اس پر بھی رقم خرچ ہوتی ہے، اس طرح اسے داخلے کے عمل کیساتھ جڑی تمام مشکلات اٹھانی پڑتی ہیں، لیکن آپ بھی اپنے بچے کی بہتری چاہتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں آپ کیا کرتے ہیں؟

        دونوں قسم کی صورت میں جواب ایک ہی ہے، آپ Dignosco کے پاس جائیں، یہ ایک ایجوکیشن کنسلٹینسی فرم ہے جو گزشتہ دس سالوں سے بیرون ملک ایڈمیشنز کے بارے میں رہنمائی فراہم کررہی ہے۔ یہ فرم اپنی سروسز دو ہزار سے لیکر پندرہ لاکھ روپک تک میں فراہم کرتی ہے۔ یہ فرم 2009 میں قائم ہوئی اور لاہور سے ایجوکیشن کونسلنگ سروس شروع کی اب اسکے دفاتر اسلام آباد اور کراچی میں بھی ہیں۔

        Dignosco کے بارے میں سب سے اچھی چیز یہ ہے کہ امیر اور متوسط دونوں طرح کے لوگوں کیلئے قابل رسائی ہے۔ اچھے تعلیمی ریکارڈ کے حامل طلباء جنہیں واقعی مالی مدد کی ضرورت ہوتی ہے انہیں یہاں کافی رعایتی ریٹس پر سروسز مل جاتی ہیں۔

        لیکن Dignosco دراصل کیا ہے؟ کس قسم کی سروسز فراہم کرتی ہے؟ سروسز کے مختلف لیولز کا مطلب کیا ہے؟ سب سے اہم یہ کہ اس تاثر میں کتنی سچائی ہے کہ پروفیشنل کالج کونسلنگ کا دھندہ گندا ہے اور صرف رقم کے حصول کیلئے کیا جا تا ہے۔

        Dignosco سب سے مشہور کالج کونسلنگ فرم ہے، بیرون ملک داخلوں کیلئے مشکوک طریقے استعمال کرنے کے الزامات بھی اس پر لگتے رہے ہیں۔ لیکن ان کا جواب ہے کہ الزامات غلط ہیں۔

’’منافع‘‘ نے اس بات کا جائزہ لیا۔

کلاس کا فرق:

         ظاہری سی بات ہے پاکستانی معاشرے میں طبقاتی تفریق واضح ہے، اس لیے کاروبار میں کسی کے استحقاق کا تصور پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا، اس لیے جب آپ Dignosco  کے بارے میں سوچتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔ بیرونی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا خواب ایک دھاندلی زدہ گیم کی طرح بچپن ہی سے شروع ہو جاتا ہے اور مہنگی ابتدائی تعلیم اس میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے امیر لوگ جب Gignosco جیسی کونسلنگ فرمزکی خدمات حاصل کرتے ہیں تو باہر جا کر پڑھنے کا خواب پورا کرنا ان کیلئے مزید آسان ہو جاتا ہے۔

        تاہم Dignosco  کی انتظامیہ کا کہنا کہ اگر کسی طالبعلم کا تعلیمی ریکارڈ بہترین ہے لیکن وہ مالی سکت رکھتا ہے تو بھی اسے مکمل رقم دینا پڑتی ہے لیکن اگر اچھے تعلیمی ریکارڈ کا حامل کوئی طالبعلم مالی استطاعت نہیں رکھتا تو پہلے طالبعلم کی دی گئی رقم سے اسے سبسڈی مل جاتی ہے۔ لیکن اسے مواقع بمشکل ملتے ہیں۔ یہ چیزیں کمپنی کیلئے اس لیے بہتر ہیں کیونکہ جتنے کامیاب سٹوڈنٹ ان کے پاس آئیں گے اتنی ہی وہ فیس بک پر اشتہار بازی کرسکیں گے۔ لیکن برے تعلیمی ریکارڈ والے طلباء سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

        Dignosco کے بانی اور ڈائریکٹر ابرار رحمان نے کہا کہ اچھے بیرونی کالجز میں جانے والے زیادہ تر پاکستانی طلباء بہترین تعلیمی ریکارڈ یافتہ ہوتے ہیں چاہے وہ مکیمل فیس پر تعلیم حاصل کر رہے ہوں یا پھر سکالرشپ پر۔

        انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک طرح کی سرمایہ کاری ہے، ایک لڑکی کی مثال دی جس کا داخلہ امریکا میں Trinity Collage میں کرانے میں مدد کی، وہ سالانہ صرف 200ڈالر ادا کرنے کی سکت رکھتی تھی، لیکن اس کی ساری فیس اور رہائش وغیرہ کے اخراجات یونیورسٹی نے ادا کیے، ان نے انڈرگریجوایٹ کے پورے چار سالوں کے دوران صرف ایک ہزار ڈالر خرچ کیے جبکہ پورے پروگرام کی فیس 2 لاکھ ڈالر سے 4 لاکھ ڈالر تک تھی۔

        آپ Dignosco  کو ادائیگی کرتے ہیں، تو وہ آپ کیلئے ایسے اقدامات کرتے ہیں جس سے آپ کی رقم بچ جاتی ہے اورآپکو مالی مدد یا پرھ سکالر شپ مل جاتا ہے۔ طالبعلم کو یہ واضح بتایا جاتا ہے کہ اسکا داخلہ ہونے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی لیکن اسے امید ضرور دلائی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ ایک پرخطر سرمایہ کاری ہے جو ضائع بھی ہوسکتی ہے۔

Dignosco کیا کرتی ہے؟

        باہر کی یونیورسٹی میں داخلہ لینا یعیناََ ایک مشکل عمل ہے، ابتدائی طور پر مختلف قسم کے مضامین اور پرسنل سٹیٹمنٹس دینا پڑتی ہیں، داخلہ فارمز، سفارشات، غربت کے ثبوت یہ سب کچھ پیش کرنا پڑتا ہے، اور سب سے اہم ترین چیز افہام و تفہیم کی کمی ہے اور کونسلنگ فرم کا زیادہ تر بزنس بھی اسی سے چلتا ہے۔ جب آپ ان کے دفتر میں جاتے ہیں تو اولین قدم یہ ہوتا ہے کہ آپکو ایک قونصلر کے ساتھ میٹنگ کرنا ہوتی، صرف اس میٹنگ کی فیس 2 ہزار روپے ہوتی ہے، اس کے بعد آپ پر ہے کہ آپ کس قسم کی خدمات لینا چاہتے ہیں۔

        یہاں زیادہ تر اے لیول کے وہ طلباء آتے ہیں جو بیرونی یونیورسٹیوں یا کالجوں میں جا کر اندرگریجوایٹ کرنا چاہتے ہیں، تاہم Dignosco  ہر طرح کے سٹوڈنٹس کی درخواستیں لیتا ہے، عموماََ نوجوان طلباء کو لیا جاتا ہے تاہم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمندوں کو بھی لیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ابرار رحمان نے بتایا کہ وہ گریڈ 6 سے لیکر 45 سال تک کے امیداواروں کو خدمات فراہم کرتے ہیں۔

ابرار رحمان Dignosco کے بانی ڈائریکٹر ہیں، وہ امریکا کی Yaleیونیورسٹی سے گریجوایٹ ہیں، کچھ عرصہ مختلف کونسلنگ فرمز اور سکولز میں کام کرتے رہے لیکن بعد ازاں اپنی فرم قائم کرلی۔

        انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سرکاری اور نجی نظام تعلیم ناقص ہے، لوگوں کو اپنے آپشنز کے بارے میں شعور نہیں ہے، تو یہی شعور دینے کیلئے ہم اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، ہم  نے امریکا، یوکے، مڈیل ایسٹ اور دیگر جگہوں پر ایسے لوگ بھرتی کررکھے ہیں جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلوں کے عمل سے متعلق مکمل تجربہ رکھتے ہیں، ہم پاکستانی طلباء اور بیرونی یونیورسٹیوں کے مابین ایک پل کا کردار کررہے ہیں۔

