نادرا کی نئی ویزا پالیسی، حکومت نے چند ہی ماہ میں کامیابی سے چلا کر دکھا دی

نئے ویزا ایپلیکشن سسٹم کی تیزی اور اچھی کارکردگی نے پاکستان آنے کے خواہشمند غیر ملکیوں کو بھی خوشگوار حیرت سے دوچار کردیا

713

پاکستان میں ہمیں حکومت کے کسی کام کے حوالے سے “تیز” اور “موثر” جیسے الفاظ سننے کی عادت نہیں‌ ہے اسی لیے جب کبھی کوئی کام معمول سے ہٹ کر تیزی سے اور موثر طور پر ہو جائے تو وہ ناصرف پاکستانیوں کیلئے بہت زیادہ خوشی کا باعث بنتا ہے بلکہ خبروں کی زینت بھی بن جاتا ہے.

یہاں جو پالیسی زیر بحث ہے وہ آن لائن ویزا پالیسی ہے جو حکومت نے رواں سال کے آغاز میں متعارف کرائی ہے اور اب تک ہزاروں افراد کامیابی سے اس سے استفادہ کرچکے ہیں. جو چیز اس پالیسی کو نمایاں‌ کرتی ہے وہ یہ نہیں کہ یہ پالیسی کامیابی سے چل رہی ہے بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ یہ پالیسی حکومت نے بنائی اور چند ہی ماہ میں کامیابی سے چلا کر بھی دکھا دی ہے.

دسمبر 2018ء میں وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود نے اعلان کیا تھا کہ دیگر ممالک کے شہریوں کی پاکستان آمد آسان بنانے اورویزا کی راہ میں حائل مشکلات اور رکاوٹیں دور کرنے کیلئے حکومت ایک نئی ویزا پالیسی بنانے پر غور کر رہی ہے، جنوری میں اس پالیسی کا مسودہ وزیر اعظم کو پیش کیا گیا اور ترمیم و اضافے کے بعد فروری میں منظور بھی ہو گیا.

14 مارچ 2019ء کو وزیر اعظم عمران خان نے آن لائن ویزہ ایپلیکشن سسٹم کا افتتاح کردیا. گزشتہ دو ماہ کے دوران اس سسٹم کو 3 ہزار افراد نے استعمال کیا گیا اور یہ کامیابی سے چل رہا ہے.

نیا ویزہ سسٹم کیوں ضروری ہے؟
آپ کی نظر سے ایسے آرٹیکلز تو گزرے ہوں گے کہ پاکستان کمزور ترین پاسپورٹ کے حامل ممالک میں سے ہے، یہ بھی آپ نے پڑھ رکھا ہوگا کہ جرمنی، برطانیہ، کینیڈا اور امریکا کے پاسپورٹ دنیا میں سب سے طاقتور سمجھے جاتے ہیں یعنی ان ممالک کے شہریوں کو دنیا کے کم وبیش 170 سے زیادہ ممالک میں ویزہ کے بغیر داخلہ مل جاتا ہے.

اب ذرا اس مسئلے کو حکومت کے نقطہ نظر سے دیکھیے. ایسے ممالک جہاں کے شہری عام طور پر زیادہ دولتمند سمجھے جاتے ہیں وہ اگر پاکستان آئیں‌ تو اچھی خاصی رقم خرچ کریں گے، لیکن وہ پاکستان کیوں آئیں گے جبکہ وہ ویزا کے بغیر 170 سے زیادہ ممالک میں جا سکتے ہیں. دنیا بھر سے سیاحوں کی پاکستان میں زیادہ آمد ممکن بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ویزا کی مشکلات دور کی جائیں اور یہی چیز نئی ویزا پالیسی میں شامل ہے.

اب 50 ممالک کے شہریوں کیلئے صرف 48 گھنٹے کے نوٹس پر پاکستان کا سفر ممکن ہے، انہیں ویزا کے لیے اپلائی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں‌ بلکہ ایک سادہ سا آن لائن فارم بھر کر وہ پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں.

