اگر آپکو لاہور کی ایم ایم عالم روڈ جانے کا اتفاق ہو تو آپکو سڑک کی دونوں جانب دور تک کم و بیش ایک جیسی کاروباری آئوٹ لیٹس نظر آئیں گی، یہ سب یا تو ریسٹوران، کیفے وغیرہ ہیں یا پھر کپڑوں کے جدید سٹور ہیں، گلبرگ مین بلیوارڈ سے کچھ میٹر کے فاصلے پر مال وَن ہے، اس میں بھی زیادہ تر ریستوران بنے ہیں اور کچھ کپڑوں کے سٹور ہیں۔
سڑک کے دوسری جانب ’’فنکو‘‘ ہے، یہ ایک ٹریمپو لین پارک ہے، جو شاپنگ سینٹرز اور کھابوں سے الگ نظر آتا ہے، اس کا رقبہ بھی کسی عام شاپنگ مال جتنا ہی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریسٹورنٹس اور شاپنگ مالز سے بھرپور شہر کے اس علاقے میں ایسے پارک کا قیام اچھا کاروباری آئیڈیا ہے؟ ’’منافع‘‘ نے اس بارے میں جاننے کیلئے ایمان بن انور سے بات چیت کی جو ’’فنکو‘‘ کے مالک ہیں۔
اپنا پس منظر بتاتے ہوئے ایمان بن انور نے بتایا کہ انہوں نے چھ سال تک واشنگٹن ڈی سی میں دنیا کی سب سے بڑی بروکریج فرم میرل لنچ میں بطور مالیاتی مشیر اور پرائیویٹ بینکر کام کیا جس کے بعد وہ دبئی میں بھی ایک سوئس بینک میں خدمات سرانجام دی ہیں۔ دو سال دبئی میں کام کرنے کے بعد پاکستان لوٹنے اور اپنا کام کرنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم فنانشل سیکٹر چھوڑ کر ایک ٹریمپولین پارک چلانے میں لگ جانا ہر کسی کے بس ی بات نہیں ہوتی، تاہم ایمان کہتے ہیں کہ انہوں نے مارکیٹ میں اس حوالے سے خلاء دیکھا جس نے انہیں مجبور کیا کہ بچوں کی تفریح کیلئے کچھ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’’میرے بچے پاکستان میں رہتے تھے میں نے دیکھا کہ ان کی تفریح کیلئے کچھ نہیں، والدین بڑے مالز میں جاتے تو جا کر ایک طرف بیٹھ جاتے اور بچے پلے ایریا میں کھیلتے رہتے، لیکن میں چاہتا تھا کہ کچھ ایسا ہو کہ والدین بھی بچوں کی سرگرمیوں کا حصہ بن سکیں۔ ‘‘

تاہم ایمان بن انور کہتے ہیں کہ ان کا پروجیکٹ صرف پلے ایریا کا متبادل نہیں بلکہ یہ جم کے بھی متبادل ہے، سنہ انیس سو اسی میں ناسا کی ایک ریسرچ کے مطابق کوئی بھی شخص دوڑ لگانے یا کوئی دوسری ورزش کرنے کے برعکس ٹرمپولائننگ میں اڑسٹھ فیصد زیادہ آکسیجن حاصل کرتا ہے۔ ہم فٹنس کلاسز بھی متعارف کروا رہے ہیں، ناسا ریسرچ کے مطابق دس منٹ کی اچھل کود تیس منٹ کے ورک آئوٹ کے برابر ہے، تو اس لیے آپ ٹریمپو لین پر تفریح کرتے ہوئے دراصل ورزش کر رہے ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے ایک گولڈ میڈلسٹ جمناسٹ اور واپڈہ کے ساپنسر کردہ ایک اتھلیٹ یہاں ٹریننگ دے رہے ہیں۔ ’’جمانسٹکس اولپمکس کا کھیل ہے لیکن پاکستان میں اس کھیل کی ٹریننگ اور پرویکٹس کیلئے سہولیات نہیں ہیں، صرف ہم ایک ایسی سہولت مہیا کر رہے ہیں جہاں جمناسٹکس کے شوقین آ کر پریکٹس کر سکتے ہیں۔‘‘
