بینک نے ہیکنگ حملے کا معاملہ چھپانے کی کوشش کی، ایف آئی اے

479

گزشتہ ماہ سامنے آنے والے آن لائن بینکنگ فراڈ کی تحقیقات کرنے والے تفتیشی افسران نے دعویٰ کیا ہے کہ متعلقہ بینک نے معاملہ چھپانے کی کوشش کی جس سے بینکنگ سیکٹر کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کمزور ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔اس سلسلے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے) کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 44 ممالک میں موجود ہیکرز نے ’ویزا‘ کے ذریعے رقم کی منتقلی کے طریقہ کار کو نشانہ بنایا جس کے بعد بینک اور بین الاقوامی طور پر رقوم کا تبادلہ کرنے والی کمپنی نے ایک انٹرنیشنل فرانزک آڈٹ ماہر کی خدمات حاصل کی تا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک بین الاقوامی ماہر کی رپورٹ کا انتظار ہے جس سے بینکنگ سیکٹر اور ایف آئی اے کو مدد ملے کی ککہ مستقبل میں اس طرح کے ہونے والے حملوں کو کس طرح روکا جائے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے بھی مذکورہ معاملے کی تحقیقات کررہی ہے اور اس کے لیے ان 44 ممالک سے مدد بھی طلب کی گئی ہے جہاں سے ہیکرز کا تعلق ہے۔ایک طرف پاکستان کا ان ممالک کے ساتھ ثبوتوں کے تبادلے یا مشترکہ تحقیقات کا معاہدہ موجود نہیں دوسری جانب ایف آئی اے کے تفتیش کاروں کو بینکنگ سیکٹر سے بھی عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑا۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق کچھ حیرت انگیز معاملات سامنے آئے ہیں جن میں ایک ہی دن میں 5 لاکھ روپے کی خطیر رقم نکلوانا بھی شامل ہے جس کے بارے میں بینکنگ حکام نے جواب دینے سے گزیز کیا کہ اتنی بڑی رقم نکلوانے پر اے ٹی ایم نے انکار کیوں نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری تفتیش اس بات پر مرکوز نہیں کہ رقم کے مالکان کو ان کی رقم واپس ملے بلکہ ہماری کوشش ہے کہ مستقبل میں اس جرم کو دوبارہ ہونے سے روکا جائے۔اس ضمن میں اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے بتایا کہ 2 نئے قسم کے فراڈ کے طریقہ کار’پیشنگ ‘اور’ویشنگ‘ سامنے آئے ہیں، پیشنگ میں دھوکہ دہندگان ای میل بھیج کے ذاتی معلومات دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ، اور ای میل متعلقہ بینک کی جانب سے بھیجی گئی معلوم ہوتی ہے۔دوسری جانب ’ویشنگ‘ میں دھوکہ دہندگان کسی شخص کو کال کرتےہیں اور اپنے آپ کو بینک کا نمائندہ یا سرکاری افسر ظاہر کر کےاس سے معلومات کی تصدیق کرنے کا کہتے ہیں۔اس سلسلے میں بینک نے اکاؤنٹ رکھنے والے افراد کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی آئی ڈی میں کسی دیے گئے لنک سے لاگن نہیں ہوں او ر یہ بات ذہن میں رہے کہ بینک کبھی آپ سے آپ کی آئی یا پاسورڈ نہیں پوچھتا۔اس سلسلے میں سینیٹ میں بتایا گیا کہ بینک اکاؤنٹس سے رقم نکالنے کے معاملے میں اکاؤنٹ ہولڈرز کو نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا کیوں کہ یہ ضمانت دہندہ کی ذمہ داری ہے۔وزارت خزانہ کی جانب سے سینیٹ میں جمع کروائے گئے تحریری جوب میں بتایا گیا کہ صرف ایک بینک کے علاوہ دیگر بینکس کا ڈیٹا محفوظ ہے اوران کا ڈیٹا ہیک نہیں ہوا۔سینیٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ اسٹیٹ بینک نے پاکستان میں بینکنگ کے شعبے کی حفاظت کی غرض سے ایک منصوبہ ترتیب دیا ہے تا کہ کسی قسم کے سائبر حملے کی روک تھام کی جائے۔یہ خبر 24 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here