ان ممالک میں زیادہ ترمغربی یورپ اور خیلجی ممالک شامل ہیں تاہم چند لاطینی امریکی اور افریقی ممالک بھی شامل ہیں، یہ بات عجیب لگے گی کہ اس فہرست میں امریکا اور برطانیہ شامل نہیں. (شائد یہ ریمنڈ ڈیوس والے واقعے کی وجہ سے ہے).

کاروباری غرض سے پاکستان آنے والے 95 ممالک کے شہری اس سسٹم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، ان میں شمالی و جنوبی امریکہ کے زیادہ تر ممالک، یورپ ، مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیاء کے قریباََ تمام ممالک اور افریقہ کے ایک تہائی ممالک شامل ہیں جو پاکستان کی نئی ویزہ پالیسی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.

اس کے علاوہ بھارت اور افغانستان سمیت 14 ممالک کے شہریوں کیلئے بھی ویزا سسٹم میں آسانیاں پیدا کی گئی ہیں وہ بھی آن لائن ویزا لے سکتے ہیں.

یہ سسٹم کام کیسے کرتا ہے؟
جن 50 ممالک کو ‘ویزا آن ارائیول’ کی سہولت دی گئی ہے ان ممالک کے شہریوں کو عام ویزا کی نسبت کچھ زیادہ تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی. انہیں پاکستان میں داخلے کیلئے اپنی تصویر کے علاوہ پاسپورٹ کی تصویر اور قیام کے لیے ہوٹل کے بارے میں معلومات آن لائن دینا ہوں گی، یہ تفصیلات دینے کے بعد 48 گھنٹوں کے اندر ویزا سے متعلق معلومات دے دی جائیں گی.

جو ممالک اس فہرست میں شامل نہیں ان کیلئے بھی یہی طریقہ کار ہے تاہم وہاں کے شہریوں کو پاکستان میں داخلے کیلئے جواب کا انتظار 48 گھنٹوں کی بجائے ایک سے ڈیڑھ ہفتے تک کرنا ہوگا.

میں نے حال ہی کچھ امریکی دوستوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی، ویزہ ایپلیکشن پراسس کے حوالے سے ان کے تجربات سے معلوم ہوا کہ انہیں ویزا حاصل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا، ایک درخواست کا جواب آنے میں جو وقت لگتا ہے وہ کسی حد تک مختلف ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی 10 دن سے زیادہ وقت نہیں لگتا جیسا کہ حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے.

مثال کے طور پر میرے ایک دوست نے واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے سے ویزا کیلئے اپلائی کیا وہاں زیادہ تر لوگوں کو 7 سے 9 دن میں ویزا ملا، اگرچہ یہی سے ایک شخص 2 دن سے بھی کم وقت میں ویزا حاصل کرسکتا ہے.

لاس اینجلس میں واقع پاکستانی قونصلیت کسی حد تک تیز کام کرتا ہے کیونکہ وہاں سے ایک دوست نے 48 گھنٹے میں ویزا حاصل کرلیا جبکہ ان دو دنوں کے دوران امریکا میں ایک دن کی چھٹی بھی تھی.

میں نے اسٹام پیپر پر مصدقہ دعوت نامے اپنے دوستوں کو بھیجوائے جنہیں سکین کرکے انہوں نے نادرا کے آن لائن ویزا ایپلیکشن سسٹم پر اپ لوڈ کر دیا، اس کے اپنی تصاویر اور پاسپورٹ کی تصاویر بھی اپ لوڈ کیں، زیادہ تر نے اپنے موبائل فون سے ہی پاسپورٹ سکین کیا اور تصاویر بھی بغیر کسی مخصوص بیک گرائونڈ کے بنائی گئیں، نادرا نے کسی بھی مرحلے پر ڈاکومنٹس سے متعلق مسئلہ پیدا نہیں کیا.

اسی طرح کسی بھی مرحلے پر انہیں اپنا پاسپورٹ سفارتخانے یا قونصلیٹ میں بھیجنے کی ضرورت نہیں‌پڑی، ایسے لوگ جن کے پاسپورٹ پر ائیرپورٹ آمد پر مہر لگائی جاتی ہے اور ویزا حاصل کرنے کیلئے کئی کئی دن پاسپورٹ پاس نہیں رہتا، ایسے افراد کیلئے نیا سسٹم زیادہ پر کشش ہے.