ابرار احمان ۔۔۔ بانی Dignosco

        ابرار رحمان نے مزید کہا کہ ہمارا کام کسی شخص کی ذاتی ترقی، اس کی تحقیق اور اسے میسر بیرون ملک تعلیمی مواقع سے متلعق معلومات یقینی بنانا ہے، اور یہ کہ بیرونی یونیورسٹیوں میں داخلے سے متعلق اسے کیا اور کیسے کرنا ہے، ہم انڈرگریجوایٹ، گریجوایٹ ، ایم بی اے کو ڈیل کرتے ہیں اور نوجوان طلباء کو ان کی ذاتی ترقی کے گر بتاتے ہیں۔ پاکستان میں چند ایک تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو طلباء کو فل ٹائم کونسلنگ فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے جو سٹوڈنٹ باہر پڑھنا چاہتے ہیں اگر انہیں دستیاب آپشنز کا علم نہیں تو وہ Dignosco کی خدمات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

        اس کے علاوہ طلباء اکثر اپنی دستیاب آپشنز کے بارے میں کنفوژن کا شکار ہوتے ہیں، ایسی صورت میں بھی Dignosco کی ٹیم ان کی مدد کر سکتی ہے۔

        Dignosco  کے پاس سب سے زیادہ اے لیول کے طلباء آتے ہیں، یہی کمپنی کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، امریکا میں اپلائی کرنے کیلئے آپ کو ایک عمومی طریقہ کار سے گزرنا ہوتا ہے، تمام امریکی یونیورسٹیوں میں کم و بیش ایک ہی قسم کا فارم استعمال ہوتا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا یوکے کا نظام UCAS  ہے، دونوں کیلئے پرسنل سٹیٹمنٹ، تحریری ضمیمہ جات ہونا ضروری ہوتا ہے۔

        یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب شکوک شبہات جنم لیتے ہیں، Dignosco میں کام کرنے والے لوگوں اور کچھ طلباء نے تسلیم کیا کہ مضامین اور سپلیمنٹس لکھنے لیے پرانا ڈیٹا استعمال کیا جاتا ہے اور یوں غلط معلومات کالجز کو فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ سٹوڈنٹ نے کہاں تک لکھا اور ایجنسی نے کہاں سے شروع کیا۔

        اس کے علاوہ یہاں انجنئیرنگ انٹرن شپس فراہم کی جاتی ہیں، انٹرن شپ کیلئے آنے والے لوگ Dignosco کو ادائیگی کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی سی وی کو بہتر بناسکیں، اس کے علاوہ ایجنسی اب ٹریکنگ اور سکوبا ڈائیونگ ٹرپس کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ جس کیلئے لاکھوں روپے لیے جاتے ہیں اور طلباء کو مختلف جگہوں پر لے جایا جاتا جس کے بعد وہ ان سے متعلق لکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

        کمپنی کی سروسز میں مشکوک سرگرمیوں سے متعلق ہمارے سوالوں پر اس کے ڈائریکٹر ابرار احمد نے ابتدائی طلباء کیلئے مضامین سکریچ سے تیار کرنے سے انکار کیا، انجنیرنگ انٹرن شپ سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس میں کچھ بھی عجیب نہیں ہے، بلکہ ٹرپس بھی بالکل جائز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ باتیں ان سکولوں کی جانب سے پھیلائی گئی ہیں جو Dignosco میں اپنے طلباء کو آنے سے منع کرتے ہیں، جبکہ ہم ان اداروں میں ناجائز سرگرمیوں کو کھلے عام چینلنج کرتے ہیں۔

مقابلہ بازی:

