23 جنوری 2019ء کو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے رواں مالی سال کے تیسرے ضمنی بجٹ پر حزب اختلاف کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اب حکومت کیسے ان مشکل چیلنجز سے نپٹے گی جو چند ماہ میں سامنے آنے والے ہیں۔
بدھ کو پیش کئے جانے والے منی بجٹ کے بعد کاروباری حلقوں کی جانب سے مثبت ردعمل سامنے آیا ہے اور ان حلقوں کی جانب سے حکومت کے کاروبار دوست بجٹ کو خوب سراہا گیا ہے۔
تاہم وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے جمعرات کو ہونے والی نیوز کانفرنس میں اعتراف کیا کہ ضمنی بجٹ اور معاشی اصلاحات سے بجٹ اور کرنٹ خساروں پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔
اسد عمر نے اعتراف کیا کہ رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کم کرنے اور موبائل فون کارڈز پر ٹیکس ختم کرنے سے بھی ریونیو شارٹ فال ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ منی بجٹ کے اطلاق سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ٹیکس وصولی میں 6 ارب 80 کروڑ روپے کی کمی ہو گی۔
تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ معیشت میں سرمایہ کاری بڑھے گی، بنیادی ڈھانچہ اور زراعت میں بہتری آئے گی تو ٹیکس بھی ملیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے برآمدات اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے، گیس کے شعبے اور ٹیکس کے نظام میں وسیع پیمانے پر اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔
تاہم فچ سولیوشنز کی جانب سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک کی جانب سے آنے والے چند مہینوں میں روپے کی قدر میں مزید کمی کے امکانات ہیں۔
اور ریسرچ کے ادارے کے مطابق مقامی کرنسی بیرونی زرمبادلہ ذخائر کی کمی کی وجہ سے مسلسل دباؤ کا شکار ہے جو روپے کی قدر میں گراوٹ کا سبب ہے۔
پرافٹ سے بات کرتے ہوئے عارف حبیب لمیٹڈ کے ریسرچ ہیڈ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ ’’ٹیکس میں کمی تقریباََ 6.8 ارب روپے ہوگی جو کہ 30 کھرب روپے کی وصولی کے ہدف کیلئے بالکل بھی خوش آئند نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ بجٹ سرمایہ کاروں کیلئے فائدہ مند ہے۔ اس سے کاروبار کی لاگت میں کمی اور پیداوار میں اضافہ ہوگا اور سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔‘‘
پاک کویت انویسٹمنٹ کے اسسٹنٹ وائس پریزیڈنٹ کی جانب سے بھی منی بجٹ کو خوش آئند قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا امید ہے کہ 20-2019ء کے بجٹ میں تمام کمیوں کو پورا کر لیا جائے گا۔
کیپیٹل مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے پیشکش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عدنان شیخ نے کہا کہ ’’کیپیٹل مارکیٹ کے استحکام کیلئے جو اقدامات کئے گئے ہیں ان میں حقیقت سے زیادہ بناوٹ ہے۔ ظاہر ہے کہ سرمایہ کار ٹیکس نظام میں تبدیلی کی وجہ سے خوش ہیں لیکن جن بروکرز اور سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے ان کیلئے کوئی اقدامات کیوں نہیں کئے؟ بروکر کیلئے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ مارکیٹ میں ٹیکس کی شرح میں کمی آئے گی۔ بڑے ادارے اور گروپس جو منافع کما رہے ہیں وہ ٹیکس میں کمی کو لازمی طور پر سراہیں گے۔‘‘
عدنان شیخ نے تعجب کا اظہار کیا کہ چھوٹے سرمایہ کاروں کو ان اعلانات سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’’جب خساروں میں رعایت دی جائے گی تو بڑے ادارے اسے لازمی طور پر خوش آئند کہیں گے۔‘‘
حکومت نے فائلرز حضرات کیلئے بینکوں سے رقوم نکلوانے پر ود ہولڈنگ ٹیکس معاف کر دیا ہے جو ایک حوصلہ افزاء خبر ہے اور منی بجٹ میں نان فائلرز کیلئے 800 سی سی سے 1300 سی سی تک کی کار کی خریداری پر پابندی بھی ہٹا لی ہے۔
تاہم گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کے نادہندہ ٹیکسٹائل، سی این جی اور زراعت سمیت دیگر شعبوں کو دی گئی 50 فیصد رعایت کی پیشکش ضائع جائے گی جو مسلم لیگ ن کے دور سے واجب الادا ہیں۔
جی آئی ڈی سی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عدنان شیخ کا کہنا تھا کہ ’’زراعت کے شعبے پر اس حوالے سے خاص اثرات مرتب نہیں ہوں گے اسی وجہ سے بجٹ تقریر میں اعلان کردہ یوریا کی قیمتوں میں کمی صرف خام خیالی ہو سکتی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اسد عمر کی تقریر کی وجہ سے عام خیال یہ ہے کہ گیس نادہندگان کیلئے 50 فیصد کٹوتی یوریا کی قیمتوں میں بھی کمی کا باعث بنے گی۔ لیکن ان کیلئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ 385 روپے کے تھیلے پر جی آئی ڈی سی کے اضافی بوجھ کے بعد اس کی قیمت 350 روپے فی تھیلہ ہے اور جی آئی ڈی سی کے اطلاق پر اس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ قیمتوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے اور اگر ایسا ہوا بھی تو محض 50 یا 100 روپے کی کمی ہوگی۔‘‘
عدنان شیخ اس بات پر یقین رکھتے ہیں جی آئی ڈی سی کی جانب سے آسان ادائیگیوں کی پیشکش سے مثبت ثمرات حاصل ہوں گے۔ حکومت کو عدالت کی جانب سے اسٹے آرڈر کی وجہ سے ابھی تک ادائیگیوں کا سلسلہ رکا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’جی آئی ڈی سی کی وصولیوں اور گیس پائپ لائن کی تعمیر و مرمت کیلئے اس کے اقدامات سے لائن لاسز اور گیس چوری میں کمی ہوگی جس سے معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔‘‘
دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے بیل آؤٹ پیکج کیلئے رجوع کا معاملہ ابھی تک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔
جب آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ ’’حکومت وہی کرے گی جو معیشت کیلئے بہتر ہو۔ اچھے ہوں یا مشکل حکومت معیشت کی بہتری کیلئے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔ جو بھی ہم آئی ایم ایف کے پیچھے نہیں چھپیں گے۔ حکومت اس وقت آئی ایم ایف سے رسمی مذاکرات کر رہی ہے۔‘‘
آئی ایم ایف سے رجوع کے حوالے سے سوال پر طارق کا کہنا تھا کہ ’’میرا خیال ہے کہ جیسے جیسے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں کمی ہوگی حکومت کی مذاکرات میں پوزیشن بہتر ہوگی۔‘‘
اس کے برعکس عدنان شیخ کا ماننا ہے کہ آئی ایم ایف کیلئے بھی یہ صورتحال حیران کن ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت قرضوں سے متعلق امریکی اداروں پر کم سے کم انحصار کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔
عمومی طور پر ضمنی بجٹ زیادہ سے زیادہ ٹیکس اور ٹیکس وصولیوں کو پروان چڑھاتے ہیں تاہم آمدن اور اخراجات میں واضح فرق پریشان کن امر ہے۔
حکومت کی جانب سے اعلان کردہ اقدامات کے نتائج کچھ ماہ میں ہی ملنا شروع ہو جائیں گے جس پار سرمایہ کاروں، کاروباری حضرات اور اپوزیشن کی بھرپور نظر ہوگی۔