مئی میں پاکستان کے ویزا کیلئے اپلائی کرنے والے ایک امریکی شہری نے بتایا کہ انہوں نے آن لائن سسٹم پر اپلائی کیا اور ایک ای میل کے ذریعے انہیں بتایا گیا کہ سسٹم پر لاگ اِن ہو کر ویزا لیٹر ڈائون لوڈ کرلیں، انہوں نے کہا کہ ویزا لیٹر پر کیو آر کوڈ تھا، آپ کو صرف یہ لیٹر ساتھ لانے کی ضرورت ہوتی ہے، پاسپورٹ کے ساتھ قونصلیٹ جانے کی بالکل ضرورت نہیں بلکہ آپکا پاسپورٹ بھی ہر وقت آپ کے پاس ہی رہتا ہے.

باقی ممالک کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “یہ سب سے بہترین ویزا سروس تھی، میں نے قونصلیٹ کو ای میل کرکے کچھ سوالات پوچھے اور وہاں کا سٹاف توقع کے برعکس کافی مددگار ثابت ہوا، انہوںنے فوری میری درخواست دیکھی اور مجھے بتایا کہ سب کچھ ٹھیک ہے کچھ دن میں‌آپ کو ویزہ مل جائے گا.”

یہ پالیسی کیسے اور کیوں کامیاب ہو رہی ہے؟
دیگر بہت ساری پالیسیوں کی نسبت موجودہ حکومت کی پالیسی کیوں کامیاب رہی یہ جاننے کیلئے کچھ تفصیلات معلوم ہونا ضروری ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ اس میں حکومت بھی شامل ہے جو خود اپنی پالیسیاں بدل رہی ہے، یہ کام کرنا سادہ اور آسان ہے بجائے اس کے ملک کے ٹیکس نظام کو ٹھیک کرنا.

دوسری اہم وجہ یہ کہ اس پالیسی کے نفاذ کی ذمہ داری سول سروس کی بجائے نادرا کو دی گئی، اس طرح سرخ فیتہ اس پالیسی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا.

نادرا کی اچھی کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈاکٹر عشرت حسین کی سول سروس میں اصلاحات کی کوششیں قطعی ضروری ہیں. ڈاکٹر عشرت کی تجاویز یہ ہیں کہ سول سروس کو لچکدار ہونی چاہیے یعنی نجی شعبے سے قابل لوگ سول سروس میں شامل ہو کر حکومت کی مدد کر سکیں اور کام مکمل ہونے پر واپس اپنے شعبے میں چلے جائیں.

اگرچہ نادرا وزارت داخلہ کے تحت ہے لیکن اس میں ملازمت کیلئے سول سروس کا امتحان پاس کرنا ضروری نہیں. نا ہی عمر بھر نادرا میں کام کرنے کی ضرورت ہے، آپ ایک سال نادرا میں کام کریں اور چھٹی لیکر کچھ اور کرلیں.

نادرا میں ٹیلنٹ کے معیار کا موازنہ کسی بھی اچھے نجی ادارے سے کیا جا سکتا ہے. نادرا کسی بھی دوسرے سرکاری ادارے سے بہتر کام کر رہا ہے اور یہ صرف نادرا کی حد تک ہی نہیں بلکہ ہر وہ ادارہ جو سول سروس کے تحت نہیں ہے وہ بہتر کام کر رہا ہے. پاکستان میں اچھے ماہرین معاشیات وزارت خزانہ یا معاشی امور ڈویژن میں کام کرنے کی بجائے سٹیٹ بینک یا کسی ایسے آزاد اور خودمختار ادارے میں کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جو کئیرکیر کی کسی بھی سٹیج کر شامل ہو جاتے ہیں.

اسکا مطلب یہ نہیں کہ سول سروس ہونی ہی نہیں چاہیے بلکہ سینئر سرکاری عہدوں پر اس کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے، جو لوگ سیاسی قدکاٹھ بڑھانے اور اپنی طاقت بنانے کی بجائے سرکاری نوکری کو کئیریر سمجھ کر کرتے ہیں وہ حکومتی مقاصد حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں.

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here