        Dignosco مختلف سکولوں کیساتھ حالت جنگ میں ہے، ان سکولوں میں وہ بڑے ایلیٹ سکولز شال ہیں جو اے اور او لیول پڑھاتے ہیں، جب ان سکولوں کا کوئی طالبعلم اچھے نمبروں سے کسی بیرونی یونیورسٹی میں جاتا ہے تو بڑے بڑے بل بورڈز پر اس کی تصویر لگا کر اپنے ادارے کی تشہیر کی جاتی ہے، لیکن اگر یہی سٹوڈنٹ کونسلنگ ایجنسی کے ذریعے باہر جائے تو ظاہر ہے کریڈٹ دو حصوں میں بٹ جائے گا۔  اسی وجہ سی کونسلنگ ایجنسی کو سکولز پسند نہیں کرتے، ابرار رحمان نے بتایا کہ پاکستان میں کسی بھی سکول کا طالب علم ہمیشہ تھرڈ پارٹی سے مشورہ چاہتا ہے، سکولوں میں جانبداری کے مسئلے اور شفافیت کی کمی کی وجہ سے طلباء ہمارے جیسے اداروں کے پاس آتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ طلباء اور والدین کو مختلف نکتہ ہائے نگاہ سے سوچنے اور منطقی طور پر اخذ شدہ نتائج پر مبنی مشورے دیتے ہیں جو کہ کوئی سکول نہیں دے سکتا۔ اسی لیے ہمارے پاس زیادہ لوگ آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طلباء اور والدین کیساتھ ناجز رویہ سکول سکول اپناتے ہیں ہم نہیں۔  بلکہ انہوں نے سکولوں کے نام بھی گنوا دئیے، ایچی سن، لاہور گرائمر سکول اور کراچی گرائمر سکول۔

        ’’ایسی مثالیں موجود ہیں جب ہاورورڈ اور ییل جیسی مشہور یونیورسٹیوں نے پاکستان میں ایل جی ایس جوہر ٹائون برانچ جیسے سکولوں کو خطوط لکھے اور ان سے سٹوڈنٹس کی اکیڈیمک پرفارمنس کے انٹرنل ریکارڈ کے بارے میں پوچھا کیونکہ سکول کا ریکارڈ اے لیول کے امتحانی ریکارڈ کے مطابق نہیں تھا۔‘‘

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کیسے ایچی سن کی انتظامیہ نے اپنے طلباء کو سرکلر جاری کیا ہے کہ اگر انہوں نے ہماری فرم سے کونسلنگ سروسز حاصل کیں تو نتائج کے ذمہ دار خود ہوں گے۔

        ابراررحمان نے ایک ای میل پیغام میں بتایا کہ Dignosco  کے ٹریکنگ اور سکوبا ڈائیونگ ٹرپس سے متعلق انہیں 21اگست 2015 کا ایچی سن کالج کا وہ خط  یاد آ رہا ہے جو اس وقت کالج نے اپنے تمام طلباء کے والدین کو بھیجا تھا۔ جس میں نجی کونسلنگ فرمز پر غیر اخلاقی سرگرمیوں کا الزام لگایا گیا تھا اور ان کی طرف سے وصول کیے جانے والے معاوضے کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا تھا۔ انہوں نے ایچی سن کالج کے مذکورہ لیٹر کا کچھ مندرجات بھی شئیر کیے۔ جس کے مطابق ’’طلباء مختلف یونیورسٹیوں میں فنانشل ایڈ کیلئے اپلائی کرنے کے مجاز نہیں ہونگے، ان کی دستاویزات کی توثیق کی جائیگی نہ ہی وہ اساتذہ یا ایڈمیشن قونصلرز کی جانب سے رپورٹس یا سفارشات حاصل کرنے کے مجاز ہونگے۔‘‘

اکیڈیمک کونسلنگ کی وسیع دنیا:

        ایجوکیشن کنسلٹینسی کا کاروبار پارٹنر اور نان پارٹنر کے ماڈلز پر چلتا ہے، پارٹنرشپ ماڈل میں کونسلنگ فرم بیرونی یونیورسٹیوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہے اور طلباء کی ایک مخصوص تعداد فراہم کرنے پر ایک مخصوص کمیشن حاصل کرتی ہے۔ نان پارٹنر یونیورسٹیوں میں عمومی طور پر سٹینفرڈ، برکلے، آکسفرڈ، کیمبریج وغیرہ جیسی بڑی یونیورسٹیاں شامل ہوتی ہیں۔ چونکہ ان اداروں کی جانب دنیا بھر کے طلباء کا رجحان ویسے ہی زیادہ ہوتا ہے تو اور یہاں داخلے کیلئے کافی مسابقت ہوتی ہے، صرف اچھی اور بہترین داخلہ اپلیکیشن ہی ان یونیورسٹیوں کے دروازے کھول سکتی ہے تو ایسی اچھی اپلیکیشن صرف کونسلنگ فرمز ہی دے سکتی ہیں۔