پلے ایریاز اور جمز کے متبادل کےباوجود ایمان بن انور کہتے ہیں کہ ان سے کوئی مقابلہ نہیں، بلکہ ہم پلے ایریا اور جم دونوں سہولتیں ایک جگہ فراہم کر رہے ہیں جہاں فیملیز بھی جا سکتی ہیں اور یہ جسمانی سرگرمیوں کیلئے بھی فائدہ مند ہے۔
کیا جمپنگ بزنس کرنے کیلئے بہتر ہے؟
لاہور میں فنکو کا سب سے بڑا مدمقابل بائونس ہے، یہ بھی ایسا ہی ایک پارک ہے جو امپوریم م ال کے اندر بنایا گیا ہے، بائونس چونکہ شہر کی چہل پہل سے قدرے ہٹ کر ہے اس لیے لاہور کی مرکزی جگہ پر ہونے کا فنکو کو زیادہ فائدہ ہے۔ اس حوالے سے فنکو کے مالک نے بتایا کہ شائد اگر ہم بھی کسی دور دزار جگہ پر پارک بناتے تو ہمارے پاس بھی اتنے لوگ نہ آتے جتنے اب آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ عام طور پر خواتین شام سات آٹھ بجے تک فارغ ہو جاتی ہیں اور بچوں کو ایسی جگہوں پر لے جا سکتی ہیں۔ پہلے جو لوگ امپوریم مال جاتے تھے اب یہاں آتے ہیں، بحریہ ٹائون سے بھی لوگ ہمارے پاس آتے ہیں، شہر کا مرکز ہونے کی وجہ سے مضافات سے لوگ زیادہ یہاں آتے ہیں، اس لیے میرا خیال ہے کہ کسی بھی کاروبار کیلئے اس کی لوکیشن سب سے کلیدی حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔
فنکو پر تیس منٹ گزارنے پر ساڑھے سات سو روپے، ایک گھنٹے کے ہزار روپے اور پونے گھنٹے کیلئے آٹھ سو روپے لیے جاتے ہیں اس میں خاص جرابیں بھی دی جاتی ہیں جنہیں پہن کر لوگ یہاں لطف اندوز ہوتے ہیں، عام طور پر جرابوں کا جوڑا ڈیڑھ سو میں فراہم کیا جاتا ہے، یہاں پندرہ سو روپے میں آپ لامحدود وقت کیلئے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اس دوران جرابیں اور پانی کی بوتل بھی دی جاتی ہے، پانچ سے کم عمر بچوں پر تیس منٹ کیلئے ساڑھے پانچ سو جبکہ ایک گھنٹے کیلئے ساڑھے سات سو روپے چارج کیے جاتے ہیں۔
ایمان کے مطابق فنکو میں قیمتیں دنیا بھر میں اسے پارکس میں قیمتوں کی نسبت ساٹھ فیصد کم ہیں، سکول جاتے بچے اپنی شناخت دکھا کر ویک اینڈز پر پچاس فیصد ڈسکائونٹ حاصل کر سکتے ہیں ان سے تیس منٹ کے پونے چار سو روپے لیے جاتے ہیں۔
تاہم بائونس کی نسبت فنکو پر چارجز زیادہ ہیں، بائونس پر پونے گھنٹے کیلئے جرابوں سمیت چار سو رپے چارج کیے جاتے ہیں جو فنکو کے اسی دورانیے کے وقت کے مطابق آدھے ہیں۔ لیکن چارجز زیادہ ہونے کی وجہ ایمان بن انور یہ بتاتے ہیں کہ ان کے پارک میں عالمی معیار کو مدنظر رکھا گیا ہے، پورا پارک یوکے میں تیار ہوا اور اس کی دیکھ بھال کی ساری ٹیم بھی باپر سے آئی ہے۔ ’’بین الاقوامی معیار کے مطابق ایک جمپ واضح طور پر ساڑھے انیس فٹ کا ہونا چاہیے۔ ہمیں اس معیار تک پہنچنے کیلئے اپنے ائیرکنڈیشننگ یونٹس کو مزید اونچا کرنا پڑا، پاکستان مین یہ اپنی نوعیت کا واحد پارک ہے جو عالمی معیار کے عین مطابق ہے۔
اس علاقے میں دیگر بزنسز کے برعکس ایمان بن انور نے اپنے اس پروجیکٹ کیلئے کوئی تعارفی تقریب منعقد نہیں کی تھی۔ لیکن اس کے بغیر بھی اور چارجز زیادہ ہونے کے باوجود بھی کارورباری لحاظ سے یہ پروجیکٹ گزشتہ چار ماہ سے اچھا چل رہا ہے تاہم انہوں یہاں آنے والے لوگوں کی تعداد، آمدنی اور منافع کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا، تاہم پرنٹ میڈیا پرنٹ میڈیا میں چھپنے والی رپورٹس کے مطابق ویک اینڈز پر کم و بیش پانچ سو افراد یہاں آتے ہیں۔
یہاں ہر کسی کیلئے کچھ نہ کچھ موجود ہے:
فنکو کو دیگر جگہوں سے جو چیز ممتاز بناتی ہے وہ یہ کہ یہاں ہر قسم کے لوگوں کیلئے کچھ نہ کچھ موجود ہے، اس حوالے سے ایمان نے بتایا کہ ’’ہماری ٹارگٹ مارکیٹ دو سال سے لیکر اوپر تک کے سب لوگ ہیں، زیادہ تر کسٹمر بارہ سے اٹھارہ سالہ نوجوان ہیں۔ اس کے علاوہ سکولوں اور کالجوں کے طلباء و طالبات آتے ہیں، ہمارے یہاں کمسن بچوں اور عمر رسیدہ کیلئے علیحدہ ایک جگہ موجود ہے‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ بہت سارے سکول اپنے طلباء کو فیلڈ ٹرپ کیلئے فنکو پر لیکر آتے ہیں، لاہور امریکن سکول، لاہور گرائمر سکول، بیکن ہائوس سکول، سکاس، سٹی سکول وغیرہ سب فنکو میں آتے ہیں۔
دسمبر سنہ دو ہزار اٹھارہ میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پانچ ہزار ماہانہ سے زیادہ فیس لینے والے سکول بیس فیصد کم کردی جسکی وجہ سے بڑے نجی سکولوں کی آمدن پر خاطرخواہ اثر پڑا ہے، تاہم ذرائع نے یہ الزام لگایا کہ سکولوں کے رابطے کی وجہ سے ہو سکتا ہے فنکو کو کسٹمرز آسانی مل گئے ہوں تاہم سکولوں نے طلباء سے اضافی رقم ہتھیانے کا ایک اور راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔
ایمان نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے بھی ایسی رپورٹس سنی ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ سکولوں کو بہترین پیکج دیتے ہیں، سکول کیا کرتے ہیں یہ ہمیں معلوم نہیں اور یہ سکولوں اور والدین کے مابین یکطرفہ معاملہ ہے، اگر سکول ہمارے پیکجز سے زیادہ چارج کرتے ہیں تو اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن سنا ہے کہ ایسا ہو رہا ہے، تاہم میں نے اس کی تصدیق نہیں کی۔
دوسری جانب کارپوریٹ سیکٹر کو وہ تیس فیصد ڈسکائونٹ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مخلتف کمپنیوں اور چھوٹے سٹارٹ اپس سے فنکو کو الگ سے آمدن ہوتی ہے۔ ایمان نے بتایا کہ دیگر ممالک کی طرح کمپنیاں اپنے سٹاف کی ٹیم بلڈنگ کیلئے انہیں مختلف ٹورز پر لیکر جاتی ہیں فنکو بھی ایسے ٹورز کیلئے پلیٹ فارم مہیا کرتا، یہاں کمپنیوں کے سٹاف کیلئے کھانے، کھیلے سمیت دیگر سرگرمیاں ہوتی ہیں۔
مستقبل میں ایمان ایسے پارکس بنانے کا ارادہ رکھنے والوں کیلئے کنسلٹنسی سروس شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی آکر ہمیں یہ کہے کہ ایسا بڑا پارک نہیں بنانا چاہتے تو ہمیں انکی خواہش کے عین مطابق ڈیزائن بنا کر دینے میں بے حد خوشی ہوگی۔ اس طرح یہ ایک اوپن بزنس ماڈل ہے جس سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