        اس حوالے سے ابرار احمد نے بتایا کہ ’’ مختلف یونیورسٹیاں بین الاقوامی طلباء کیلئے دنیا بھر میں ایجنٹس مقرر کرتی ہیں، یہ عمل یوکے سے شروع ہوا اور اب کینیڈا، امریکا، آسٹریلیا، ترکی، ملائیشیا  میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔ عام طور پر طلباء کی مخصوص تعداد فراہم کرنے پر ایجنٹس کو ایک مخصوص کمیشن دیا جاتا ہے۔‘‘

        بنیادی طور پر فارن یونیورسٹیاں دنیا بھر میں اپنے پارٹنرز اس لیے بناتی ہیں کیونکہ زیادہ تر ممالک بیرونی سٹوڈنٹس کو لیکر صرف ٹیلنٹ ہی حاصل نہیں کرتے بلکہ ٹیوشن فیس، رہائشی اخراجات کی مد میں ان کی معیشت کو بھی کافی زیادہ آمدنی ملتی ہے۔ اس لیے زیادہ تر تیسری دنیا کے ممالک سے طلباء بھرتی کرنے کیلئے ایجنسی کا ماڈل اپنایا جاتا ہے۔

        جرمن فرم انٹرنیشنل کنسلٹنس فار ایجوکیشن اینڈ فئیرز کے مطابق 2013 میں پاکستان سے کم وبیش چالیس ہزار طلباء بیرون ملک تعلیم کیلئے گئے۔ اب یہ تعداد سالانہ پچاس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

        فرض کریں اگر چالیس ہزار سٹوڈنٹس ہر سال باہرجائیں اور اگر ایک طالبعلم پر سالانہ 30 ہزار ڈالر اخراجات ہوتے ہیں تو ایک محدود تخمینے کے مطابق ہر سال 1.2  ارب ڈالر پاکستانی طلباء بیرون ملک تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، یہ وہ رقم ہے جو پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک سے باہر جاتی ہے اور جن ممالک میں جاتی ہے وہاں کی معیشتیں ترقی کرتی ہیں۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں کو بیرونی یونیورسٹیوں جیسا نہیں سمجھا جاتا۔

        Dignosco مقامی تعلیمی اداروں کیلئے بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے لیکن یہ صرف وہ تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جو بیرونی یونیورسٹیوں کیساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ کیونکہ بعض اواقات طلبہ باہر اپلائی کرتے ہوئے دوسری آپشن کے طور پر مقامی یونیورسٹیوں میں بھی اپلائی کردیتے ہیں۔

        ابرار نے بتایا کہ Dignosco  صرف ایک ایڈوائزری فرم کے طور پر کام کرتی ہے اور ان کا بزنس ماڈل زیاہ تر نان پارٹنر سیگمنٹ کے طور پر ہے تاہم وہ کچھ سال سے پارٹنر شپ ماڈل میں بھی کام کر رہے ہیں۔

         Dignosco  میں مکمل پروفیشنل ماحول فراہم کیا جاتا ہے، انہوں نے اپنے وینچرز کیلئے بہترین بزنس ماڈل بھی تیار کر رکھا ہے، لیکن اس سب کے باوجود ایک بے سکونی کا احساس رہتا ہے، شائد یہ بے سکونی اس وجہ سے ہو کہ دولتمندوں کیلئے یہاں سب سہولتیں حاصل کرنا بالکل آسان ہے، ایسی سروسز دنیا بھر میں ہوتی ہیں، ابرار کیمطابق یو اے ای میں ایسی کوئی بھی سروس 25 ہزار ڈالر اور چین میں تو اس سے بھی زیادہ 60 ہزار ڈالر وصول کیے جاتے ہیں۔

        اورہو سکتا ہے یہ ان کے کام کا تقاضا ہو کہ ایڈمیشن کا عمل شفاف نہ رہے، انہوں نے کالج کونسلنگ کو ایک منافع بخش کاروبار بنا دیا ہے جس کی ڈیمانڈ موجود رہتی ہے اور سپلائی پیدا ہوتی رہتی ہے۔

(اس آرٹیکل کیلئے رپورٹنگ اور ایڈیٹنگ میں عبداللہ نیازی نے بھی مدد کی ہے)

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here